ڈاکٹر اسرار احمد۔۔ ۔ایک ہم جہت شخصیت مختصر خاکہ

رئیس یاسین

ڈاکٹر اسرار احمد ایک یک جہت شخصیت ہی نہیں ایک تحریک تھے۔آپ نے اپنی ساری زندگی قرآن فہمی کے لئے وقف کر رکھی تھی۔آپ کا زمانہ طالب علمی میں ہی علامہ اقبال کی ولولہ انگیز شاعری سے ذہنی و قلبی رستہ استوار ہو گیا اور احیائے اسلام کے لئے عملی جدوجہد کی امنگ سینے میں پرورش پانے لگی۔اسی لئے جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئےاور بعد س کے ناظم اعلیٰ منتخب ہو گئے۔
ڈاکٹر اسرار احمد 26اپریل 1932 کو مشرقی پنجاب کے ایک قصبے حصار میں پیدا ہوئے۔1947 میں گورنمنٹ ہائی سکول حصار میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا۔ پھرگورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی (پری میڈیکل) میں پنجاب یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔1954 میں میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا اور 1965 میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا۔
ڈاکٹر اسرار احمد 1965 کے اواخر میں لاہور منتقل ہوۓ اور کرشن نگر میں کلینک قائم کرکے پریکٹس شروع کر دی۔اُنہیں شروع سے ہی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے اور اسے عام کرنے کا شوق تھا، لہٰذا پریکٹس کے دوران ہی قرآن حکیم کی تعلیم کے پھیلاؤ کے لئے متعدد حلقے قائم کیے۔ آپ نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر نفاذ اسلام کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔1955 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اورپھر منٹگمری (ساہیوال) کے امیر رہے ۔ 1957 میں ایک اختلاف کے باعث جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر کے ساہیوال میں ہی حلقۂ مطالعہ قرآن و اسلامک ہاسٹل قائم کیا۔ جب فروری 1971 میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ نے زندگی کا اہم ترین فیصلہ کیا اور میڈیکل پریکٹس ترک کر کے بقیہ زندگی ہمہ وقت دین کی خدمت میں وقف کرنے کا عزم کیا ۔1972 میں تعلیمات و افکار قرآنی کے فروغ کے لئے مرکزی انجمن خدام القرآن قائم کی۔ 1975 میں آپ نے “تنظیم اسلامی”کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد ڈالی۔
ڈاکٹر اسرار احمد ایک عالم باعمل تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اسلامی تعلیمات کے فروغ میں عملی طور پر پر زندگی گزار کر دکھائی۔ ایک سوال میں ڈاکٹر اسرار احمد کی بیگم سے جب انہیں سوال کیا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کی سب سے اچھی عادت کون سی لگی تھی اور ناپسند کون سی تھی؟ جواب میں بیگم ڈاکٹر اسرار احمد نے یوں کہا ڈاکٹر صاحب کی زندگی ساری ہی عادات مجھے پسند تھیں۔ وہ وقت کی بہت پابندی کرتے تھے۔ قرآن سے انہیں بہت زیادہ محبت تھی۔ غرض ان کی سبھی عادات و اطوار بہت خوب تھیں۔ ناپسندیدگی والی کوئی بات میں نے نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب نے شروع دن سے مجھے بتادیا تھا کہ میرا یہ پروگرام ہے، دین کی سربلندی کے لئے مجھے کام کرنا ہے۔ اس راستے میں مشکلات بھی آئیں گی، رکاوٹیں بھی ہوں گی، خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لو کہ تم میرا ساتھ دو گی یا نہیں؟ ظاہر ہے مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں تو خود اسی راستے کی راہی تھی۔ میرا بھی یہی مشن تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد صحیح معنوں میں سادگی کا مرقع تھے۔ دنیوی جاہ و حشمت سے پاک ان کی زندگی، ان کے افکار و نظریات کا عملی نمونہ تھی۔ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ہمالیہ کی بلندی کے باوجود وہ متوسط طبقے کے ادنیٰ ترین فرد کی طرح اپنی زندگی کے دن گزارتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد قول و فعل کی مکمل یکسانیت کا قابل رشک نمونہ قوم کے سامنے پیش کرتے رہے۔ تعلیمات قرآنی کے فروغ کے لئے آپ نے “رجوع الی القرآن”کے مشن کو تحریک کی صورت میں آگے بڑھایا اور اس خاطر آپ نے باقاعدہ درس قرآن شروع کر دئیے ۔ لوگ جوق در جوق آپ کی دعوت کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے ماڈل ٹاؤن میں باقاعدہ قرآن اکیڈمی قائم کی اور مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا جو آخری دم تک چلتا رہا۔ درس قرآن کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھااورتین علمی و فکری رسایل شروع کیے ۔ آپ نے اپنے پیچھے فکر انگیز کتابوں کا ذخیرہ بھی چھوڑا جو دنیا میں اعلیٰ علمی مقام رکھتی ہیں۔ قرآن حکیم کی تعلیم پر آپ نے بالخصوص متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض آپ کے دروس قرآن تیار کی گئیں، جن میں راہ نجات: سورہ العصر کی روشنی میں،مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب ، قرآن اور امن عالم،جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ ، قرآن حکیم کی سورتوں کا اجمالی تجزیہ، قرآن حکیم اور ہماری ذمہ داریاں، دنیا کی عظیم ترین نعمت: قرآن حکیم،تعارف قرآن مع عظمت قرآن اور بیان القرآن شامل ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد”بیان القرآن”کے نام سے ترجمہ قرآن اور تشریح کررہے تھے۔ سورہ النساء تک دورۂ ترجمۂ قرآن مکمل کر چکے تھے۔”بیان القرآن”کا حصہ اول جو سورہ الفاتحہ اور سورہ البقرہ، مع تعارف قرآن پر مشتمل تھا، کتابی شکل میں آگیا تھا مگر داعیٔ رجوع الی القرآن کی زندگی نے ساتھ نہ دیا۔علامہ اقبال کا یہ شعر؎
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوۓ تاریک قرآن ہوکر!
ڈاکٹر اسرار احمد کے ذہن میں شعوری طور پر پیوست ہو گیا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے ابتدائی عمر ہی میں یہ فیصلہ کیا کہ میں قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کروں گا، بلاشبہ آپ نے کسی مددسے کا رخ نہ کیا نہ ہی کسی دارالعلوم میں داخلہ لیا بلکہ سکول اور کالج میں تعلیم پائی۔ آپ سائنس اور طب کے طالب علم رہے ۔ عربی زبان سے آپ کو بچپن ہی سے شغف تھا۔ساتھ ساتھ آپ نے قرآن کریم اور مختلف تفاسیر کا مطالعہ شروع کیا اور آپ کے دروس کے چرچے ہونے لگے۔آپ کے دروس قرآن میں علامہ اقبال کا سوز پایا جاتا تھا اور سید ابوالاعلی مودودی اور ابوالکلام کا غلبہ و اقامت دین کا تصور موجزن تھا۔ الفاظ کی ادائیگی میں کمال مہارت رکھتے تھے۔موقع و محل کی مناسبت سے فارسی و اردو کے موزوں اشعار کا استعمال خوب جانتے تھے۔شاید یہی وجہ تھی کہ آپ کے دروس قرآن کو اللہ تبارک وتعالی نے اتنا قبول عام بخشا کہ وہ عوامی درس قرآن بن گئے۔بیس بیس ہزار لوگ ڈھائی ڈھائی گھنٹے کے دروس قرآن میں شریک ہوتے تھے۔اس بات کا ذکر کئے بغیر مرحوم کا ذکر ادھورا رہے گا کہ وہ نہایت محنتی انسان تھے اور وقت کا لمحہ لمحہ خدا کی امانت سمجھ کر بسر کرتے تھے۔ علم و ادراک میں ڈاکٹر صاحب کا مقام کیا تھا اور کیا نہیں ،اس سے قطع نظر ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی اللہ کی رضا اور اقامت دین کے لیے وقف کر دی۔ بعض معمولی معلومات میں اُلجھنے کے باوجود بحیثیت مجموعی اپنے نصب العین پر نظر رکھی اور عمر بھر اس کے حصول کی خاطر اپنی صلاحیتیں صرف کیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
[email protected]