آہ دینا ناتھ شرما …!!!

 
 ابتدائی دور میں راجوری پونچھ میں تعلیم کا چراغ روشن کرنے والے اساتذہ کی صف میں شامل ایک چراغ دینا ناتھ شرما کی صورت میں آج بجھ گیا ۔ 91سال کی عمر میں جناب ماسٹر دینا ناتھ شرما کو7اکتوبر2020کو اس دنیا سے الوداع کہا گیا لیکن انھوں نے علم کے نور سے جس طرح سے لوگوں کو روشن کیا ہے اس ی روشنی کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ 
 درہال ملکاں کے جناب گرن دت شرما کے گھر میں 19جنوری 1930کو ایک بیٹا پیدا ہوا۔ والد نے نام دینا ناتھ رکھ دیا۔ جناب دینا ناتھ شرما نے پرائمری سکول کا امتحان درہال سے پاس کیا اور مڈل کی پڑھائی کیلئے راجوری کا رخ کیا ۔ راجوری سے مڈل پاس کرنے کے بعد ان کو آگے کی پڑھائی جاری رکھنے کا شوق بڑھا تو گھر والوں نے کشمیر یونیورسٹی میں داخلہ کرایا جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔  پہلی بار وہ1949میں  پرائمری سکول ڈوڈاج میں 30روپے کی ماہانہ تنخواہ پر مقرر کئے گئے ۔ انہوں نے ادیب کامل اور ادیب فاضل بھی کیا اور بعد میں لیکچرار کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1985میں نوکری سے سبکدوش ہوئے۔ درہال میں دینا ناتھ شرما نے تعلیم کو پھیلانے کا بطور ٹیچر کافی کام کیا۔ ان کے دیگر ساتھیوں میں ڈوڈاج کے جناب وجاہت ملک، راجوری کے جناب عبد الرشید زرگر، کشمیر کیلن کے جناب عبد الرشید شادا، فتح پور کے جناب وزیر محمد اور پونچھ کلائی کے جناب محمد امین شامل تھے جنہوں نے مل کر درہال علاقے میں تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کا کام کیا۔ 
 2014ء میں راقم کو اس استاد سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ جس دن ملاقات ہوئی، اس دن جناب دینا ناتھ شرما اپنے بیٹے جناب پردیپ کمار شرما کے گھر میں اپنا 84واں جنم دن منا رہے تھے۔ یہ 19جنوری2014کی بات ہے جب راقم کی ملاقات ان سے ہوئی اور اس روز انھوں نے اپنی زندگی کے تمام حالات و واقعات راقم کے سامنے رکھے جن کو قلمبند کرکے راقم نے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔ 
 جناب دینا ناتھ شرما سے معلوم ہوا کہ راجوری کے درہال علاقے میں 1930سے قبل دو سکول کام کررہے تھے اور اس علاقے میں کچھ مقامی ٹیچروں کے علاوہ زیادہ تر اساتذہ کشمیر، لاہور، کوٹلی، میر پور اور بھمبر سے تعینات تھے۔جناب دینا ناتھ کے مطابق بدھل علاقے میں بٹوارے سے قبل تعلیمی بیداری پھیلانے میں راجہ دلاور خان کا اہم رول رہا تھا جو کوٹلی (موجودہ پاکستانی زیر انتطام کشمیر) کے رہنے والے تھے اور مہاراجہ کے دور میں پولیس آفیسر کے بطور بدھل میں تعینات تھے۔پولیس میں سروس کے باوجود انہوں نے تعلیمی و ملت کا کام کیا ۔  
 درہال علاقے میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے وقت ہی ایک بیسک سکول کھولا گیا تھا جبکہ ڈوڈاج میں بھی ایک سکول قائم کیا گیا تھا جہاں تعلیمی سلسلہ راجوری کیساتھ ساتھ پروان چڑھ رہا تھا۔ جموں کشمیر کے بٹوارے سے قبل اس علاقے میں کشمیر کے شوپیاں  علاقے کے ایک استاد عبد الحمداور ماسٹر محمد ابراہیم کافی سرگرم اساتذہ مانے جاتے تھے ۔ ان کے علاوہ فتح پور کے ماسٹر الحاج محمد شفیع بھی قابل ٹیچر مانے جاتے تھے جنہوں نے اس دور میں اس علاقے میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر تعلیم کا رواج پیدا کیا تھا۔  
جناب دینا ناتھ کے مطابق ماسٹر محمد ابراہیم اس علاقے کے وہ ٹیچر تھے جو اپنی تنخواہ بھی سکولوں کی تعمیر میں صرف کرتے تھے اور چھٹی کے دن بھی سکول چلاتے تھے۔ ان کے اندر جنون تھا اور اسی کی وجہ سے اس علاقے میں تعلیمی سرگرمیوں کو کافی فروغ ملا۔ یہ وہی ماسٹر محمد ابراہیم ہیں جن کی بہترین سروس کے اعتراف میں ریاستی سرکار نے انہیں 1970میں بیسٹ ٹیچر ایوارڈ دیا تھا اور یہ ایوارڈ ان کو گورنر ایل کے جہا کے ہاتھوں 26جنوری1972میں مولاناآزاد سٹیڈیم جموں میں ملا تھا۔ ماسٹر محمد ابراہیم 1925میں نڈیاں درہال گائوں میں پیدا ہوئے اور  ابتدائی تعلیم اگر چہ راجوری میں شروع کی تاہم پانچویں کے بعد انہوں نے ہائی سکول شوپیاں میں داخلہ لیا اور 1940میں پنجاب یونیورسٹی لاہور  کے تحت میٹرک کا امتحان فسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ حالانکہ اس دن میٹرک پاس کو براہ راست تحصیلدار کے بطور تعینات کرتے تھے لیکن انہوں نے ٹیچر بننے کی پہلے ہی ٹھان لی تھی اسلئے1943کے آس پاس پرائمری سکول ڈوڈاج درہال سے بطور ٹیچر ملازمت شروع کی ۔ اس علاقے میں یہ ایسی شخصیت تھی جو فارسی، عربی انگریزی اور مقامی زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ ماسٹر دینا ناتھ جی کہتے ہیں کہ ماسٹر محمد ابرہیم نے ملہت کے مقام پر اپنی تنخواہ جمع کرکے سکول بنایا تھا اور اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ وہ یتیم اور غریب لوگوں کو دیتے تھے تاکہ وہ اسکول کی فیس بھر سکیں اور تعلیم کا رواج پیدا ہوسکے۔ انہوں نے تعلیم کو پھیلانے کیلئے نہ کوئی چھٹی دیکھی اور نہ گھر کا آرام حاصل کیا۔ گھر پر بھی طلباء کو مفت تعلیم دیتے تھے۔ 1970میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور  18اکتوبر2004میں 80سال کی عمر میں ابدی نیند سوگئے لیکن اپنے پورے علاقے کو علم کا نور پہنچا کر تا قیامت صدقہ جاریہ حاصل کیا۔ 
 جس زمانے میں ماسٹر دینا ناتھ جی پیدا ہوئے اسی زمانے میں درہال علاقے میں منشی نیاز علی کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام غلام فاطمہ رکھا گیا ۔ یہ وہی غلام فاطمہ ہے جو اس علاقہ کی پہلی خاتون ٹیچر بنی اور اس کی شادی درہال کے پہلے ٹیچر ماسٹر محمد ابرہیم سے ہوئی تھی۔ ماسٹر دینا ناتھ کہتے ہیں ’اس زمانے میں لڑکی کی تعلیم ایک عیب سمجھا جاتا تھا اور کوئی بھی والد یہ جرت نہیں کرتا تھا کہ اپنی لڑکی کو سکول بھیج سکے لیکن جناب منشی نیاز علی نے اپنی لڑکی کی انگلی پکڑ کر مڈل سکول راجوری پہنچایا ۔اس زمانے میں پھر باقی لڑکیوں نے بھی سکول کا رخ کیا تھا جن میں کرشنا گپتا، چندر کانتی ، جانکی ، فاطمہ بی، رحمتہ بی بی ، زینب بی اور زینو بی شامل تھی‘ ۔ 1947کے بٹوارے کے وقت غلام فاطمہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر پہنچ گئی لیکن 1954میں جب راجوری میں حالات پوری طرح بہتر ہوئے تو ماسٹر محمد ابراہیم نے غلام فاطمہ کو واپس راجوری بلایا اور پلولیاں حد متارکہ کے راستے وہ راجوری داخل ہوئی اور آتے آتے ہی اس وقت کے ممبر قانون ساز اسمبلی عبد العزیز شال کو جب پتہ چلا کہ راجوری میں پڑھی لکھی خاتون موجود ہے تو انہیں 1954 میںہائی سکول راجوری میں بطور ٹیچر تعینات کیا ۔ اس کے بعد جب نڈیاں علاقے میں سکول کھولا گیا تو اس سکول کو کھولنے کی ذمہ داری انہیں کو دی گئی 1969سے انہوں نے اس سکول میں پڑھانا شروع کیا اور پھر اس کا درجہ بڑھانے کی تحریک بھی چلائی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ یہی وہ خاتون ٹیچر تھی جن کی محنت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے نڈیاں کو ہائی سکول دیا گیا۔ جناب دینا ناتھ کہتے ہیں کہ غلام فاطمہ 1985میں ان کے ساتھ ہی سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئی ۔
 1947کے دور کو یاد کرتے ہوئے ماسٹر دینا ناتھ کہتے ہیں کہ درہال کے مسلمانوں نے اس دور میں اپنے ہندو طبقہ کے بھائیوں کی پوری حفاظت کی تھی ۔ ’’ہماری ماں بہو بیٹیوں کو اپنا سمجھ کر ان کی عزت بچانے میں ان کا اہم رول تھا‘‘۔ ماسٹر دینا ناتھ جی کہتے ہیں فرقہ وارانہ دور میں بھی درہال کے ہندو مسلم ایک جٹ رہے اور انھوں نے ایک دوسرے کی حفاظت بھائیوں کی طرح کی۔ ماسٹر دینا ناتھ کے ساتھ راقم کی ملاقات اور ان کی کہی گئی باتوں کو ریکارڈ کرکے راقم کی کتاب ’’گاش‘‘ میں بہت جلد منظر عام پر لایا جارہا ہے۔جناب دینا ناتھ شرما سابق چیف ایجوکیشن آفیسر جناب پردیپ سنگھ شرما کے والد اور کشمیر عظمیٰ و گریٹر کشمیر سے منسلک صحافی جناب سمت بھارگو کے نانا تھے۔
 (مصنف ڈوڈہ کے رہائشی ہیں اور راجوری پونچھ کے تعلیمی پس منظر پر ان کی کتاب ’گاش‘بہت جلد منظر عام پر آرہی ہے)