خوشی کا تحفہ کہانی

ملک منظور

شاہ فہد ایک ذہین لڑکا تھا ۔ اس نے اپنے دوستوں کی ایک ٹولی بنائی تھی ۔ٹولی کا نام بچہ ٹولی رکھا گیا تھا ۔اس ٹولی میں اس کے ہم جماعت بچوں کے علاوہ پڑوسی دوست بھی شامل تھے ۔شاہ فہد اس ٹولی کا سربراہ تھا ۔اس ٹولی کے‌ ممبران تقاریر کی نقل اتارنے کے علاوہ روز مرہ کےحالات واقعات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے تھے۔اس کے علاوہ بچے اپنے اپنے ٹیلنٹ کا اظہار کرتے تھے ۔کوئی رپورٹنگ کر کے ہنساتا تھا تو کوئی انٹرویو کرکے مزے لوٹتا تھا۔کوئی خبریں سناتا تھا تو کوئی چٹکلہ سناتا تھا ۔چُھٹی کے دن ٹولی کے سارے ممبر اکٹھے ہو کر باری باری اپنے کارنامے سناتے تھے ۔کوئی دادا اور دادی سے سنی ہوئی کہانی سناتا تھا تو کوئی اپنی شرارت کا قصہ ۔کل ملا کر بچےمزے سے دن گزارتے تھے اور اپنے اپنے انداز میں باتیں شیئر کرتے تھے ۔ایک رات شاہ فہد نے ایک سپنا دیکھا ۔سپنے‌میں اس نے پھولوں کا ایک بڑا چمن دیکھا ۔پھولوں کی کیاریوں میں سارے پھول اور غنچے خوش و خرم تھے۔وہ یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔اس نے خوشی خوشی پھولوں کی کیاریوں کے اردگرد گھومنا شروع کیا ۔چمن میں الگ الگ قسم کے پھول تھے۔ان پھولوں پر رنگ برنگی تتلیاں رقص کر رہی تھیں۔پھولوں کی ساری کیاریاں خوش تھیں۔شاہ فہد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے پھول سجے ہوئے تھے۔وہ بھنوروں کی طرح پھولوں کے ارد گرد چکر لگانے میں محو تھا کہ اس نے کچھ کیاریوں پر مایوسی کے بادل دیکھے۔ ۔وہ یہ منظر دیکھ کر پریشان ہوا ۔اس نے ان کیاریوں سے پوچھا ” آپ مایوس کیوں ہو ؟”
” ہمارے مالی اس دنیا میں نہیں رہے ۔اس لئے ہماری آبیاری کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔” ایک خوبصورت پھول نے کہا۔
اس سے پہلے وہ کچھ اور پوچھ لیتا اُس کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ بستر سے اٹھ کر امی کے پاس چلا گیا اور پوچھا ” امی جان میرے اس سپنے کی تعبیر بتاؤ ”
” بیٹا جاکر داداجی سے پوچھو ۔میں ابھی مصروف ہوں۔” امی جان نے کہا۔
وہ دادا جی کے پاس گیا اور ساری باتیں بتا دیں ۔دادا جی نے کہا کہ وہ کیاریاں غریب گھرانے تھے اور وہ خوبصورت مایوس پھول غریب اور یتیم بچے تھے جو آپ کی طرح عید نہیں منا سکتے ۔
چھٹی کے دن جب سارے بچے اکٹھے ہو گئے تو شاہ فہد نے دوستوں کے ساتھ اپنے خواب کی بات شیئر کی ۔
ایک دوست نے کہا ” دوستوعید آنیوالی ہے کیوں نہ ہم اس عید پر کوئی نیک کام کریں۔ہم چونکہ فضول خرچیوں میں عیدی اڑاتے ہیں کیوں نہ اس سال ہم فضول خرچی کی جگہ کوئی نیکی کا کام کریں۔تاکہ ہمارے یتیم، اور غریب دوست بھی ہماری طرح عید منا سکیں گے۔”
” لیکن ہم ان کی مدد کیسے کریں گے ۔عیدی تو عید نماز کے بعد ملتی ہے اور روزے رکھنے کی وجہ سے جیب خرچہ بھی نہیں ملتا ہے ” تمنا نے کہا
” تمنا نے صحیح کہا ۔بہت مشکل ہے ۔” حارث نے نکارتے ہوئے کہا
” دیکھو ہمارے داداجی ،دادی جی ، ابو جی اور امی جی ہمیشہ کہتے ہیں کہ غریبوں اور مجبوروں کی مدد کرنی چاہیے ۔ہم سب اپنے گھر والوں سے سچ کہیں گے ۔پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں” شاہ فہد نے کہا
” بالکل صحیح فرمایا ۔ہم سب اپنے اپنے گھر والوں سے بات کریں گے ۔” شفقت نے کہا
سارے بچے اپنے اپنے گھر چلے گئے ۔شاہ فہد بھی جب اپنے گھر پہنچا تو امی نے پوچھا” شاہ فہد کہاں گئے تھے۔”
” میں دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔” شاہ فہد نے جواب دیا
” تمہارا چہرہ اترا ہوا کیوں ہے ؟” امی نے پوچھا
” میں ٹھیک ہوں آپ کو ہی لگتا ہے کہ میں پریشان ہوں۔” شاہ فہد نے عجیب انداز سے کہا
اسی اثنا میں اس کے ابو جی بھی گھر آگئے ۔ انہوں نے بھی جب شاہ فہد کو دیکھا تو پوچھا ” بیٹا کیا معاملہ ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہے نا ”
” ابو جی ہمارے اسکول میں تین غریب بچے پڑھ رہے ہیں ان‌ میں سے دو یتیم ہیں اور ایک غریب ہے ۔ ہم عید سے پہلے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔”
” کیسی مدد بیٹا ” ابوجی نے پوچھا۔
” ہم ان کی پیسے دے کر مدد کریں گے تاکہ وہ بھی ہماری طرح عید منا سکیں ۔” شاہ فہد نے کہا۔
” بیٹا غریبوں ،مسکینوں اور یتیموں کی مدد تو ہم بڑے کریں گے ۔اس کے لئے ہم صدقہ اور زکوٰۃ دیتے ہیں ۔یہ آپ کا کام نہیں ہے ۔میں ان کے گھر جاکر ان کی مدد کروں گا ” ابو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” ابو آپ کہتے ہیں نا کہ کسی کی مدد کرنا بڑا نیک کام ہے ۔اگر ہم بھی ان کی مدد کریں گے تو کیا غلط ہوگا ” شاہ فہد نے‌کہا۔
” میرا بیٹا تو بڑی بڑی باتیں کرنے لگا ہے ۔ دیکھو بیٹا اگر آپ ان کو پیسے دو گے تو وہ سب آپ کے احسان تلے دبےرہیں گے اور احساس کمتری کے شکار بھی ہونگے۔پھر وہ آپ کے ساتھ نہ کھل کے کھیل سکیں گے اور نہ ہی باتیں کرسکیں گے۔اس لئے آپ ان کو تحفے دے دو ” ابو جی نے کہا۔
” کیسےتحفے ؟ ” شاہ فہد نے خوش ہو کر پوچھا۔
” جو ڈریس ہم آپ کے لئے پسند کریں گے وہی ڈریس ان کے لئے بھی خریدیں گے تاکہ تم سب عید کے دن ایک جیسے دکھو گے ۔پھر ہم آپ کو بھی عیدی دیں گے اور ان کو بھی” ابو جی نے کہا۔
” ہاں یہ بہتر رہے گا ۔ابو جی آپ بہت اچھے ہو ” شاہ فہد نے ابو کو گلے لگا تے ہوئے کہا۔
پھر شاہ فہد نے اپنے دوستوں کو بھی یہی ترکیب بتائی ۔ہر بچے نے اپنے رشتے داروں اور آس پڑوس میں ایک ایک بچے کا انتخاب کیا اور عید سے ایک دن پہلےتحفے دیئے۔ وہ بچے بہت خوش ہوگئے۔اس طرح ان بچوں نے اپنی خوشیوں میں ان بچوں کو بھی شامل کیا جو غربت کی وجہ سے مایوس رہتے تھے۔
بچو عید کا مطلب ہی خوشی ہے اور ہماری خوشی دوسروں کو خوش دیکھنے میں مضمر ہے۔ اس لئے خوش رہنے کے لئے دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹتے رہو۔
���
کولگام ، کشمیر،