آدم خور کہانی

ہلال بخاری

ہمارے علاقے میں ایک تیندوا آدم خور بنکر معصوم بچوں کو اپنا شکار بنانے لگا۔
وہ آئے روز گھات لگا کر چن چن کر کمسن بچیوں کو خاص کر اپنا نشانہ بناتا اور انکو اپنے والدین سے چھین کے لے جاتا۔
بے بس والدین چیختے چلاتے رہ جاتے۔ معصوم اولاد کی بے درد موت اپنے والدین کے لئے خاص کر کس قدر ہولناک ہوتی ہے۔
ایک گاؤں میں اس درندے نے ایک خاندان کی اکلوتی لخت جگر کو چھین لیا۔ اس سے پہلے کہ اس کے لواحقین اس معصوم جان کو اس درندے کے چنگل سے آزاد کراتے اس بے بس و لاچار نے چیخ چیخ کر اپنی جان دے دی تھی۔
اس معصوم بچی کا کٹا ہوا جسم اور لہو میں لت پت لاش دیکھ کر سارے علاقے میں صف ماتم بچھ گئی۔
ہر دل غمگین تھا اور ہر زبان پر ایک کی صدا تھی۔
” آدم خوروں پر اللہ کی لعنت ہو۔ درندوں کو اللہ نابود کردے۔”
ریاست کی انتظامیہ پر پریشر بڑھا تو اس نے فوراً حکم صادر کیا کہ آدم خور تیندوے کو جلد از جلد قید کرنے کے لئے مسلح اہلکاروں کو روانہ کیا جائے۔
تیندوے کی ہر طرف تلاش شروع ہوئی اور اسکو کو گرفتار کرنے کے لئے جال بچھایا گیا۔ کئی بار وہ اس سے بچنے میں کامیاب ہوا لیکن آخر کا ایک دن وہ اپنی بھوک کی وجہ سے بے بس ہوا۔
وہ خود بہ خود بچھائے گئے جال میں رکھے گئے خانے کی لالچ کی وجہ سے اندر داخل ہوا اور قید ہوگیا۔
سارے علاقے میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ دور دور سے آنے لگے تاکہ اس ظالم درندے کو دیکھیں، اس کو ماریں یا کم سے کم اس پر تھوکیں۔
نوجوان لوگ جوش سے لبریز ہاتھوں میں موٹے ڈنڈے لے کر اس کے جسم پر وار کرکے اپنی ابھرے ہوئے جذبات کی لو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔
وہ تیندوا درد سے کراہتا تو لوگ خوشی سے چلاتے۔ میرے دل کو بھی اس درندے کو عذاب میں دیکھ کر عجیب مسرت ملنے لگی۔
میں یہ سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہوا کہ انصاف آج بھی زندہ ہے، جو ظلم کرتا ہے وہ آخر کار ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ یہ سوچ کر میں اور جوش میں آگیا اور میں ایک موٹا ڈنڈا ہاتھ میں لیکر اپنی دل کی باقی کسر نکالنے کے لئے اس درندے کے قریب گیا۔
میں نے جذباتی ہوکر پوری طاقت سے اس کے سر پر وار کرتے ہوئے چلا کر کہا،
” یہ لے ظالم ، اب چکھ لے خود بھی ظلم کا مزا ”
اس وار نے تیندوے کو جیسے ہلا کر رکھ دیا اور وہ مجھے گھور کر دیکھنے لگا۔
اس کے گھورنے سے مجھے اور غصہ آیا اور اپنے جذبات میں بے قابو ہوکر میں نے اس پر تھوکتے ہوئے چلا کر کہا،
” گھورتا کیا ہے ، اللہ کی لعنت ہو تجھ پر۔”
وہ بے زبان جانور کیا کہہ سکتا تھا۔ لیکن جس انداز سے وہ مجھے اس وقت گھورنے لگا مجھے ایسا لگا کہ اگر اسکی زبان بولنے کے قابل ہوتی تو وہ شاید بہت کچھ کہتا۔ مجھے اس پر اور ذیادہ غصّہ آیا اور میں پھر جنون میں آکر اسے مارنے کے لئے آگے بڑا لیکن اسی وقت اچانک ایک بزرگ نے آکر میرا ہاتھ تھام لیا۔
میں نے غصے سے کہا،
” چھوڑ دو مجھے۔ اس درندے کو میں آج سبق سکھاتا ہوں۔”
“درندے سبق نہیں سیکھتے۔ کیا آپ نے اب تک خود یہ سبق نہیں سیکھا ہے ؟”
میں حیرت سے اس بزرگ کا منہ تکنے لگا۔
اس کے بعد اس بزرگ نے پر اثر انداز میں کہا،
“قدرت نے اس جانور کو ازل سے ہی شکاری بنایا ہے، اسکی فطرت میں ہی شکار کرنا ہے۔ اگر یہ شکار کرتے وقت رحم کرے گا تو خود بھوکا مر جائے گا لیکن تو اپنی ذات کے بارے میں سوچ۔ ہماری انسانی ذات کس طرح بے رحمی سے اپنی انا کی خاطر معصوم بچوں کا قتل عام کرتی ہے۔ جو لوگ خود کو خدا کے چنندہ سمجھتے ہیں وہ کس طرح بم گرا کر معصوم بچوں کا لہو بہا کر شرماتے نہیں۔ اس پر بھی خود کو مہذب تصور کرتے ہیں۔ اس درندے پر تھوکنا تو آسان ہے مگر کیا تم میں کبھی ہمت ہوئی کہ ان پر جاکر تھوکو جنہوں نے مشرق وسطیٰ میں معصوم بچوں کو بے دریغ قتل کیا اور ان پر جنہوں نے غیرت کے نام پر اپنے ہی معصوم بچیوں کا گلا گھونٹ دیا؟”
میں لا جواب ہوکر اسکا منہ تکنے لگا۔ اس نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے کہا،
“کاش ہم غور کرتے تو ہم کو پتہ چلتا کہ انسان کی تمام تواریخ کا سب سے بڑا آدم خور تو خود آدم زاد ہی ہے۔ تم اس قید کئے ہوئے درندے پر تو اپنی مردانگی دکھا رہے ہو مگر ان درندوں کے بارے میں کیا جو لاکھوں معصوموں کا قتل ناحق کرکے بھی آپکی دسترس سے بالا ہیں اور بے خوف آج بھی اس دنیا پر راج کر رہے ہیں ؟ ”
میں ابھی اس بزرگ کی باتوں پر غور ہی کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان آگ بگولہ اور بے قابو ہوکر اس تیندوے کو بے دریغ مارنے لگے۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ درندہ انکی درندگی کا شکار ہوکر دم توڑ دیتا، مسلح افسر نے آکر ان سب کو روکنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس نیم مردہ جانور کو اس جالی سمیت جس میں اسے قید کیا گیا تھا گھسیٹ کر لے گئے اور اسے ایک بڑے لوہے کے پنجرے میں پھنک دیا۔
لوگوں کو یہ دیکھ کر غصّہ آیا انکو لگا کہ قانون اس بے رحم درندے کو بھی بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لوگوں کے ہجوم نے پھر زور سے نعرے بازی شروع کی،
” ظالم کو جو بچائے گا ، رب کو کیا منہ دکھائے گا۔”
موقع کی نزاکت دیکھ کر اعلیٰ نے اپنے آدمیوں کو کچھ سمجھایا اور اس کے بعد ایک اہلکار نے بندوق تان کر اس مقید اور نیم جان جانور کو پے درپے گولیاں مار کر اسکا کام تمام کر دیا۔
ہجوم نے یہ دیکھ کر فلک شگاف نعرے بلند کئے۔
” ظالم کی بس ایک سزا
مظلوم بنے ہوجائے فنا۔”
اس آدم خور کی بے جان لاش ظلم کے صرف ایک باب کے اختتام کی گواہی ہوسکتی تھی۔ ورنہ ہر ذی شعور انسان کو معلوم تھا کہ ظلم کے اس سیاہ سمندر
میں اس واقعے کی مثال ایک قطرے سے بھی کم تھی۔ میں بہت دیر تک اس بات پر غور کرتا رہا کہ کیا واقعی آدم زاد ہی انسانیت کی تواریخ کا سب سے بڑا آدم خور ہے۔

���
ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ کشمیر