مشرق کی روحانی پستی اور مغرب کی سائنی ترقی فکر وادراک

شہباز رشید بہورو

قوموں کے عروج و زوال کے سلسلے میں اس بات کی تحقیق کرنا از حد ضروری ہے کہ ایک قوم کن اسباب کی بنا پر ترقی پذیر اور کن اسباب کی بنیاد پر زوال پذیر ہوتی ہے۔لیکن اقوام پر بات کرنے سے پہلے اگر فرد کی ترقی و پسماندگی کے اسباب پر بھی قلم کو جنبش دی جائے تو بہت کچھ بے نقاب ہوتا چلا جاتا ہے ۔عام طور پر ہمارے یہاں افراد کی ترقی و پسماندگی کی بنیاد پر مقدر کے لفظ کو بڑا ہی سجا کر گویا بہت بڑی حقیقت کا انکشاف کردیا جاتا ہے لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ یہی لفظ دراصل ہماری ہر ناکامی کی وجہ بنتا ہے ۔ہم کچھ نہ کریں اور پھر ناکامی کے وقت سارا الزام مقدر پر دھر کر بری ہوجاتے ہیں ۔اس لفظ مقدر کی غلامی میں بڑے بڑے بظاہر دانابینا لوگ بھی پھنستے ہیں ،جو اپنی ہاتھ کی لکیروں کے ذریعے خوش فہمیاں حاصل کرتے ہیں اور بڑی بے صبری سےعمربھر مال ودولت کے خزانوں کے انتظار میں بغیر ایک پتھر ہلائے چل بستے ہیں ۔ یہ ہے دراصل ہماری پسماندگی کی وجہ ۔دوسری طرف وہ افراد جو مقدر سے زیادہ محنت و مشقت اپنی زندگی کامقصد بناتے ہیں ،وہی ترقی و ترفع کے اہل بھی بنتے ہیں ۔ہم دور جدید میں اگرچہ اپنے اپنے ملکوں میں بڑے بڑے مناصب پر بھی فائز ہوں لیکن میں پھر اپنے آپ کو ترقی سے کوسوں دور سمجھتا ہوں کیونکہ جدید دور میں ترقی کا اصلی معیار سائنس کی بنیا د پر پرکھا جاتا ہے نہ کہ انتظامی مناصب پر ۔جدید ترقی کا معیاد دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں مروجہ علوم میں ہم نے کتنا اضافہ کیا ہے، اس کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے ۔جہاں پر ہم نہایت ہی پست سطح پر شور وغل مچائے ہوئے ہیں ۔ہمارے ہاں اہل منصب انگریزوں کی تعلیم کو رَٹ رَٹ کر جو منصب حاصل کرتے ہیں اور پھر اس پر اکڑ اور گھمنڈ کالبادہ ڈال کر اپنے آپ کو ترقی یافتہ گردانتے ہیں ،خدا کے لئے ہمیں اس مٖفروضے سے باہر نکلنا چاہئے ۔ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کے مترادف ہمیں بہت کچھ کرنا ہےملک وملت کے لئے۔ہماری ترقی کا خواب صرف اورٖصرف کرسی پر بیٹھنا ہے اور مغرب کا چاند اور مریخ کی سطح پر مزید تحقیقات کرنے کا ہوتا ہے ۔ہمارے یہاں کے دولت مند اپنی ساری دولت عیاشی پر لٹاتے ہیں اور دنیا کا سب سے امیر ترین انگریز الن مسک اپنی دولت مریخ پر انسانی کالونی بسانے کی کوشش پر صرف کررہا ہے ۔آپ الن مسک کی کمپنیوں کی فہرست دیکھ کر ان کے مقاصد پڑھ کرآپ حیران ہو جائیں گے کہ وہ کتنا دُورکی سوچتے ہیں ۔

ایک چیز ہمارے پاس تھی جو ہم مغرب کو دے کر ان سے کہیں آگے جا سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے اس میں بھی ہماری محنت و مشقت کا یہ حال ہے کہ ہم ہیں کہ صرف سطحی لوگ ہیں،اور محض سونا ،کھانا اور سیروتفریح کرنا ہمارا مقصد ہے ۔جو چیز ہمارے پاس مغرب کو دینے کی ہے، وہ ہے مذہبی روحانیت ۔مغرب میں مذہب کا حال نہایت خستہ ہے ،عیسائیت اور یہودیت تحریف درتحریف کا شکار ہو کر بس عیسایوں اور یہودیوں کا باطلانہ زعوم کا مرکب بن چکےہیں ۔جس پر اکتفا کرکے مغرب ایک خودکش ڈپریشن کا شکار ہو چکا اور نہایت ہی درندگی کی سطح پر چل رہا ہے ۔اگر مغرب کی مدد ابھی مذہب کے ذریعے نہ کی گئی تو دنیا کو یقیناً ہم نت نئے فسادات کی آغوش میں جکڑتے ہوئے پائیں گے۔اس لئے مغرب اس لحاظ سے بیچارہ ہے ۔لیکن ہم اپنے دینی تناظر میں ان سے بھی زیادہ تباہی کی اور جارہے ہیں ۔نہ ہم میں قرآن پڑھنے کا شوق ، نہ ہم نماز قائم کرنے کے خواہاں ، نہ ہم سچائی کے علمبردار ، نہ ہم اعلیٰ اور پاکیزہ کردار کے مالک ،نہ ہم میں صالح طبعیتیں فروغ پذیر ،نہ ہم میں قوت برداشت ،نہ ہم میں صبر وتحمل اور نہ ہم میں دین کے لئے ایثار وقربانی کا جذبہ ہے ۔ہم ہیں کہ بس نام نہاد مسلمان ۔دین کو ہم نے بس آستانوں اور مقبروں کے اردگرد ایک رسمی اور بدعت کے رنگوں میں رنگ کر محدود کر دیا ہے ۔قرآن پر تدبر وتفکر کرنے کی صلاحیت سے ہماری پچانوے فی صد آبادی عاری ہے تو پھر ترقی کہاں کی متوقع ہے ۔کچھ لوگوں نے تو دین کو بس پیری مریدی میں جکڑ کر اس طرح سے سخت کرلیا ہے کہ جناب پیر صاحب نے گناہ کا ٹھیکہ لے کر گویا ان کو آخرت کے حساب و کتاب سے بری کردیا ہے ۔کچھ حضرات نے دین پر یہ بڑا احسان کرنا شروع کردیا ہے کہ ہرمعاملے میں دین کی نمائندگی کرنے کے بدلے اپنی ذات کی نمائندگی کرنے بیٹھ گئے ۔کچھ نے تو دین میں آسانی پیدا کرنے کا ٹھیکہ لیکر ہر ناجائز امر میں جائز ہونے کے احتمالات پیش کئے ،اس طرح سے وہ اہل مغرب کے فرسودہ الزامات کا جواب دینے کے لئے خود بدلتے نہیں ،قرآن کو بدل دیتے ہیں کے مصداق دین کی نام نہاد خدمت انجام دے رہے ہیں ۔اور بھی بہت سے درد ہیں جن کا ذکر طوالت کے سبب میں نہیں کرسکتا ۔ہم میں اللہ کی فرمانبرداری کا جذبہ نہیں، بس نفسانی خواہشات کی پیروی مطلوب ہے ۔ یہ ہے ہمارے ہاں دین کے ساتھ ہمارا رویہ ۔لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں ابھی ایک اچھی تعداد کچھ مخلص ذہین وفہیم علمائے دین کی ہے جو دین کی صحیح نمائندگی کررہے ہیں ۔

پورامغرب ذہنی سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے،جس کو حاصل کرنے کے لئے وہ سائنسی آلات سے نئے نئے اقدام کررہا ہے لیکن سکون تاہنوز لاحاصل ہے ۔اس لئے اس صورتحال میں اس فیلڈ میں مخلصانہ دعوت دین کا کام کرکے ہم مغرب کو ذہنی کوفت سے آزاد کر سکتے ہیں ۔(جاری)
(رابطہ۔7780910136)
[email protected]