آغوش افسانہ

filter: 0; fileterIntensity: 0.0; filterMask: 0; module:31facing:0; hw-remosaic: 0; touch: (-1.0, -1.0); modeInfo: Beauty Bokeh ; sceneMode: Night; cct_value: 5882; AI_Scene: (-1, -1); aec_lux: 71.078064; hist255: 0.0; hist252~255: 0.0; hist0~15: 0.0;

سبزار احمد بٹ

رینو اپنے دوست سریندر اور راہل کے ساتھ کئی دنوں سے وادی کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کر رہا تھا. دو تین دنوں سے لگاتار دریائے جہلم سے گزرنا ہوا تو دریا کے ارد گرد ایک خاتون کو مسلسل دیکھ کر حیرت ہوئی کہ آخر یہ عورت دریائے جہلم کے کنارے پر کیوں بیٹھی ہے۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ غور سے دیکھا اور راہل سے کہنے لگا۔۔۔
راہل میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں یہ عورت اس دریا کے کنارے پر ہوتی ہے ۔ یہ یہاں کیا کر رہی ہے ۔ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کیا؟
چلو اس کے پاس جا کر دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کر رہی ہے اور کون ہے ۔ تینوں دوست گاڑی سے اترے اور اس عورت کے پاس گئے ۔
میلے کچیلے ہاتھ ، پھٹے پرانے کپڑے، بکھرے بال، منہ سے رال ٹپک رہی تھی ۔ گود میں ایک بستہ تھا ۔ دھیمی آواز میں کچھ کہے جا رہی تھی ۔ صاف سنائی بھی نہیں دے رہا تھا ۔ گلہ سوکھ گیا تھا۔شاید کئی دنوں کی بھوکی تھی۔ رینو اس عورت کے بہت قریب گیا ، جو اپنے آپ سے کہہ رہی تھی۔۔۔
مجھے اپنی امانت جب تک نہیں ملے گی یہاں سے نہیں جاؤں گی۔۔۔
۔مجھے اپنی امانت جب تک نہیں ملے گی، یہاں سے نہیں جاؤں گی۔
ماں جی ماں جی!!!!!!!!!!!!
رینو نے کئی بار پکارا لیکن اس خاتون نے کوئی جواب نہیں دیا ، جیسے اپنے گردونواح سے بے خبر ہو۔
راہل نے گاڑی سے بوتل نکالی اس عورت کو پلانے کی کوشش کی ۔
ماں جی آپ کا گلہ سوکھ گیا، پانی پی لیجیے۔
لیکن بزرگ خاتون نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا اور اپنے آپ سے کہنے لگی۔۔۔
ہم انسان تو خائن ہیں ہی ہم ایک دوسرے کی امانت میں خیانت کرتے ہیں لیکن تم کب سے خیانت کرنے لگے ۔ ہاہاہا ہاہاہا
تمہیں اپنی روانی پر ناز ہے لیکن تم بے ایمان ہو ۔تمہیں تو چُلّو پر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے ۔ میں یہاں سے نکلنے والی نہیں ہوں جب تک نہ اپنی امانت لے لوں ۔
یہ کہتے ہوئے اس عورت نے راہل کے ہاتھ سے پانی کی بوتل چھین کر دریا میں پھینک دی ۔ اپنا بستہ اٹھایا اور ہنستے ہوئے دریا کے کنارے کنارے دور چلی گئی ۔رینو، سرندر اور راہل ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے ۔اس کی حالت دیکھ کر تینوں کی آنکھیں نم ہوئیں تینوں ایک جگہ بیٹھ گئے اور اداس ہو گئے۔اتنے میں ایک بزرگ انسان وہاں سے گزرا جو پہناوئے سے لگ رہا تھا کہ کوئی مقامی باشندہ ہے ۔ رینو نے اس سے پوچھا
بابا یہ عورت کون ہے کیا آپ اس کو جانتے ہیں ۔
بیٹا کیا کرو گے جان کر۔ لمبی داستان ہے ۔ تم اس کی روداد سنو گے تو رو پڑو گے ۔
نہیں بابا ۔ میری ماں کی شکل اس سے ملتی جلتی ہے اسے دیکھ کر مجھے میری ماں یاد آگئی ۔ یہ کہتے ہوئے رینو رو پڑا اور بزرگ سے منتیں کرنے لگا کہ اس عورت کے بارے میں اسے بتائے کہ یہ عورت کون ہے اور اس کی یہ حالت۔۔۔
بیٹا یہ ایک گاوں کی لڑکی تھی جس کی شادی شہر میں ایک نیک انسان سے ہوئی تھی جو پیشے سے ایک تاجر تھے ۔ دونوں نہایت نیک اور شریف النفس انسان تھے ۔ پندرہ سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے لیکن کبھی بھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا ۔ دعائیں کرتے تھے لیکن ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لاتے تھے ۔ محلے کے سبھی لوگ ان کی تعریفیں کرتے تھے ۔پندرہ سال بعد اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا ۔ ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا ۔ ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رحمت کے سارے دروازے کھول دیئے ہوں۔ بیٹا بھی بالکل اپنے ماں باپ پر گیا تھا ۔ نہایت حسین اور بہت ہی شریف بچہ تھا ۔ ہر آنے جانے والے کو سلام کیا کرتا تھا۔ سب لوگ اس کی تعریفیں کرتے تھے ۔ بچہ اب سکول بھی جانے لگا تھا اسکول جانے کے لیے دریائے جہلم کو پار کرنا ہوتا تھا ۔ ہر روز ماں دریا کے کنارے تک آکر اسے ناؤ میں سوار کر کے چلی جاتی تھی ۔ ایک دن بھی اگر کسی وجہ سے اسکول نہیں جاتا تھا تو اساتدہ اس بچے کے بارے میں پوچھتے تھے یہاں تک کہ ملاح بھی جب تک عارف کو ناؤ میں نہیں دیکھتا تھا تب تک نکلنے کو من ہی نہیں کر رتا تھا ۔
ہاے اس دن بھی موسلا دار بارشیں ہو رہی تھیں ۔ جب عارف نے ماں سے کہا
ماں آج اسکول نہیں جاؤں گا ۔
نہیں بیٹا تمہیں اپنے باپ کی طرح علم حاصل کر کے ایک اچھا انسان بننا ہے اور تمہیں خود بھی علم سیکھنا ہے اور دوسروں کو بھی سکھانا ہے ۔ چلو میں آپ کو ناؤ تک چھوڑ آتی ہوں ۔عارف نے کافی ضد کی لیکن ماں نے نہیں مانا۔ اس نے بیٹے کا بستہ اٹھایا اور بیٹے کو ساتھ لے کر دریا کے کنارے تک لے آئی ۔ ماتھا چوم کر ناؤ میں سوار کیا ۔
ابھی دو قدم بھی نہیں چلی تھی کہ پیچھے سے چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں ۔ مڑ کر دیکھا تو ناؤ حادثے کا شکار ہو چکی تھی، ہاے بچے تنکوں کی طرح پورے دریا میں پھیل گئے تھے۔ ان کے چلانے سے قیامت صغریٰ بپا ہو گئی تھی ۔ دیکھتے دیکھتے بچے دریا کی آغوش میں چلے گئے کسی کی ٹائی نظر آرہی تھی تو کسی کا بستہ تیر رہا تھا ۔ کوئی ہاتھ ہلا کر مدد مانگ رہا تھا تو کوئی چلا رہا تھا ۔چلانے کی آوازیں دھیرے دھیرے مدھم ہونے لگیں ۔ چند منٹوں میں بہت سارے لوگ دریا کے کنارے جمع ہو گئے۔
لیکن افسوس چند ایک کو چھوڑ کر سبھی بچے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ مائیں کنارے پر سینہ کوبی کر رہی تھیں ۔ جگر چھلنی کرنے والے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے ۔ ہر اک انسان بے بس اور لاچار نظر آرہا تھا ۔ یہ خاتون بھی اپنے اس لخت جگر کو دور تک تکتی رہی ۔ ہائے دیکھتے ہی دیکھتے عارف کو دریا کی لہروں نے دبوچ لیا ۔ پوری وادی میں قیامت کا سا سماں تھا ۔ہر طرف سے رونے اور چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی ۔ معصوم بچوں کی لاشوں کو دریا سے نکالا گیا اور پر نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا ۔ لیکن افسوس عارف کی لاش نہ مل سکی ۔ اتنا حسین تھا کہ شاید دریا نے بھی اس کی لاش واپس کرنا گوارا نہیں کیا ۔ عارف کا صرف بستہ مل سکا۔
بس پھر کیا تھا ۔ بیٹے کا بستہ دیکھتے ہی شہناز کا دماغی توازن کھو گیا۔ تب سے اب تک بس بستہ گود میں لے کر اسی دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہے ۔ اسے اب کچھ یاد نہیں ہے ۔ فقط اپنے بیٹے عارف کا نام نہیں بھولی ہے ۔ وقت بھی دریائے جہلم کی روانی کی طرح آگے بڑھتا گیا ۔ شاید یہ دریا بھی اس حادثے کو بھول گیا ہوگا لیکن شہناز اپنے بیٹے کا بستہ لے کر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ۔بس دریا سے منتیں کرتی ہیں کہ اسے اس کا بیٹا مل جائے ۔………..
یہ درد بھری کہانی سن کر تینوں دوستوں کی آنکھیں نم ہوئیں، کلیجہ منہ کو آگیا۔ ابھی آنسو پونچھ ہی رہے تھے کہ دریا کے اس طرف شور سنائی دیا ۔ سب دریا کی طرف دوڑ پڑے ۔ اتنے میں رینو نے کسی شخص سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ تو اس نے کہا ۔
ایک عورت اپنی آغوش میں اپنے بیٹے کا بستہ لئے دریائے جہلم کے کنارے کنارے جا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے بستہ پھسل گیا وہ بستے کو بچانے لگی تھی کہ خود بھی جہلم کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سما گئی۔

���
اویل نورآباد ، کولگام