کارِ خیر میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ماحولیات

حافظ الاسلام

درخت لگانا ماحولیاتی تحفظ کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ قرآن و حدیث میں درخت لگانے کی اہمیت کے بارے میں متعدد حوالہ جات موجود ہیں اور مسلمانوں کو اس نیک کام میں برکت حاصل کرنے اور زمین کے محافظ کے طور پر اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے اس نیک عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان اس کارخیر پر توجہ دینا تودور اسکے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔قرآن مجید میں درختوں کا ذکر رزق، حسن اور ہدایت کے ذریعے کے طور پر کیا گیا ہے،سورۃ النحل کی آیت نمبر 128 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، اس سے تمہارا پینا ہے اور اسی سے درخت (اُگتے) ہیں جن سے تم (جانور) چراتے ہو۔ اس پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے،بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے نشانی ہے۔‘‘

احادیث میں درخت لگانے کی اہمیت کے حوالے سے بھی متعدد حوالہ جات موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ اگر کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے یا بیج بوتا ہے اور پھر اس میں سے کوئی پرندہ یا انسان یا جانور کھاتا ہے تو یہ صدقہ شمار ہوتا ہے۔(بخاری و مسلم) یہ حدیث تمام مخلوقات کے رزق کے ذریعہ درختوں کی قدر پر زور دیتی ہے، اور مسلمانوں کو درخت لگا کر خیراتی کاموں میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔

اللہ تعالی نے سورۃ المومنون میں فرمایا ہے کہ :’’اوروہ درخت جوطورسیناسے نکلتا ہے ،تیل پیداکرتا اورکھانے والے کے لیے سالن ہے۔( المومنون۔ 20)۔اس کا ذکرفرمان نبوی میں بھی ملتا ہے، ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زیتون کا تیل کھایا اوراسے لگایا کرو ،اس لیے کہ وہ بابرکت درخت سے نکلتا ہے۔‘‘( سنن ترمذی حدیث نمبر ۔1775) اسی طرح اللہ رب العالمین نے بہت سی جگہوں پر نبیوں اور رسولوں کی مدد کے لیے درخت کا سہارا لیا، جیسے جب حضرت مریم ؑ ماں بننے والی تھیں تو اللہ رب العالمین نے انہیں کھجور کے درخت کا سہارا لینے کا حکم دیا، اسی طرح وہ درخت جو اللہ تعالی نے یونس علیہ السلام کے لیے بطورعلاج اورغذا اگایا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:’’اوربلاشبہ یونس ؑ نبیوں میں سے تھے، جب وہ بھاگ کرایک بھری کشتی پرپہنچے، پھرقرعہ اندازی ہوئی تویہ مغلوب ہوگئے، توپھرانہیں مچھلی نے نگل لیا اوروہ خود اپنے آپ کوملامت کرنے لگے، اوراگر وہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، تولوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس (مچھلی) کے پیٹ میں ہی رہتے، توانہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اوروہ اس وقت بیمار تھے اور ہم نے ان پر ایک سایہ کرنے والا بیل دار درخت اگا دیا۔‘‘( الصافات 139 – 146)صرف اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ درخت کی اہمیت کا اندازہ آپ اس درخت سے لگائیں جو آسمان میں ہے، وہ عظیم درخت جس کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جدامجد ابراہیم علیہ السلام کودیکھا تھا۔سمرہ بن جندب ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کے قصہ میں فرمایا کہ:’’پھرہم ایک سرسبزوشاداب باغ میں آئے جس میں ایک عظیم درخت تھا اوراس کے نیچے ایک بوڑھا اوربچے بیٹھے تھے اوردرخت کے قریب ہی ایک آدمی آگ جلارہا تھاتومجھے درخت پرلے گئے اورمجھے ایک گھر میں داخل کیا، اس جیسا خوبصورت اوراس سے افضل گھر میں نے آج تک نہیں دیکھا،اس میں جس میں مردوعورت بوڑھے بچے نوجوان تھے، پھر مجھے وہاں سے نکال کر درخت پرلے گئے اورایک خوبصورت اورافضل گھرمیں داخل کیا ،جس میں بوڑھے اورجوان تھے میں نے کہا تم نے مجھے آج رات گھمایا پھرایا ہے تو جوکچھ میں نے دیکھا ہے، اس کے بارے میں مجھے بتاؤ، تووہ کہنے لگے جی ہاں! اوراس درخت کے نیچے ابراہیم علیہ السلام اوران کے ارد گرد لوگوں کی اولاد تھی۔( صحیح بخاری حدیث نمبر۔1270)قرآنی آیات اور احادیث کے علاوہ اسلامی تاریخ سے بہت سی مثالیں موجود ہیں جو درخت لگانے کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، خلیفہ عمر بن الخطاب کے دور میں، انہوں نے سڑکوں کے کنارے اور مدینہ کے عوامی مقامات پر پھل دار درخت لگانے کا حکم دیا۔ اس نے نہ صرف شہر کو خوبصورت بنایا بلکہ لوگوں کے لیے خوراک اور سایہ کا ذریعہ بھی فراہم کیا۔مزید برآں، ’’صدقہ جاریہ ‘‘یا جاری صدقہ کا تصور بھی درخت لگانے کے عمل سے متعلق ہے۔ جب کوئی شخص درخت لگاتا ہے، تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے فوائد حاصل ہوتے رہتے ہیں، جو آنے والی نسلوں کو سایہ، خوراک اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ اس جاری فائدے کو صدقہ کی ایک شکل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو درخت لگانے والے کے انتقال کے بعد بھی ثواب کماتا رہتا ہے۔

اسلام میں درخت لگانے کی اہمیت قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ سے واضح ہے۔آئے دن یہ اس طرح کی خبریں ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہیں کہ فلاں شہر میں ترقیات کے نام پر اتنے درختوں کو کاٹ دیا گیا، فلاں ملک میں ایک مال بنانے کے لیے پورے جنگل کو کاٹ دیا گیا، آج ہندوستان میں بہت سے ایسے شہر ہیں جہاں زیادہ درخت کاٹنے کی وجہ سے وہ شہر زمین میں دھنسنیں لگے ہیں،ایسے مال، بازار، ریسٹورینٹ اور اسمارٹ سٹی کا بھلا کیا فائدہ، جس سے ماحول اور انس و حیوان کی جان کا خطرہ ہو۔

درخت لگانا ایک نیکی کا کام ہے جیسا کہ مذکور ہوا،مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس نیک عمل میں زمین کے محافظ کے طور پر اپنی ذمہ داری کو پورا کریںاور صدقہ جاریہ میں مشغول ہونے کے ذریعہ میں شامل ہوں۔ درخت لگا کر مسلمان ماحول کے تحفظ اور تمام مخلوقات کی بھلائی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور اس نیک عمل کے روحانی فوائد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
[email protected]>