نیکی اور بدی کی تمیز فکر و فہم

عمران احمد سلفی
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایک فیصلے کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کردے گا اور تمہیں بخش دےگا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے‘‘…(سورۃالانفال،آیت: ۲۹)
اس آیت میں ارشاد الٰہی کا منشاء یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرو اور تمہاری دلی خواہش ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جو رضائے الٰہی کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوت وتمیز پیدا کر دےگاجس سے قدم قدم پر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون سا رویّہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔ کس رویے میں اللہ کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی۔
زندگی کے ہر موڑ ،ہر نشیب و فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اٹھانا چاہیے اور کدھر نہیں اٹھانا چاہیے ۔کون سی راہ حق ہے اور اللہ کی طرف جاتی ہے اور کون سی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے : اچھائی اور برائی برابرنہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے ۔(سورۂ فصلت:34) اس آیت میں اعلیٰ اخلاقی قدر اور معاشرتی زندگی کے سکون و اطمینان کا راز بتایا گیا ہے کہ تم برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو ،مثلاً غصے کو صبر سے ، لوگوں کی جہالت کو بُردباری سے اور بدسلوکی کو عفو و درگزر سے کہ اگر کوئی برائی کرے تو اسے معاف کردو۔
حضرت عبد اللہ بن عبید ؓ فرماتے ہیں: جب غزوۂ احد میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے مبارک دانت شہید ہوئے اور روشن چہرہ لہو لہان ہوگیا تو ان کے خلاف بددعا کی عرض کی گئی لیکن آپ ؐنے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے طعنے دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ مجھے دعوت دینے اور رحمت فرمانے والا بنا کر بھیجا ہے ، (پھر دعا کی) اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ مجھے جانتے نہیں۔(شعب الایمان)
ایک مرتبہ آپؐکے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے مو ٹے تھے کہ ایک اعرابی نے بطورِ امداد مال مانگنے کے لئے چادرمبارک پکڑ کر بڑے زور سے کھینچا ،یہاں تک کہ مبارک کندھے پر رگڑ کا نشان بن گیا۔ ساتھ ہی اعرابی نے بڑے سخت جملے بھی کہے۔ سید العالمین ؐ خاموش رہے اور صرف اتنا فرمایا کہ مال تو اللہ تعالیٰ کا ہی ہے اور میں تو ا س کا بندہ ہوں، پھر ارشاد فرمایا کہ اے اعرابی: کیا تم سے اس سلوک کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرمایا: کیوں نہیں؟ اعرابی نے جواب دیا،کیونکہ آپ کی یہ عادتِ کریمہ ہی نہیں کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے دیں۔ اس کی یہ بات سن کر سرکارِ دو عالَمؐ مسکرا دئیے اور ارشاد فرمایا: اس کے ایک اونٹ کو جَو سے اور دوسرے کو کھجور سے بھردو۔(بخاری،ج 4،ص77)
تکلیف پر صبر، جہالت پر حلم اور بد سلوکی پر عفو و درگزر بہت عظیم عمل ہے حتیٰ کہ اگلی آیت میں فرمایا کہ یہ دولت صبر کرنے والوں کو ہی ملتی ہے اور یہ دولت بڑے نصیب والے کو ہی ملتی ہے ۔(سورۂ فصلت:35) خوش اخلاقی بہت بڑی نعمت ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنوں میں زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے ان میں سب سے اچھا ہے ۔(سنن ابو داؤد)