سی بی آئی حراست میں پولیس اہلکار کی موت، مجسٹریل انکوائری شروع

File Image

جموں//کٹھوعہ ضلع میں بدعنوانی کے الزام میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی طرف سے گرفتاری کے فوراً بعد پولیس اہلکار کی موت کے سلسلے میں مجسٹریل انکوائری شروع کی گئی۔
تفصیلات کے مطابق، بلاور کے رہنے والے ہیڈ کانسٹیبل مشتاق احمد کو ہفتے کے روز اپنی موت سے چند گھنٹے قبل کٹھوعہ ضلع کے خواتین پولیس سٹیشن میں 3000 روپے کی رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں حراست میں لیا گیا تھا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، وشو پرتاپ سنگھ نے کہا، “ڈپٹی کمشنر، کٹھوعہ کی ہدایت پر، ہم نے پولیس اہلکار کی موت کی مجسٹریل جانچ شروع کر دی ہے اور کم سے کم وقت میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے”۔
پرتاپ سنگھ، جنہیں مجسٹریل انکوائری کرنے کا کام سونپا گیا ہے، نے اتوار کو گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) ہسپتال میں ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کے ذریعہ متوفی کے پوسٹ مارٹم کی نگرانی کی۔
حکام نے بتایا کہ لاش کو رسمی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد آخری رسومات کے لیے اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔
متوفی پولیس اہلکار کے رشتہ دار اور پڑوسی بشمول اس کی اہلیہ اور دو بچے بھی موجود تھے اور انہوں نے اس کی موت کے سلسلے میں سی بی آئی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔
سرپنچ سنجیو کمار، جو متوفی کے پڑوسی بھی ہیں، نے کہا،”وہ شریف آدمی تھا اور بظاہر ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا تھا… اگر دلیل کی خاطر، ہم مانتے ہیں کہ وہ رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اس طرح پوچھ گچھ کی جانی چاہیے تھی جس سے اس کی موت ہوئی”۔
انہوں نے پولیس اہلکار کی موت پر ایجنسی کی خاموشی پر سوال اٹھایا اور لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور مرکزی حکومت سے “مقتول کے خاندان کے ساتھ انصاف” کو یقینی بنانے کی درخواست کی۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس، جموں-سانبہ-کٹھوعہ رینج، شکتی کمار پاٹھک نے کہا کہ پولیس نے معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
انہوں نے کہا،”یہ سی بی آئی کا جال تھا اور اس عمل کے دوران موت واقع ہوئی۔ وہ گر گیا اور پولیس پارٹی اسے ہسپتال لے گئی جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا“۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات کا مقصد سچائی سے پردہ اٹھانا ہے جو بالآخر انصاف کی طرف لے جاتا ہے۔