دورِ حاضر اور اقبال کی تاباں شاعری

عبدالعزیز
انسانی زندگی کے اسرارو رموز کو سمجھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اگرچہ کہ عوام الناس کے کردار و افعال کا جائزہ لے کر کسی حد تک ان کی شخصیت کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے، لیکن جب معاملہ کسی شاعر و ادیب کا ہو تو یہاں اسکے کلام اور بیانیہ سے ہی اس کے ادبی اور علمی قد کا تعین کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلو قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔کسی ادیب یا شاعر کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عوام الناس میں کتنا مقبول ہے ، اسکی شاعری اپنا اصل برقرار رکھے ہوئے ہر دور کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس کی شاعری یا ادب میں مقصدیت اور مثبت پیغام بھی ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری زندہ و جاوید ہے، وقت کی پرچھائیوں نے ان کے کلام کو دھندلا نہیں کیا بلکہ دور حاضر میں بھی وہ مزید تاباں محسوس ہوتی ہے۔ ان کی شاعری مثبت پیغام سے پر ہے، وہ آفاقیت اور ہمہ گیریت پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال کو جدید دور کا صوفی بھی کہا جاتا ہے جو تصوف کے درس کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کو ان کی کوتاہیوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کی توضیح و تشریح آج تک آسان کام نہیں ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر شخص نے اسے اپنے اپنے اندازمیں سمجھا اور پھر اپنی بساط کے مطابق اسکی تشریح بیان کی۔
ان کے کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسے دنیا کے کسی بھی اعلیٰ پایہ شاعر کی تخلیق کے سامنے بے خوفی اور اعتماد کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شیکسپیئر ، فردوسی اور حافظ سمیت کئی دوسرے شعرا۔ علامہ اقبال تصوف میں مولانا جلال الدین رومی کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔
علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں اور اس دور کی بحالی کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ وہ امت مسلمہ کو دنیا کی تمام امتوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سب امتوں پر فوقیت اور فضیلت رکھتی ہے۔ اس لئے فرماتے ہیں۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میںقوم رسول ہاشمی
وہ ذات پات اور نسل پرستی کی قید سے آزاد ہیں ، یہ ان کے اتحاد امت کا فلسفہ ہی تھا کہ انھوں نے 1930ء میں خطبہ الہ آباد پیش کیا اور اسی نظریے کی بدولت دو قومی نظریہ وجود میں آیا۔ علامہ اقبال یہ جانتے تھے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان وہاں رہنے والے تمام ہندوئوں سے ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ ان کی امتیازی حیثیت کا ثبوت یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں مذہبی ، ثقافتی ، سماجی اور معاشرتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سو خطبہ الہ آباد قیام پاکستان کی راہ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
التمش لشکری پوری اپنے ایک مراسلے میں خطبہ الہ آباد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی صورت رکھتا ہے اور وطن پرستی بت پرستی کی ہی ایک صورت ہے اس لئے علامہ اقبال کے تصور وحدت امت کو سمجھنے کے لئے ان کی کتاب ‘The Reconstruction of ReligiousThought in Islam’ملاحظہ کرنی چاہیے۔ یہ کتاب اردو ترجمے کے ساتھ دستیاب ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری کا محور نوجوان ہیں وہ انھیں شاہین قرار دیتے ہیں ، یہ درست ہے کہ وہ نوجوانوں کے تغافل کی شکایت کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں۔ وہ اجتماعیت پر زور بھی دیتے ہیں لیکن ان کے نزدیک فرد واحد بھی ملت کی ترقی اور کامیابی کے لئے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
علامہ اقبال اگرچہ جرمن فلاسفرز سے متاثر ہیں لیکن ان کے نزدیک حاکمیت کا سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تھے۔ ان کے نزدیک ہدایت کا سرچشمہ ، کعبۃ اللہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن حکیم ہیں۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے عطا تجھ کو جدت کردار
وہ ان نوجوانوں کو ملت کا سپاہی قرار دیتے ہیں جو اپنے اعلی کردار و افکار سے دنیا کو بدلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارہ
شباب جس کا ہے بے داغ،ضرب ہے سرکاری
علامہ اقبال فلسفہ اور منطق کے امام ہیں لیکن جتنے بڑے وہ مفکر تھے اتنی ہی سادہ طبیعت کے مالک بھی تھے ، ان کا مزاج عام شاعروں سے مختلف تھا وہ کبھی داد و تحسین کے لئے شاعری سنایا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کا مقصد کسی پر اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا ہوتا تھا بلکہ وہ سادہ تراکیب اور اسلوب کا استعمال کرکے مخاطب کا دل جیت لیتے تھے۔شاعری ان کی روح میں گویا سرایت کر چکی تھی۔
علامہ اقبال کے ہاں عقل ناقص ہے یہ ایک ایسا نور ہے جو چراغ راہ تو ہے لیکن منزل نہیں ، ان کے نزدیک خودی ایک ایسا جذبہ ہے جس سے اپنی ذات سے واقفیت حاصل کی جاتی ہے ، لیکن یہاں خودی کا مطلب انا پرستی یا خود پسندی نہیں ہے۔ خودی کا مطلب ’’میں ‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر خدا کی شناسائی حاصل کرنا ہے یعنی عشق مجازی کے راستوں سے گذرتے ہوئے اس کی منازل طے کرتے ہوئے عشق حقیقی تک پہنچنا ہے۔ گویا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال ایک روایت شکن شاعر بھی ہیں ان سے پہلے غزلوں اور نظموں میں گل و بلبل ، ساقی ، میخانہ ، صیاد ، غزال جیسی خصوصیات کا ذکر ہی تھا لیکن اقبال نے لالہ و جگنو ، مرد مومن ، فطرت ، ابلیس ، انسان کامل ، خودی ، فقر و قلندری ، طائر لاہوتی ان سب چیزوں کا بھی تصور دیا۔
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
نہ تخت و تاج نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات ہے مرد قلندر کی بار گاہ میںہے
علامہ اقبال نے مختلف اسالیب پر کام کیا ہے جن میں غزل ، نظم ، مسدس ، رباعی ، مرثیہ ، قطعہ ، قصیدہ ، تظمین وغیرہ شامل ہیں۔
وہ ماہرین تعلیم کو ایک نیا درس نئی جہت سے روشناس کروا رہے ہیں ، وہ جدید تعلیم کے خلاف ہر گز نہیں لیکن اپنے اسلاف کی قربانیوں اور قرآن کی تعلیمات کو فراموش کرنے پر باز پرس کرتے ہیں۔
رہ گئی رسمِ اذاں،روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا ،تلقین غزالی نہ رہی
شکایت ہے مجھے یارب خدا وند مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
علامہ اقبال کی کئی کتابیں اردو اور فارسی میں ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے غیر ملکی ادب کے تراجم بھی کئے تاکہ نوجوان نسل بیرونی دنیا کے ادبا اور شعرا کی کاوشوں سے بھی آگاہ ہو سکے۔ الغرض علامہ اقبال ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ان کا کلام خواہ نثر ہو یا نظم ،زندگی کے مختلف پہلوئووں کا احاطہ کیا ہوئے ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے دئیے ہوئے پیغام سے مکمل استفادہ کریں اور امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کو دوام بخشیں۔
رابطہ۔9831439068