’’یادوں کا مجموعہ ‘‘۔ شخصیت کے آئینے میں روبینہ میر

زندگی کا ہر گُزرا سال ہمارے لئے کچھ کھٹی ،کچھ میٹھی یادوں کا مجموعہ چھوڑ جاتا ہے۔یادیں کبھی دھندلاتی نہیں،نہ ہی مُرجھاتی ہیںبلکہ سرمایہء حیات بن کر ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ایسی ہی یادوں کا مجموعہ چھوڑ گئے ہیں میرے یہ گزرے چند سال …….!
۵ مئی ۲۰۲۲کو میں ہمیشہ یومِ سیاہ کے طور پر یاد کروں گی ۔یہ وہ دن ہے جس دن ادبی دُنیا ایک روشن چراغ سے محروم ہوئی اور میں ایک انتہائی شفیق ،مُخلص اور ہمدرد ادبی ساتھی اور رہبر سے !!
ایسی ہمہ جہت شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں،جن کی موت کو فردِ واحد کی موت نہیں بلکہ ایک عہد کے خاتمے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔طویل عرصے کے بعد وجود میں آنے والی ایسی شخصیات ،جو اپنے علم و عمل ،قول و فعل کی بدولت گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں،کے نقوش کوزمانہ چاہ کر بھی بُھلا نہیں سکتا،ان کے انمٹ نقوش ہر دور میں اُن کے ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔بقول پروین شاکر؎
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بُھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں موت اور اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کر دی ہے،ہر شخص کا مرنا یقینی ہے۔لیکن موت اسی کی ہے جس کے لئے شاعر نے کہا کہ
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
آج میں جس ہر دلعزیز ہستی کا تذکرہ کرنے جارہی ہوں،وہ شخصیت کسی بھی طور پر میرے تعارف کی محتاج نہیں،جس کے قلم سے اُردو کی مٹھاس ٹپکتی تھی ۔میری مُراد وادی کے معروف قلمکار ، شاعر ،ادیب، ناول و افسانہ نگار مرحوم و مغفور نذیر جوہر سے ہے۔ موصوف کی رحلت کو پانچ جولائی کو دو مہینے ہونے کو ہیں،میرے لئے جوہر صاحب کو مرحوم لکھنا یا اُن کی موت کو تسلیم کرنا آج بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ ۵ مئی ۲٠۲۲ کو تھا۔آج بھی الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں،بالاآخر بعد مدت کے میرے دُکھ کی کیفیت کو محسوس کرتے ،میرے محبوب قلم نے، جس سے میں اکثر اپنے دُکھ باٹتی ہوں، مجھے یہ کہہ کر تسلی دی کہ وہ ایک فرشتہ صِفت انسان ،جو کتاب جیسا تھا،جنت کا باشندہ تھاجو اپنے اصلی گھر لوٹ گیا۔إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
اللہ پاک کچھ لوگوں کو بے انتہا خوبیوں اور صلاحیتوں سے نواز کر شاندار شخصیت کے ساتھ پیدا کرتا ہے،جوہر صاحب کا نام بھی ایسے ہی اشخاص میں شامل ہے۔مجھے اگر خوش مزاجی ،خوش اخلاقی ،روشن خیالی،روشن ضمیری ۔تہذیب و شائستگی اور عجزو اِنکساری کو کوئی ایک نام دینا ہو تو وہ نذیر جوہر ہو سکتا ہے۔موصوف سُلجھے دماغ کے مالک ،ملنسار ،اعلیٰ اخلاق کا مجسمہ تھے۔وہ ایسے انسان تھے جن پر انسانیت ہمیشہ ناز کرے گی۔
اچھے لوگ مرتے نہیں ،وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں،ان کی یادیں دلوں میں ہمیشہ گھر کئے رکھتی ہیں،وہ اپنے عہد پر ایسے اثرات چھوڑ جاتے ہیںکہ زمانہ اُنھیں ہمیشہ یاد کرتا ہے۔
موصوف کو میں پچھلے دس سالوں سے ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتی تھی ۔یہ غالباً ۲٠۱۲ کا دور تھا،جب میرا کلام پرنٹ میڈیا یعنی ریاست اور بیرونِ ریاست کے اخبارات ،رسائل وجرائد میں تواتر کے ساتھ چھپتا تھا۔یہ وہ زمانہ تھاجب میری تحریر کردہ غزلوں اور نظموں پر میرے محسن اور میرے کرم فرما ،جن کے ناموں کی فہرست طویل ہے،جن میں ایک نام جوہر صاحب کا بھی تھا۔مجھے فون کے زریعے سے مبارکبادیاں پیش کرتے تھے،دادو تحسین سے میری حوصلہ افزائی کرتے تھے،میری شاعری پر اخبارات میں تبصرے لکھتے تھے۔مقامی روزناموں کشمیر عُظمٰی،اُ ڑان اور ہند سماچار میں بھی کلام چھپتا تھا۔جوہر صاحب ایک منجھے قلمکار تھے،نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے،جو نظم یا غزل اچھی لگتی ،بہت سراہتے اور داد دیتے تھے۔وہ ہمیشہ دوسروں کے اچھے اقدام کی تعریف کرتے تھے،نئے قلمکاروں کو حوصلے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔
آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں،اس کا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسرے شخص کے ہر پہلو کو تنقید کی نظر سے دیکھتے ہیںاور اس کے بارے میں اپنی رائے منفی انداز میں دے کر اس کی حوصلہ شکنی کر کے اس کی خوبیوں پر پانی پھیر دیتے ہیںیہ جانتے ہوئے کہ الفاظ نِشتر کا کام بھی کرتے ہیں اور مرہم کا بھی، جبکہ جوہر صاحب ایسے عظیم انسان تھے کہ وہ اپنے ادبی ساتھیوں کے فن اور شخصیت کے بارے میں مثبت رائے رکھتے تھے۔ اچھے انسان کی یہی نشانی ہے کہ وہ حوصلہ افزا کلمات سے نواز کر انسانی مُردہ جذبوں کو زندہ کرنے کے لئے اسے جوش اور ولولہ بخشتا ہے۔ہم میں سے بہت سے انسانوں کی فطرت اُس گندی مکھی کی مانند ہے جو سارا صاف بدن چھوڑ کر زخم پر جا بیٹھتی ہے۔زندہ شخص کو رُلانا اور مرنے پر اُس کے لئے آنسو بہانا بھی انسانی فطرت میں شامل ہے۔میرے ذاتی تجربے کے مطابق موصوف شخصی طور پر نہایت بامروت اور باخلوص انسان تھے،گفتگو کرتے الفاظ کا بہترین چناؤ ان کی شخصیت کا آئینہ تھا۔ الفاظ ہی انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔شخصیت دراصل ظاہری اور باطنی کردار اور خوبیوں کا نام ہے،اُن کی سب سے بڑی خوبی اُن کا حُسنِ اخلاق تھا،ان کی زُبان کی شیرینی اور خوش کلامی غیروں کو بھی اپنا بنا لیتی تھی ۔انسان کے اندر اگر باطنی صفات نہ ہوںتو ظاہری خوبیاں دوسروں کو تھوڑے عرصے تک ہی متاثر کرتی ہیں،جس طرح دولت اور عہدے انسان کو عارضی طور پر بڑا کرتے ہیں،جس کی زیادہ عمرنہیں ہوتی۔
یہ غالباً دوہزار پندرہ یا سولہ کی بات ہے جب میں نے پرنٹ میڈیا کو خیر باد کہہ کر سوشل میڈیا میں قدم رکھا۔سوشل میڈیا جو دُنیا بھر کے قلمکاروں کے باہمی تعارف کا وسیلہ بنا۔ادبی گروپس ،ایف بی اور وٹس ایپ کےذریعے سے عالمی سطح پر قلمکار ایک دوسرے کے خیالات و نظریات سے روشناس ہوئےاور اس پلیٹ فام سے اپنے ہم خیال لوگوں کو ڈھونڈ نکالنا کوئی مشکل کام نہ رہا۔ایک ادیب یا شاعر کا اپنے گھر والوں سے خون تو ملتا ہےمگر اس کے خیالات ،احساسات اور جذبات نہیں ملتے،اس لئے وہ اسے سمجھ نہیں سکتے۔سب کچھ ہونے کے باوجو اس کی زندگی میں وہ خلا رہتی ہے،جسے صرف ایک ادیب ہی پورا کر سکتا ہے یا یوں کہئے کہ سمجھ سکتا ہے۔تخلیق کار کی تخلیق کو دادو تحسن ملنا گویا تخلیق کار کی محنت کا حاصل ہوتا ہے،اسی لئے ہر تخلیق کار اپنے ہم خیال ساتھی قلمکار کی بہت عزت کرتا ہے۔کیوں کہ اس کی جانب سے ملی ستائش سے ہمت بڑھتی ہے جو عزم کو جلا بخشتی ہے۔میں اگر چہ کئی سالوں سے جوہر صاحب کے افسانے ریاست کے مَوقر روزنامہ کشمیر عُظمیٰ میں تواتر سے پڑھتی آرہی تھی ،جس کے سبب میں صرف اتنا جانتی تھی کہ نذیر جوہر وادی کے ایک افسانہ نگار ہیں۔ان کے اوصاف کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی ،ایف بی نے مجھے اس مُخلص اور ہمدرد انسان کو قریب سے جاننے اور پہچاننے کا موقع فراہم کیا،جو میری اچھی پوسٹ پر مجھے دادو تحسن سے نواز کر حوصلہ بڑھاتےاور بگڑتے حالات کے تناظر میں شئیر کی گئی پوسٹ پر فوراًٍ ردِ عمل کے نتائج سے با خبر کر کے پوسٹ ہٹوانے کی صلاح دیتے…. ابتدائی مرحلے میں ایسی مداخلت اگر چہ مجھے شاق گُزریں،لیکن رفتہ رفتہ اس کی افادیت کے پیشِ نظر نیک مشورہ اور اچھی رائے قبول کرنا پڑتی۔
عاجزی اور انکساری ایک ایسی خوبی ہےجو انسان کو اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے ساتھ کمزوریوں اور خامیوں کو پہچاننے اور قبول کرنے کی اجازت دیتی ہے۔یہ خوبی بھی جوہر صاحب میں بدرجہ اُتم پائی جاتی تھی ۔وہ ہر انسان کے مثبت پہلو کی قدر کرتے تھے،وہ اپنے حلقہء احباب میں کبھی کسی سے ناراضگی نہیں رکھتے تھے،ہر ایک کے ساتھ مُخلصانہ رویہ رکھتے تھے،اپنی عمر سے چھوٹوں کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے تھے،ایسا اُن کی پوسٹ پر کمینٹ سے ظاہر ہوتا تھا۔
موصوف میرے شوہرِ نامدار ریٹائیرڈ ایس ایس پی فرید صاحب کا بھی بہت احترام کرتے تھے اور دیگر خاندان کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ان کے برادر مرحوم مشتاق لون صاحب کے ساتھ میرے والد صاحب کی جان پہچان تھی ۔میرے والد میر عبدالسلام راجوروی کی سیاسی ،سماجی ،علمی اور ادبی حیثیت مسلمہ ہے،نہ صرف راجوری میں بلکہ ریاستی سطح پر اُن کی خاص پہچان ہے۔نامور صحافی ہوتے ” آئینہ ٔ قلب ” نام کا ایک مجلہ کئی برس تک ان کے رشحاتِ قلم کو قارئین کی نذر کرتا رہا،بالخصوص اقبالیات سے اُن کا تعلق ِ خاطر اُنہیں مُنفرد مقام بخشتا ہے۔خطٔ پیر پنچال میں انہیں ماہرِ اقبالیات مانا جاتا ہے۔شاید اس تعلق سے بھی موصوف میری بہت قدر کرتے تھے ،یہ انکشاف تب ہوا جب موصوف نے مجھے اپنی حالیہ کتاب’’ باتیں ہیں باتوں کا کیا ‘‘ کا پیش لفظ لکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔خود کو اس اہل نہ سمجھ کر میں نے یہ کہہ کر معذرت چاہی کہ میں آپ کے خاندان کے بارے میں کُچھ نہیں جانتی اور نہ ہی آپ کی کوئی کتاب پڑھی ہے،اگر کہیں پہ حوالے کی ضرورت پیش آئی تو میں حوالہ کہاں سے دونگی ، ایسی صورت میں مضمون کمزور ثابت ہو گا۔اس پر موصوف نے جواباً کہا کہ ’’یہ میری بد قسمتی ہے کہ آپ میرے بارے میں کُچھ نہیں جانتی ‘‘ اور ساتھ ہی اپنی پہلی تصنیف ’’زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے‘‘ کتاب کے بارے میں بتایا کہ میں آپ کو وہ کتاب بھیجوں گا، اُس میں میرا تمام شجرہ نسل ہے۔ وہ میری بہت عزت واحترام کرتے تھےاور اکثر کہتے تھے کہ محترمہ آپ میں مجھے اپنی ماں کا عکس نظر آتا ہے۔اس بات کا ذکر اُنھوں نے اپنی کتاب میں “ماں ” کے عنوان پر لکھے مضمون میں بھی کیا ہے۔
جوہر صاحب ہر موضوع پر گفتگو کرتے تھے ان سے جب بھی سیاسی ،سماجی ادبی گفتگو ہوتی ،تو میں نے یہی پایا کہ موصوف ایک اچھے ادیب ،اچھے ناول نگار ،اچھے افسانہ نگار ہونے سے پہلے ایک اچھے انسان ہیں۔اخلاق اور اعلیٰ قدروں کے پاسدار ،انسان دوستی میں یقین رکھنے والے،احباب پسند شخص ہیں۔۔۔۔(مضمون جاری ہے۔۔۔)