گواہ کہانی

ملک منظور

بیٹے نے جب بارہویں کا امتحان پاس کیا تو ماں نے پوچھا ۔۔بیٹا عادل۔۔ اب آگے کیا کرو گے ۔
عادل نے مسکراتے ہوئے کہا۔ماں میں ڈاکٹر بن کر تمہارے ذخموں کا مرہم کروں گا ۔
ماں نے سنجیدگی سے کہا ۔۔ میرے ذخموں کا مرہم ڈاکٹری سے نہیں قانون سے ہوگا ۔تجھے قانون کی ڈگری حاصل کرنی ہوگی ۔
عادل نے ماں کی آنکھوں میں تیرتے اشک دیکھ کر اُ سے گلے لگا کر پوچھا ۔ماں میں نے آج تک تیرے چہرے پر مسکراہٹ کی جھلک تک نہیں دیکھی ۔کیا تجھے ابو کی یاد آرہی ہے ؟
ابو لفظ سنتے ہی بیوٹی کے منہ سے چینخ نکلی ۔
بیٹے نے حیرانی میں پوچھا: ماں کیا بات ہے ۔تم چلائی کیوں؟
بیٹا کچھ نہیں ، پرانی یادیں اور کچھ نہیں ، ماں نے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا۔
بیٹےعادل نے پھر پوچھا ، ماں سچ بتاؤ کیا معاملہ ہے ۔تم کیا چھپا رہی ہو ،تجھے میری قسم ، ماں بولو کیا بات ہے ۔
بیوٹی نے بیٹے کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ، سن بیٹا آج نہیں تو کل تجھے سچائی بتانی ہوگی ۔ تو میرا جگر ہے لیکن تجھے میرے رحم میں میری مرضی سے نہیں بلکہ جبراً ڈالا گیا ۔تجھے میں قتل بھی کرسکتی تھی جیسے کہ لوگ کرتے ہیں لیکن وہ حق میرے پاس نہیں تھاکیوں کہ تیرا کوئی جرم نہیں تھا ۔سن ،اس اماوس کی رات کو ہمارے گاؤں میں میلہ لگا ہوا تھا ۔میلے میں کئی نامور کلاکار آئے ہوئے تھے ۔لوگ جوک در جوک میلے میں حصہ لینے کے لئے جارہے تھے ۔گاوں کے زمیندار لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جارہے تھے۔سرپنج کا گھرانہ پورے گاؤں میں معزز اور شریف مانا جاتا تھا۔گاوں کے لوگ اس گھرانے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔سرپنج بھی لوگوں کی بہبودی کے لئے جی توڑ محنت کرتا تھا ۔اسی لئے لوگ آنکھیں بند کرکے سرپنچ پر بھروسہ کرتے تھے۔ میں نے بھی اپنے والدین سے جانے کی ضد کی
لیکن ابو نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ میلہ گاؤں سے تھوڑا دور پہاڈی کے دامن میں لگا ہوا ہے اور وہاں آوارہ خونخوار جانوربھی گھومتے ہیں ۔لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں لیکن تجھے پیدل جانا پڑے گا ۔
میرا اصلی نام خالدہ ہے۔ قدرت نے مجھے چاند سے زیادہ خوبصورت بنایا تھا اور مجھے لوگ بیوٹی کوئین کہتے تھے ۔والدین کو میری ہمیشہ سے ہی فکر رہتی تھی۔ میں معصوم سی کلی دنیا کی بدصورتی سے ناآشنا تھی ۔
سرپنچ اور اس کے گھر والوں کے جانے کی خبر سنتے ہی میرے والدین نے سر جھکایا اور چند پیسے دے کر مجھے میلے میں جانے کی اجازت دے دی ۔میں خوشی خوشی اچھلتے کودتے گھر سے نکل گئی ۔اسی رات مجھے کالے بادلوں نے ایسے گھیرا کہ میں بے نور ہوگئی۔مجھ پر ایسی بجلی گری کہ میں جل کر راکھ ہوگئی۔میلہ ختم ہوا ۔سب لوگ خوشی خوشی گھر لوٹے اور کئی دنوں تک میلے کی حسین ترین یادوں سے محظوظ ہوتےرہے ۔لیکن میں اپنی جھونپڑی کے ایک کونے میں زندہ لاش بن کر مقید ہوکر رہ گئی ۔میرے چہرے کی گلابی رنگت زائل ہوگئی ۔میرے والدین پر ایسی وحشت طاری ہوئی کہ وہ کھانا پینا بھول گئے ۔قہر ڈھانے والے سورکی جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے بات چھپانا ہی والدین نے مناسب سمجھا۔
کہتے ہیں نا کہ آنکھیں بند کرنے سے موت یا آفت نہیں ٹلتی بلکہ اس کا اگر بھر وقت ازالہ نہ کیا تو بربادی لاتا ہے۔کچھ مہینے گزر گئے ۔میں اور میرے والدین دل میں مصیبت کا بوجھ لئے ہوئے جینے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ میں بیمار ہوگئی ۔ماں نے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر کو دکھایا ۔ڈاکٹر نے ٹیسٹ کرنے کی صلح دی ۔ ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے میری ماں سے پوچھا ۔۔۔اس کی شادی ہوئی ہے ۔
ماں بیچاری صورت دیوار ہوگئی ۔وہ کچھ کہہ نہیں پائی ۔
جب ڈاکٹر نے دوبارہ پوچھا تو اس نے کہا ۔۔جناب ۔۔نہیں ۔
ڈاکٹر کے کانوں میں جب یہ بات پہنچی تو اس نے آگ بگولہ ہوکر میری ماں کو بری طرح سے دھتکارتے ہوئے کہا ۔تم‌ لوگ بیٹیوں کو جنم تو دیتے ہو لیکن صحیح تربیت نہیں اور پھر معصومیت کا ڈرامہ کرتے ہو۔دفعہ ہوجاؤ یہاں سے ۔
ہم دونوں ماں بیٹی پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔کہتے ہیں نا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ،
ادھر ڈاکٹر نے یہ بات کہی ادھر گاؤں میں یہ بات نہ جانے کیسے آگ کی طرح پھیل گئی ۔جب میں اور میری ماں گاؤں میں پہنچ گئیں تو گائوں والوں نے گوبر ،ناپاکی ،سیاہی اور پتھروں سے سواگت کیا ۔
کسی نے کہا ۔۔۔خوبصورت صورت سے نہیں سیرت سے ہونی چاہیے۔
شام ہوتے ہی والدین نے مجھ سے کہا ۔۔بیٹی، اس دنیا میں غریبوں کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان کا سچ سچ ہوتاہے۔ لوگ بیٹیوں کو ماں کے رحم میں ہی قتل کرتے ہیں کیونکہ وہ بوجھ مانی جاتی ہیں ۔ہم تیرا نہیں اپنا وجود مٹائیں گے ۔میں نہ جانے کہاں کھو گئی تھی ۔مجھے نہ کچھ سنائی دیتا تھا اور نہ ہی کچھ دکھائی دیتا تھا۔مجھے سانپ سونگھ گیا تھا ۔ماں اور باپ نے میری آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دی لیکن مجھے کوئی اثر نہیں ہوا ۔
میں رات بھر کہیں کھوئی رہی اور صبح سویرے گھر سے نکل کر شہر چلی گئی اور برقعہ پہن کر بھیک مانگنی شروع کی ۔دن بھر بھیک مانگنے سے جو پیسے ملتے تھے ان سے مکان کا کرایہ ادا کرتی تھی اور اپنے کھانے پینے کا انتظام بھی ۔
وقت کی سوئی گھومتی رہی۔ میں محنت ومشقت کرتی رہی ۔ ایک دن میں نے تجھے جنم دیا ۔۔جب دائی نے تجھے میری گود میں ڈالا تو میں تجھے غور سے دیکھنے لگی ۔تیری شکل و صورت دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ میں نے لہو کے گھونٹ پئیے لیکن تیری پرورش میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔تجھے تو محبت سے پالا لیکن دل میں ایک چبھن پنپتی رہی۔جب تو اسکول جانے کے قابل ہوا تومیں نے تجھے اسکول میں داخل کیا اور خوب پڑھایا لکھایا تاکہ تو میرا گواہ بن کر مجھے انصاف دلا سکے ۔
عادل نے جب ماں پر ہوئے ظلم و ستم کی کہانی سنی تو وہ پل بھر کے لئے بےخود ہوگیا ۔تھوڑی دیر بعد جب اس نے ہوش سنبھالا تو ماں کو دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔میں سمجھ گیا ماں مجھے تمہاری ہتک عزت کا حساب لینا ہے مجرم کو بےنقاب کرنا ہے اور اپنی پہچان کی جنگ لڑنی ہے ۔
عادل نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش شروع کی ۔وہ قانون کی باریکیوں اور داؤ پیچ کو سنجیدگی سے سمجھنے لگا ۔اس دوران اس کے من میں کچھ شبہات پنپتے رہے ۔ماں کی باتوں کو ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اس کے پاس ٹھوس ثبوت ہوں ۔شکل و صورت ملنا محض ایک اتفاق بھی تصور کیا جاتا۔ اس کا ایک دوست ڈاکٹر تھا جس کی مدد سے اس نے کئی بھید افشا کئے۔
اس کے حوصلے بلند ہوتے گئے ۔ ڈگری حاصل ہوگئی ۔جب قانونی داؤ پیچوں اور کمزور کڑیوں پر دسترس حاصل ہوگئی تو عادل نے ماں سے کہا ۔۔ماں اب تم عدالت میں بیس سال پہلے ہوئے ظلم و ستم کا حساب لینے کے لئے مقدمہ دائر کرسکتی ہو ۔
ادھر کیس دائر ہوا ۔ادھر گاؤں کے سرپنچ کا بڑا بیٹا شمشیر اپنے باپ کی جگہ الیکشن لڑنے جارہا تھا۔ گائوں والے اس کی ایمانداری کے گیت گارہے تھے ۔آس پاس کے گاؤں میں بھی اس کی دیانتدارای کے چرچے تھے ۔سرکاری اداروں میں بھی اس کی اچھی خاصی قدر و منزلت تھی ۔اسی اثنا میں عدالت نے ایک چپڑاسی کے ہاتھوں اس کو سمن بھیجا ۔سمن میں لکھا تھا ۔۔خالدہ عرف بیوٹی نے آپ کے خلاف دعویٰ کیا ہے ۔اس ضمن میں آپ اپنے دفاع کے لیے کورٹ میں حاضر ہوں ۔
سمن کو پڑھتے ہی شمشیر کے طور بے طور ہوگئے ۔اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔سمن کی وجہ سے اس کا بھید طشت از بام ہوگیا ۔اس نے سمن پر دستخط کئے اور سوچنے لگا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بیس سال پہلے کی بات آج سامنے آگئی ۔ نہ کوئی ثبوت اور نہ ہی کوئی گواہ ۔
ایک مشہور و معروف وکیل سے بات کرنے کے بعد شمشیر عدالت میں حاضر ہوگیا۔ عدالت کی کاروائی شروع ہوئی تو بڑے وکیل صاحب نے کہا ،
جج صاحب مجھے اس بات پر ہنسی آرہی ہے کہ کیسے کیسے کیس اب عدالت میں درج ہوتے ہیں ۔کیا عدالت کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ فضول اور جھوٹے مقدموں پر سنوائی کرے ۔یہ کیس تو محض ایک الزام ہی نہیں بلکہ ایک عزت دار‌ اور شریف النفس انسان کی عزت پر حملہ ہے۔یہ لوگ چاند پر تھوکنے کی سعی کر رہے ہیں۔بیس سال پہلے کا واقعہ اگر سچ بھی ہوتا تو اس کو ثابت کیسے کریں گے ۔کیا اس کا کوئی ثبوت یا گواہ ہے ۔
پاس میں بیٹھے عادل نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔ظاہر رحمان کا اور باطن شیطان کا ۔۔۔جناب ثبوت میں ہوں ۔
بڑے وکیل نے جب اپنے فاضل دوست کو دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے ۔وہ ہکلانے لگا ۔۔ج ج ج ج جناب
کیوں ہوش اُڑ گئے نا ۔۔۔یہ شکل و صورت کی مماثلت کیا بتاتی ہے ۔۔عادل نے بحث کو بڑھاتے ہوئے کہا
بڑے وکیل نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا ۔۔جناب شکل وصورت کا ملنا محض ایک اتفاق ہے ۔دنیا میں سات انسان ایک ہی شکل کے ہوتے ہیں۔
عادل نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔جناب ہماری صرف شکلیں ہی نہیں بلکہ جینز اور بلڈ گروپ بھی ملتے ہیں ۔
اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ خود ہم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ۔
جج صاحب نے بڑے وکیل سے پوچھا ۔۔آپ کی رائے کیا ہے۔
بڑے وکیل نے مجبوراً ہاں میں ہاں ملائی ۔
عدالت نے فوراً ٹیسٹ کرنے کا حکم سنا کر کاروائی ملتوی کردی ۔
چند دنوں کے بعد جب رپورٹ سامنے آئی تو سب ہکا بکا ہوگئے ۔رپورٹ سے صاف ظاہر تھا کہ عادل شمشیرکا بیٹا تھا ۔
جج صاحب نے جب بڑے وکیل سے پوچھا کہ اب کیا کریں گے ۔تو اس نے نرم لہجے میں دونوں کی شادی کرنے کا مشورہ دیا تاکہ بیوٹی بھی آباد ہو اور عادل کو بھی باپ کی پراپرٹی ملے ۔لیکن عادل نے اعتراض جتاتے ہوئے کہا ۔
جناب میرے فاضل دوست یہ بھول گئے کہ ان کے مؤکل نے گھناؤنا جرم کیا ہے ۔وہ بھی ایسا جرم جس کی کوئی معافی نہیں ۔ان کے مؤکل کی وجہ سے دو غریبوں کی موت بھی واقع ہوئی اور ایک خاندان برباد ہوگیا ۔لہٰذا‌ میں کوٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔اس عورت کو انصاف چاہیے معاوضہ نہیں ۔
عدالت میں خاموشی چھاگئی ۔جج صاحب عادل کی باتوں سے مطمئن ہوئے ۔
عادل نے خاموشی کے ماحول کو توڑتے ہوئے پھر کہا ۔۔جناب بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کہانی کا دوسرا پہلو سنے بغیر آپ فیصلہ نہیں سنا سکتے۔
جج صاحب اور مخالف وکیل نے حیرانی سے پوچھا ۔۔کونسا پہلو ؟
جناب میرا پہلو ۔۔میں اس دنیا میں اس عورت کی مرضی سے نہیں آیا اور نہ میں نے یہ زندگی خود چنی ہے ۔لوگ مجھ جیسے بچے کا حمل گرا کر قتل ناحق کردیتے ہیں یا جنم لینے کے بعد گلا گھونٹ کر یا کسی گندی نالی میں پھینک دیتے ہیں ۔میں اس ماں کی ہمت کو داد دیتا ہوں جس نے مجھ جیسے ان چاہیے بچے کو زندگی بخشی اور اس منزل تک پہنچایا ۔
لیکن جج صاحب یہ سماج مجھے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے ۔میں اس غلطی کی سزا بھگت رہا ہوں جو میں نے نہیں بلکہ اس آستین کے سانپ نے کی ۔لوگ مجھے ہتک آمیز نام سے پکار رہے ہیں ۔
جج صاحب نے پوچھا ۔۔۔ ۔۔آپ کو کیا چاہیے ؟
عادل نے کہا ، مجھے حرج عزت چاہیے
عادل نے شمشیر کی طرف اشارہ کرکے کہا ۔۔۔مجھے اس شخص کی موت چاہیے تاکہ دنیا کو عبرت ملے اور ایسی حرکتوں پر قدغن بھی ۔

���
قصبہ کھل کولگام ،موبائل نمبر؛9906598163