آن لائن جُوے کی وباء،گھروں کے گھر تباہ دن کا قرارنہ رات کی نیند، نوجوان نسل آن لائن طوفان میں غرق

سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ،بڈگام

چند دن پہلے کی بات ہے کہ میری ملاقات ایک نوجوان لڑکے سے ہوئی، جو میرے ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُس کی جسمانی اور ذہنی حالت دیکھ کر مجھے اُس پر ترس آیا۔ اُس کی دھنسی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ یا یہ نوجوان بیمار ہے یا گھریلو ذمہ داریوں نے اس کو ایک زندہ لاش بنا کے رکھ دیا ہے۔ انسانیت کے ناطے میں نے اس سے دریافت کیا کہ ایسے کونسے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آپ کی ایسی حالت ہوگئی تھی۔اگرچہ وہ بولنے سے ہچکچا رہا تھا ،لیکن میرےاصرار کرنے پر وہ کھل گیا اور اپنی روئیداد سُناکر اپنی نادانی و غفلت اور لالچ کے نتیجے میں اپنی بے بسی کا رونا رونے لگا، تو میری آنکھیں بھی چھلک گئیں۔ اُس نے بتا یا کہ وہ کیسے اور کس طرح’’ آن لائن جوے‘‘ کی لت کا شکار ہوگیا اور اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے بعد اب وہ چلنے پھرنے تک سے قاصر ہوگیا ہے۔’ آن لائن جوے‘ میں اپنی ساری جمع پونجی لُٹانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف دن کا چین اور راتوں کی نیندکھو چکا ہے بلکہ وہ اپنے رشتہ داروں کےعلاوہ دیگر سماجی روابط سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ اُس کی زندگی سے سکون نام کی اب کوئی چیز ہی باقی نہیں رہ گئی ہے،جس کے باعث اب وہ تمباکو نوشی کا بھی نرم نوالہ بن گیا ہے۔بقول اُس کے وہ تمباکوکے کش لگاتے ہوئے اپنی بربادی کے اوقات کو کچھ لمحوں کے لئے بھول جانے کی کوششیں کرتا ہے، لیکن بے سود۔کیونکہ اس کی دِگرگوںحالت دیکھ کر مجھے اپنے کشمیری معاشرے کے نوجوانوں کی اُس بڑی تعداد کا خیال آنے لگا جو آج کل ’’آن لائن جُوے ‘‘ میں دن رات مشغول و مصروف رہتے ہیںاور بالآخر اسی طرح کی صورت حال کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ جو بات سب سے اہم ہے۔ وہ یہ ہے کہ آخر ایسی کون سی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے بیشتر نوجوان’’ آن لائن سائٹس پر کھیلے جانے والے جوے‘‘ کے شکار ہورہے ہیں۔میرے خیال میں جو چند وجوہات ہوسکتی ہیں ،اُنہیں مندرجہ ذیل سطور میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
پہلی وجہ ہے کاہلی
ہمارے سماج میں بیشتر افراد سستی کا شکار ہیں۔ ہم لوگ جسمانی کاہلی کے علاوہ دِلی قوتوں کو بھی بیکار چھوڑنے میں ماہر ہیں۔ اب جب سستی سے ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس کے برعکس مہنگائی کی مار ہر جگہ ہے تو ایسے میں کسی ایسے راستے کا تعین کرنا، جس میں زیادہ محنت کی ضرورت بھی نہیں ہو، لیکن پیسے کمانے کے مواقع زیادہ ہوں، ضروری ہوجاتا ہے۔ ایک جواری اپنے ہی گھر میں بیٹھ کر جوے میں پیسے لگا کر مفت کے پیسے کمانا چاہتا ہے۔ اس طرح سے ذہنی بیماریوں کے علاوہ جسمانی بیماریوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے،جو بعد میں تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ وہ سُکڑ کر رہ جاتا ہے۔گویا جو نوجوان اس جوے کی لپیٹ میں آتا ہے ،اُسے اس لَت سے باہر نکلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔اطلاعات کے مطابق ہمارے سماج کا ایک بڑا حصہ آن لائن جوے کی لپیٹ میں آ چکا ہےاور اس سے بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔
دوسری وجہ ہے بےروزگاری
بے روزگاری کی مار نے ہر کسی کو بُری طرح متاثر کیا ہےاور اس پر ہوش رُبا مہنگائی کا بھی ستم ہے اور اس دو طرفہ ستم گاری نے نوجوان طبقے کو غلط راستے کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا ہے۔منشیات اور جوا، بےروزگاری کی مختلف شکلیں ہیں۔ جب ایک انسان اپنی ضروریات ِزندگی پوری کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو وہ مجبوراً غلط راستے کا انتخاب کرتا ہے اور دھیرے دھیرے تباہیوں کے گڑھوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔
تیسری وجہ ہے صحبت
اکثرانسان صحبت کا ا ثر فوراً قبول کرتے ہیںگویا صحبت کا پھل ہے۔ ایک انسان جس ماحول میں اُٹھتا بیٹھتا ہے، وہ ماحول اس کی جسمانی بناوٹ کے علاوہ اُس کی ذہنی ساخت پر بھی نمایاں اثر ڈالتا ہے۔ سماج دشمن عناصر کی صحبت بربادی کا باعث ہے۔ جس ماحول میں غنڈوں، قمار بازوں ، چوروں اور منشیات استعمال کرنے والوں کی محفلیں سجانے کا سلسلے کو معیوب نہ سمجھا جاتا ہو، اُس ماحول کا خدا ہی حافظ ہے۔ قمار بازوں کی محفلیں تباہیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ ان ہی محفلوں میں مختلف قسم کےجُوے کی لت لگ جاتی ہے، جو لاکھ چھوڑنے پر بھی نہیں چھوڑ سکتی ہیں۔ہے۔
چوتھی وجہ ہے مشہور ہستیوں کا جوے کو فروغ دینا
کچھ دنوں پہلے IPL کرکٹ میچ کے دوران میں نے دیکھا کہ کیسے بالی وڈ اور کرکٹ دنیا کی مشہور ہستیاں آن لائن جوے کو فروغ دے رہی ہیں۔ یہی نام نہاد ہستیاں معصوم اذہان کوجُوے کی طرف مائل کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ پورا سماج اس کی لپیٹ میں آتا ہے۔ ان بے ضمیروں کو کون یہ بات سمجھائے کہ کیسے وہ شعوری یا لاشعوری طور پر سماج میں بے راہ روی اور گناہوں کی فصلیں بو رہے ہیں۔ خود یہ ہستیاں اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے میں سبقت لی رہی ہیں لیکن عام لوگوں کی بےبسی کا فائدہ اُٹھا کر ان کی جمع پونجی پر وار کرتے ہیں۔
پانچویں اور آخری وجہ ہے قمار بازوں کی حوصلہ افزائی
مختلف معاشروں میں زیادہ تر لوگوں کی غیرت غارت ہوچکی ہے،جو قمار بازوں کی تاج پوشی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے سماج میں بھی جو کوئی شخص آن لائن جوے میں لاکھوںروپےکماتا ہے، اُس کی سوشل میڈیا سائٹس پر اتنی پذیرائی ہوتی ہیں کہ دوسرے اشخاص بھی اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر آن لائن جوے کی مختلف applications کو اپنے فون میں ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خیالی دنیا میں کروڑ پتی بننےکی اُمید میں جیتے رہتے ہیں۔ ہمیں شرم سے ڈوب کر مرنا چاہیے کہ آج کے زمانے میں جس کے پاس زہر کھانے کے لئےپیسے نہیں ہوتے ہیں، وہی جوے میں مست ہوکراپنے گھروں کی جمع پونجی تک داؤ پر لگا رتے رہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جو لوگ ایک طرف مہنگائی کے خلاف سینہ پیٹتے رہتے ہیں تو دوسرے طرف آن لائن جوے میں لاکھوں روپے ضائع کرتے ہیں اورپھر بے چینی کی تاریک وادیوں میں اترتے جاتے ہیں۔ اب کون ان لوگوں کو اس بیوقوفانہ طرزِ عمل پر ملامت کرتا پھرے۔ اب تواس کی مثال اُس گھر کی ہے جو اپنے چراغ سے ہی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہورہے ہیں۔
اس گناہ کے سنگین نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جیسے کہ مندرجہ بالاسطروں میں ایک نوجوان کی حالت زار پر بات کی گئی ہے، اس طرح اِس جوے کی ناؤ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ نتیجہ عیاں ہے کہ سماجی برائیوں میں اضافہ ہونے سے گھروں کے گھر تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ قتل کی وارداتوں میں اضافے ہورہاہے، رشتے ناطے زوال پذیر ہورہے ہیں، چوریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ذہنی امراض میں بڑھوتری ہورہی ہے۔ گھروں کے اثاثےمحدودہورہے ہیں، سماج کی جڑیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ ایک دھاگہ جو ہم سب کو باندھے ہوئے تھا، وہ بھی اب لگ بھگ کٹ گیا ہے۔ بھروسے کا فقدان اور خوف کا ماحول ہر طرف ہے۔ ہر گھڑی موت کی آہٹیں سنائی دے رہی ہیں، سکونِ قلب ختم ہوگیا ہے، آنکھوں کی روشنی دُھندلی ہوگئی ہے، نیند ہماری زندگیوں سے غا ئب ہوگئی ہے۔ بے چینی کا چلن عام ہے، غموں کے ڈھیرے ہیں، اداسیوں کا سماں ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے اور حیوانیت کا راج ہے۔
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ہم سب کو جوے اور قمار بازی کے سیلاب کو روکنے کی بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں۔ اگر ہم اسی روش پر چلتے رہے، تو وہ دن دور نہیں ہے جب ہمارے گھر ویرانی کا نظارہ پیش کریں گے۔ ہماری زندگیاں اب آہستہ آہستہ اُس ڈگر پر جارہی ہے جس کی منزل تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ سماج کے ہر ذی شعور فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خود بھی اور دوسروں کو بھی جوے کی لعنتوں سے دور رکھیں۔ اگرچہ یہ آہنی چنے چبانے کے مترادف ہے، لیکن اگر کسی ایک نوجوان کی زندگی جوے میں ضائع ہونی سے بچ جاتی ہے تو یہ بھی جہاد کی ایک عمدہ نشانی ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر مذہبی اداروں کو اس ضمن میں نمایاں رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بیت المال کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ غرباء کی داد رسی کرنا لازمی بن گئی ہے۔ جو مفلوک الحال ہیں ان کی حمایت کرنے سے ہی اصل گناہ پر کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے۔ کسی کو وقتی طور پر مدد کرنے سے بہتر ہے کہ اس کی تاعمر مدد کی سبیل کی جائے تاکہ اُسے لوگوں کے سامنے دامن پھیلا نا نہ پڑے ۔ مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں آخر پر حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ آن لائن جوے میں پھنسے ہوئے نوجوانوں اور دوسرے لوگوں کی فکر کریں۔
رابطہ۔[email protected]