ہمارا ملکی دستور، جمہوریت اور مسلمانوں کا کردار حقائق

ذکی نور عظیم
15اگست1947ء کوانگریزوں کے غیر قانونی ،ظالمانہ، جابرانہ اور ہر طرح سے ناقابل قبول راج سےآزادی ملک کی تاریخ کا سب سے یادگار دن ہے ۔ واضح رہے کہ انگریز جو تجارتی راستہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے ہندوستان میں داخل ہوئے دھیرے دھیرے یہاں کے اقتصاد ہی نہیں بلکہ اقتدار میں بھی دخیل ہوگئے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھوں نے یہاں کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو تخت حکومت پر بیٹھنے سے منع کردیا۔اور 1857ء میں بہادر شاہ ظفر کے سبھی بیٹوں کے سر قلم کر کے ایک تھالی میں سجا کر ان کو پیش کرنے کے بعد بلا شرکت غیرے 1947ء تک یہاں راج کرتے رہے۔یہاں تک کہ ملک کے تمام مذاہب و طبقات کی مستقل مشترکہ کوششوں (جس میں مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور اہم رہا) کے نتیجہ میں 15اگست 1947ء کو آزادی کا سورج طلوع ضرور ہوا لیکن ساتھ ہی انگریزوں کی منافقانہ اور مکار ذہنیت اور سازشوں کی وجہ سے ایک ناقابل برداشت اور نہایت تکلیف دہ زخم یعنی عظیم ہندوستان کی دو ملکوں ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کا درد بھی سہنا پڑا۔
آزادی کے بعد ابتدائی ایام میںیہاں برطانوی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والا ’’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ‘‘ ہی رائج رہا۔کچھ وقفہ کے بعد آزاد ہندوستان کے نئے دستور کیلئے تمام مذاہب، طبقات اور علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل ڈاکٹر امبیڈکر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کافی غور وخوض ،تفصیلی گفت و شنید ،مناقشہ، بحث ومباحثہ اور دنیا میں رائج دیگر دستوروں اور خاص طور پر ملک کے عناصر ترکیبی، مختلف مذاہب، طبقات، علاقوں، زبانوں اور انکی تہذیب وثقافت کو مد نظر رکھ کر اس ملک کے لئے سب سے تفصیلی دستور آزادی کے 2 سال 3 ماہ 11 دن بعد 26 نومبر 1949 کو مکمل کیا اور مختلف صوبوں کے مجالس قانون ساز کی منظوری کے بعد 26 جنوری 1950ء کو اسے نافذ کردیا گیا۔
دستور میں ملک کو مذہب کے بجائے ایک سیکولر عوامی جمہوریہ بنانے، اس کے تمام باشندوں کو سیاسی سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے، ہر ایک کو آزادانہ افکار و خیال رکھنے، مذہب و عقیدہ پر عمل، مذہبی اداروں کی تعمیر اور اس کی دعوت وتبلیغ ، عبادت کرنے اور عبادت گاہ کی تعمیر اور اظہار رائےکی آزادی کے ساتھ ساتھ حیثیت اور موقع کے اعتبار سے مساوات و برابری کا حق دیا گیا، اتحاد و سالمیت کو یقینی بنانے کے لئے اخوت و بھائی چارہ فروغ دینے کے عزمِ کا اظہار کیا گیااور یوم آزادی 15 اگست کی طرح قانون سازی کی تکمیل کے دن 26 نومبر کے بجائے قانون کے نفاذ کے دن 26 جنوری کو دوسرا قومی دن مان کر ان دونوں دنوں 15 اگست اور 26 جنوری کو ملکی سطح پر جشن منانے کو قانونی حیثیت دی گئی۔ اور یہ پیغام دیا گیا کہ جس طرح کسی عمارت کا نقشہ بنانے کے بجائے اس کے مطابق تعمیر، اور کسی پروجیکٹ کے پلان کے بجائے اس کے مطابق اس کا نفاذ اصل ہے، اسی طرح ملک کے لئے دستور سازی سے زیادہ اس کا نفاذ اصل ہے،اس لئے ہمارا دوسرا قومی دن 26 جنوری ہوگا۔
یاد رہے کہ1947ء میں تقسیم کے وقت پاکستان میں زیادہ تر مسلمان گئے لیکن بڑی تعداد میں مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی اور اس کو خیر باد کہنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ منقسم ہندوستان کے ذمہ داروں نے بھی اسکو پسند کیا اور بعض مسلم اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، حیدرآباد، بھوپال، جوناگڑھ اور جودھپور جیسی ریاستوں کے ابتدائی طور پر انکار کے باوجود اس کو ہندوستان کے ساتھ رکھنے کے لیے ہر طرح اور آخری درجہ کی سیاسی،سفارتی اور دیگر کاوشیں یہاں تک کہ بعض جگہوں پر تو طاقت کا بھی بھرپور استعمال کیا۔ اس طرح ہندوستان کسی خاص مذہب کا نہ ہو کر ایک سیکولر جمہوریہ کے طور پر دنیا کے نقشہ پر اپنی عظمت کے جھنڈے لہراتا رہا۔ اور اس کی شناخت ایک ایسے عظیم ملک کے طور پر کی جاتی رہی جس میں ہر مذہب، طبقہ ، رنگ ،نسل اور بے شمار زبان بولنے والے لوگ ہمیشہ ،بلا کسی تفریق ،پوری آزادی اور اختیار کے ساتھ تھے اور ہیں۔
اللہ نےسورہ لقمان کی آخری آیت میں قیامت، بارش،ماں کےپیٹ سے بچے کی پیدائش، مستقبل کے فیصلوں ،انسان کی موت، اس کی جگہ اور وقت کی صحیح جانکاری اور معلومات کو اپنا خاص امتیاز قرار دیا ہےیعنی انسان دنیا میں ایک مدت گزارنے، مختلف چیزوں کی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے باوجود خود اپنی موت کی جگہ اور وقت کے سلسلے میںکچھ نہیں کر سکتا بلکہ یہ صرف اللہ کا اختیار ہے، تو اپنی پیدائش کے بارے میں جبکہ اس کا وجود ہی نہیں وہ کیسے کچھ کر سکتا ہے۔ یعنی ہماری پیدائش کے لیے ہندوستان کا انتخاب صرف اللہ کا انتخاب ہے جس سے ہندوستانی مسلمان مطمئن اور راضی ہونے کی وجہ سے اس کی ترقی، خوشحالی یہاں امن و سلامتی، پیار و محبت،آپسی باہمی تعاون اور وقت ضرورت اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کو اپنا ملکی ہی نہیں بلکہ ملی ودینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف میں درج ہیں۔ خاص طور پر جنگ آزادی میں ان کا سرگرم کردار اور عظیم قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ مسلمانوں سے عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک مذہب اصل ہے یا ملک؟ اس سلسلہ میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام ایسا مذہب ہے جس میں کسی ایک پہلو کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ اس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس میں عقائد عبادات اخلاق و کردار دیگر معاملات کے ساتھ ملک کی ترقی وخوشحالی، وہاں امن و سلامتی اور دیگر امور کو مجموعی طور پر برتا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جب بھی ملک کو ضرورت ہوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا بلکہ صف اول میں نظر آیا، جس کی تاریخ گواہ ہے۔اسلام میں تو دیگر حقوق نظرانداز کرکے صرف اللہ کے حقوق کی فکر کو بھی پوری طرح درست نہیں مانا گیا اور بخاري شریف کی حدیث میں یہ بات پوری وضاحت سے بیان کی گئی کہ حضرت سلمان فارسی نے حضرت ابو الدرداء کو دن میں روزہ رکھنے اور رات میں صرف عبادت کرنے سے روکا اور کہا تم پر تمہارے رب ، تمہارے اپنے جسم وجان ، تمہاری بیوی بچوں کا بھی حق ہے اور ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو، تبھی سچے مسلمان ہو گے۔ ضرورت ہے کہ اس ملک میں مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کردار ادا کرے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے حلف الفضول کے موقع پر قریش کے کچھ با اثر لوگوں کے ساتھ مل کر ادا کیا تھا۔
[email protected]