آہ!پروفیسر زبیدہ جان

ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
 پردہ مجبوری و بیچارگی تدبیر ہے
 فطرت کا ایک اصول ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں اور قبیلوں میں رہنے والے لوگو ں پر اپنے قوانین یکساں طور پر لاگوکرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرتی ۔گویا جہاں دھوپ ہے اُس جگہ پر انسان چھاؤں کا بھی نظارہ کرتا ہے ۔اسی طرح جہاں پستی ہوتی ہے وہیں پر بلندی بھی نظر آتی ہے ۔ انہی اصولوں کی طرح یہ فطرت اپنی سرشت کے مطابق ظلمت سے نور اور خزاں سے بہار کرتی ہے ۔ لیکن یہ نوراور بہار پھرایک جدلیاتی نظام کے ظلمت اور خزاں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ سامنے کی بات ہے کہ ہم سب نے چمنستان رنگ و بو کے تزک و احتشام اور چمک دمک کو بہ چشمِ خوددیکھا ہے لیکن چمن طراز کو کبھی ایک ثمر دار اور دلکش ڈالی کو بھی چمن سے جدا کرنا پڑتاہے ،پھر منسلک ٹہنیوں کا جو رنج و ملال ہوتا ہوگا وہ ماہرِ اشجار کے لیے دیدنی ہوتاہوگا۔ اس دلخراش جدائی کے پہلو میں مصلحتوں کا ایک خذینہ مخفی ہوتا ہے۔
پھراُس عظیم الشان کی شان کریمی بھی کتنی ارفع اور عظیم ہے اور اس کی قدرت کا نظام بھی کتنا عمیق ہے کہ کتنے ہی گہرے ضرب وقت کے ہاتھوں بھر جاتے ہیں۔بھلے ہی کبھی کئی زخم بڑ ی دیر سے بھر جاتے ہیں۔   
بہر حال ،ہماری اس تھکی ماندہ قوم نے ایک ہمہ صفت اور اعلیٰ کردار والی خاتون کو جنم دیا جس کی پارسائی ، نیک نامی اور بندہ پروری کے صفات اس کے اچانک ارتحال  نے عوام اور خواص پرمنکشف کردیے۔واقع یہ ہے کہ وادی کشمیر کے معروف بزرگ ،ادبی محقق وتخلیق کارجناب مرغوب بانہالی صاحب کی بہو، صفـ اول کے ماہر نفسیات جناب ڈاکٹر جناب مشتاق احمد (مرغوب) صاحب کی رفیقہ حیات، دانش گاہ کشمیر کی ہر دلعزیز معلمہ ،طلبا و طالبات کی غم خوار ، بے سر و سامان اورمحتاجوں کی داتا،ہمسائیو ں کیـــــ ہم سایہ ۔۔ ہاں یہ تھیںڈاکٹر زبیدہ جان جس کے دل صد چاک کرنے والے ارتحال نے نہ صرف ان کے خانوادے کو سوگوار بلکہ مستحقین کی ایک بڑی کھیپ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ جس نے اس دارِفانی کو چھوڑ کر یتیم تو یتیم بہت سارے سرپرستوں کو بھی یتیم کردیا۔
ٍاپنی ہر دلعز یزی اور سماجی خدمات کے طفیل زبیدہ جیــــ ـباجی ـکے نام سے مشہور تھیں۔ایسے ہی فرشتہ صفت بندوں اور بندیوں کو اللہ کا فضل شامل حال ہوتا ہے۔بلکہ راقم کا ماننا ہے کہ شان کریمی کے سامنے یہ کوئی عجب نہیں کہ اولاد آدم ہونے کے ناطے اس نیک بخت خاتون سے کوئی لغز ش نہ ہو، اس لیے بطور حجت اس غفو ر و رحیم نے مصلحتاًـاس کو اپنی رفاقت اور امان میں لینے کے لیے اس عارضی دنیا سے اٹھا ہی لیاکہ رضائے الٰہی سے اس کے مقدر میں جو کچھ لکھا تھا،امید ہے کہ وہ اس کی ابدی زندگی کو پُر سکون اور فرحت بخش ہونے پرمنتج ہو ۔
 ۱۰/ اپریل۰ ۲۰۲ شام کو جب ریڈیو کشمیر کے شہر بین پر اس سلیقہ مند خاتون کی رحلت کی خبر نشر ہوئی تو کچھ لمحوں تک راقم کی سانس تھم گئی اور نظریں ایک ہی جگہ اٹک گئیں ،نیوز بلٹن سے اس خبر کی تصدیق ہونے تک جو لمحات گزر گئے وہ میرے لیے نہایت ہی اذیت ناک اورصبر آزما تھے،باجی کی وہ ظرافت ،طریقہ کلام اورخلوص بھری دعائیں میری سماعتوں سے مکرر ٹکرانے لگیں ۔
 اور اب چرچے ہیں جس کی شوخیٔ گفتار کے
 بے بہا موتی ہیں جس کی چشم ِگوہر بار کے
میں کبھی کبھار جب بھی ڈاکٹر مشتاق صاحب کے پاس ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تو ڈاکٹر موصوف کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ زبیدہ جی نے بھی بڑی خندہ پیشانی سے میری میزبانی کی ۔ ڈاکٹر صاحب کی تھپکی کے ساتھ باجی بھی میرے نہ تھمنے والے آ نسوں پونچھ لیتیں۔خود ڈاکٹر صاحب کی بے حد مصروفیات میں اس مادر مہربان نے میرے سر سے اپنا دست شفقت واپس نہیں اٹھایا بلکہ کبھی کبھار میرے ہی ہاتھوں میرے بچوں کو عیدی روانہ کرتی تھیں ۔ بے چین اور غمگین اور زندگی کے ستائے ہوئے مریضوں کی درد بھری سسکیوں پر کان دھرنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے ،یہ توقع ایک ایسے ہی تڑ پتے اور زندہ دل سے رکھی جاسکتی ہے۔مرحومہ نے ایک نہیں کئی بار میری ایما پر متعدد بیماروں کے ملاحظہ کے لیے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پرسہولیت پہنچائی ۔ مجھے عزت اور لاج کے سوا اور کیا چاہئے تھا۔ ایسے د ل شکسۃمریضوں کی د عا ئیں اب تک اپنا رنگ لا رہی ہیں۔اس شفقت کا تقاضا تھا کہ کبھی اپنے شوق سے باجی کو کوئی ہلکا سا تحفہ پیش کرتا تاکہ دل کو تسکین سی مل جاتی مگر۔۔۔ مگر باجی کا وہ ڈاکٹر صاحب کی قسمیں کھا کھا کر (قیمت سے زیادہ) پیسے ہاتھ میں تھما دینا میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ یہ اس کا شفقت کا احساس دلانا مقصود ہوتا تھا۔اپنی قدرو قیمت سے پرے وہ ہر ایک کو بیٹا بیٹی کہہ کر پکارتی تھیں۔ ۔یتیموں،بیوائوں اور بے کسوں کی دستگیری کے عوض رضائے الٰہی کی خوش نودی کے نفع بخش سودے سے زبیدہ جان دوسروں سے زیادہ حساس تھیں۔باجی گھر کا سارا کام خود کرتی تھیں۔ایسی ہی مخلص اورپیاری بندیاں منوں مٹی تلے ہوکر بھی گمنام نہیں ہمیشہ یاد کی جاتی ہیں۔
اللہ سے دست بہ دعا ہوں کہ وہ ان کی ہر سہو وخطا در گزر فرماکر اسے اپنے دیدار سے سر فراز کرے اور ان کے رفیق حیات ڈاکٹر مشتاق صاحب کی قوم کے تئیں بے لوث خد مات کے طفیل نیک جزا دے اور ان کا سایہ قوم پر تا دیر قائم رہے۔
 زندگانی تھی تری مہتاب سے  تابندہ تر
 خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
 مثل ایوان سحر مرقد فروزان ہو ترا
 نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا 
 آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
 سبزہ نورستہ اس گھر کی نگاہ بانی کرے
رابطہ۔ چرارشریف،بڈگام کشمیر
فون نمبر۔9796373749
���������