شام ہوتے ہی مسّرور تھکا ہوا دفتر سے گھر لوٹ آیا – کپڑے تبدیل کر کے نماز مغرب کے لئے وضو بنا کر رکھا – اتنے میں آپ کی شریکِ حیات نے گرم نمکین چائے و روٹیاں پیش کر دی ں- دونوں میاں بیوی باتوں باتوں میں لگ گئے کہ اتنے میں ازان سنائی دی –
" چلو یہ پیالہ اور پلیٹ اٹھا لو، میں نماز پڑھ کے آتا ہوں ۔۔۔ اور آپ بھی پڑھنا۔۔۔۔ "
مسرور کچن سے اٹھتے ہی شریکِ حیات کو بھی نماز ادا کرنے کی تلقین کرتا ہوا نکل گیا –
"جی ہاں ٹھیک ہے -"
شریک حیات نے بڑی فرمانبرداری سے واپس جواب دیا –
مسّرور نے سب سے پہلے اپنے موبائل فون کا انٹرنیٹ ڈاٹا بند کردیا اور اس کے ساتھ ہی ا سے سائیلنٹ موڑ پہ رکھا – نماز مغرب ادا ہو گئی – مسجد سے گھر واپس لوٹ آیا تو موبائل کا ڈاٹا دوبارہ آن کیا –
مسرور دیکھتے ہی دیکھتے کئیں واٹساپ گروپس میں شئیر کردہ ایک اہم پیغام دیکھتا ہے – اس خبر کو پڑھتے ہی آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا – آپ کی شریک حیات آپ کی آنکھوں میں آنسو، ہونٹوں پہ سسکیاں، جسم میں تھرتھراہٹ دیکھ کر حیران ہوگئی اور آپ سے محبت بھری زبان میں مخاطب ہوئی۔
"اللہ کرے احسان ہو۔۔۔۔ کیا بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے "-
" مجھے جلدی سے سرینگر پہنچنا ہوگا "-
مسرور نے دھیمی لیکن درد بھری آواز میں جواب دیا –
" آخر ایسا کیا ہوا ہے" ؟ شریک حیات پریشانی کے عالم میں پوچھنے لگی –
مسرور نے درد بھری سسکتی آواز میں کہا " کسی بچے کی جان بچانے کے لئے دو پوائینٹ او نیگیٹیو ( O) خون کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر واٹساپ گروپس میں یہ پیغام شئیر کیا گیا ہے —— لہٰذا مجھے جانا ہوگا "-
آپ کی شریکِ حیات نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں بزرگی کا مزاج دِکھا کر تائید کی اور کہنے لگی
" ٹھیک ہے یہ بھی ہمارے پیارے ریان کی طرح معصوم، خوبصورت، پیارا، ننھا منھا بیٹا ہوگا ۔۔۔۔ لیکن آپ رئیس کو ساتھ لے کر جائیں ۔۔۔ وہ اس وقت آپ کی گاڑی چلائے گا – یقین رکھیں اللہ پاک آپ سب کی حفاظت فرمائے گا "-
مسرور نے اپنے نیک ہمسایہ رئیس بھائی کو آواز دی اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا – آپ رئیس کے ہمراہ اپنی گاڑی میں نیک کام کے لئے روانہ ہو گئے- راستے میں آپ نے رئیس بھائی کو سارا ماجرا سنایا – رئیس بھائی بھی آپ کو اس نیک کام کے فضائل سناتے گئے اور اتنے میں گاڑی ہسپتال کے آنگن میں پہنچ گئی – آپ اپنی گاڑی سے بڑی تیز رفتاری سے اُس وارڑ کی طرف دوڑ پڑے جہاں وہ بچہ زیر علاج تھا – ہسپتال میں بچے کے والدین خون کے آنسو بہا رہے تھے اور اللہ رب العالمیین کے سامنے گِڑ گِڑا کر منت سماجت کرکے بچے کی جان کی بھیک مانگ رہے تھے- اُدھر ہی باقی بیماروں کے تیماردار اُنہیں ہمت، صبر، حوصلہ اور یقین دِلا رہیں تھے –
" بھائی وہ بچہ کہاں ہے جسے او نیگیٹیو خون کی ضرورت ہے ؟"
مسرور گھبرائے اور تیز سانسوں کے چلتے ہوئے ایک تیماردار سے پوچھنے لگا –
یہ سنتے ہی وہ مخاطب تیماردار حیران ہوگیا- اس کے چہرے پر خوشی کی لہریں پھوٹ پڑیں اور وہ مسرور جیسے مسیحیٰ کو دیکھ کر بچے کے والدین کے پاس لے گیا اور انہیں یہ خوش خبری سنانے لگا –
" دیکھا ! ۔۔۔۔۔۔ خُدا نے آپ دونوں کی دُعائیں سن لیں ۔۔۔۔۔۔۔  یہ دیکھو آپ کے بچے کے لئے یہ مسیحیٰ  خون دینے آپہنچا ہے "-
یہ سنتے ہی بچے کے والدین کے دل دھڑکنے لگے – انہیں یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ واقعی ان کے سامنے کوئی خون دینے والا مسیحیٰ کھڑا ہے – اس طرح ان کے جسم کے اندر جان سی پیدا ہو گئی – آنکھوں میں بچے کے بچنے کی اُمید جاگ اٹھی – انہوں نے خوشی کے آنسو بہا کر مسرور کو گلے لگایااور اسکا ماتھا اور ہاتھ چومنے لگیں اور سسکتی، پھلیکتی، گونگی زبان سے اُس کا شکریہ ادا کرتے رہے –
"جی شکریہ کیوں ! ۔۔۔۔۔ کیا یہ میرا بچہ نہیں ہے ۔۔۔۔ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو! "
مسرور نے اُنہیں حوصلہ دیا اور وہ اس کو بچے کے بیڈ تک لے چلے – بچے کو پیار بھری آنکھوں سے دیکھا، اُس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر اُسے محبت، شفقت، رفاقت اور اپنا ہونے کا احساس دیا – بچے میں بھی گویا نئی جان لوٹ آئی  اورچہرے پہ بھی اب مسکراہٹ کے آثار ظاہر ہونے لگے – مسرور بچے کے پاس ہی دوسرے بیڈ پر لیٹ کر خون کا عطیہ پیش کرنے لگا – اب مسرور اور بچہ ایک دوسرے کو کافی دیر تک دیکھتے رہے –
یہاں مسرور خون کا عطیہ رضائے الٰہی کے لئے دیتا رہا اور وہیں تاک میں بیٹھا ایک خود ساختہ صحافی اپنی خبر بنانے کے لئے بچے کو خاطر خون کا عطیہ دینے والے کی تصویر کشی کرتا گیا – یہ سب مسرور کے علم کے بغیر ہی عکس بند ہوتا رہا –
دو پوائنٹ خون کا عطیہ دینے کے بعد مسرور ہر کسی تیمار دار کی زبان سے ڈھیر ساری دعائیں سُنتا رہا – تھوڑ ے ہی وقفہ کے بعد اپنے ساتھی رئیس بھائی کے ہمراہ گھر کی طرف لوٹ آیا – اتنے میں آپ کی شریکِ حیات نے آپ کے کھانے کے لئے مختلف قسم کے پھل، جن میں انار کے دانے، سنگترے اور سیب کاٹ کر تھے، پلیٹوں میں رکھ دیئے – گیٹ پہ گاڑی کی ہارن سنتے ہی مسرور کی شریکِ حیات نے کھانا بھی لگایا –
صُبح سویرے فجر نماز ادا ہونے کے بعد ہی نمازیوں نے مسرور کو مسجد شریف میں ہی معصوم بچے کی جان بچانے پہ مبارک دینا شروع کی – مسرور اپنی بستی کے نمازیوں سے مبارک سن کر حیران ہوا اور ششدر رہ گیا کہ بالآخر اُنہیں یہ خبر کس نے اور کب بتائی –
" لیکن یہ سب آپ کو کیسے معلوم ہیں؟" ۔۔۔ مسرور حیرانگی کے عالم میں، معصومانہ انداز اور نرم لہجے میں ان سب سے مسجد میں ہی مخاطب ہوا –
ایک نمازی نے فوراً اپنا موبائل نکالا اور مسرور بھائی کو یہ خبر مع تصویر کے دکھانے لگا –
" مسرور بھائی ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔  آپ کی تصویر انٹرنیٹ پہ آگئی ہے – آپ کا یہ نیک کام کافی وائرل ہوا ہے "-
یہ دیکھ کر مسرور مسجد میں ہی مایوس ہو گئے اور نیچے بیٹھ گئے – بس اب اسی بارے میں سوچتے رہے کہ بالآخر اس نیک کام کی تصویر کس نے لی – مسرور کی وہ خوشی اب معدوم ہونے لگی جو اُ سے بچے کی خون عطیہ دیتے وقت ملی تھی –
گھر پہنچتے ہی مسرور نے اپنا موبائل ہاتھ میں لیا اور انٹرنیٹ آن کیا تو دیکھا کر ریاست کے متعدد روزناموں میں یہ خبر مع تصویر شائع ہو چکی تھی –
مسرور مایوس بیٹھ گیا ، دل و دماغ گہری سوچ میں ڈوبا رہا کہ " میں اللہ کی رضا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہاں لوگوں سے واہ ! واہ ! مل رہی ہے " –
���
ہاری پاری گام ترال،موبائل نمبر؛ 9858109109