چالاک مُصور افسانچہ

طارق علی میر

شام ڈھلتےہی آسمان پر سیاہ ابر پاروں کی اوٹ سے سُرخیٔ شفق نمودار ہوئی تو ایسا لگا کہ دھرتی کا غبارِ خون کالے بادلوں کے پیچھے چھُپنے کے لئے چھٹپٹا رہا ہو۔
اِدھر نیچے پُرانی حویلی کے دیوان خانے کا آئینہ خود سے ہی ناراض معلوم ہوا۔ حویلی کے اس قدِ آدم آئینے نے برسوں سے کسی وجود کو منعکس نہیں کیا تھا۔ اس پر پڑی بے ترتیب دراڑیں گویا سوال کر رہی ہوں؟ ’’نہیں، نہیں ! یہ کسی بدصورت کے عکس کا نتیجہ نہیں ہوسکتیں۔ برسوں سے کسی نے خود کو مُجھ میں نہیں دیکھا، کیا ایسا ہے، کیا اسی لئے یہ گہری ، ہلکی دراڑیں ہیں؟ ‘‘
ان سوالوں کا جواب ٹٹولے بغیر توجہ اُس دربان کی طرف گئی جسے حاکمِ وقت نے اسی ٹوٹے آئینے کی حفاظت کے لئے حویلی
کے برآمدے پر تعینات کیا تھا۔ پاس کے جنگلوں سے آئے کبوتروں کے ایک جھُنڈ نے چھت کے خاموش حاشیوں پر سکونت اختیار کرلی تھی۔
حویلی میں دیکھنے کو ایک آئینہ ہے اور سُننے کو کبوتروں کی دل آویز غٹرگوں غٹر گوں۔
آئینے کو دیکھئیے تو امتدادِ زمانہ کا عینی گواہ لگتا ہے، جس کے سینے پر دراڑیں نہیں عروج و زوال کی تحریریں ہیں۔ یہ کہانیاں کہیں زمانے کے کانوں تک نہ پہنچیں ، شائد اسی لئے دربان کی ڈیوٹی لگ چکی ہے۔
اور غُٹرگوں غٹرگوں کرکے اللہ ہُو، اللہ ہُو کہتے کبوتروں کی آواز سُنئیے تو لگتا ہے کہ جنگل اپنی تمام تر حیوانیت کے ساتھ شہر میں در آیا ہو، اور کبوتروں کی تذکیر کسی بڑی آفت کا قدرتی وارننگ سسٹم ہو۔
سال میں ایک مرتبہ یہ خوفناک سکوت ٹوٹ جاتا ہے جب یہاں میلہ لگتا ہے۔ غمِ روزگار کی تگ و دو سے کچھ لمحے چُرانے کے لئے یہاں سیاح بھی آتے ہیں۔ وہ اپنی سیلفی ٹُویٹ کرتے ہیں: ’’یہ ہم ہیں، یہ ہماری حویلی ہے ، اور یہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔‘‘
برسوں بعد پھر سے سیاح میلے پر آئے تو حویلی کے دیوان خانے کا آئینہ کچھ الگ رنگ ڈھنگ لئے تھا۔ اس پر ایک بوڑھی عورت کا چہرہ پینٹ کیا گیا تھا اور مصوّر کا کمالِ فن کہ اُس نے آئینے کی دراڑوں کو بوڑھی عورت کی جھُریوں پر محمول کرکے لاجواب شاہکار تیار کیا تھا۔
کبھی لگتا کہ چہرہ ٹوٹ گیا ہے اور کبھی لگتا کہ چہرے کی جُھریاں ہیں۔ جلدبازی میں جو مطلب جس کے حصے آتا وہی لے کر نکل جاتا تھا۔
ایسے ہی ایک سالانہ میلے پر یوں ہوا کہ ایک عمررسیدہ شخص آئینے کو گھنٹوں تکتا رہا، آہیں بھرتا رہا۔ کبھی اپنے ماتھے سے پسینے کی بوندیں پونچھ لیتا، اور کبھی آئینے پر پینٹ کی گئی جُھریوں والی تصویر کو سہلاتا۔ اس کے ذہن میں سوالات تھے لیکن الفاظ کبوتروں کی غٹرگوں سے ترتیب نہیں پارہے تھے۔ آئینہ، دراڑیں، جُھریاں، غٹرگوں غٹرگوں، مستقبل، بکھراوٴ، غٹرگوں ، غٹرگوں، اللہ ہُو، اللہ ہوُ۔
کافی جدوجہد کے بعد وہ خود سے پوچھنے لگا۔ کبھی کسی حاکم نے آئینے سے رنگ اُتارنے کا حکم دیا تو کیا ہوگا؟ یا بارش کے پانی نے رنگ اُتار دیا تو کیا ہوگا؟ دراڑوں کی حقیقت مستقبل کی آنکھوں نے دیکھ لی تو کیا ہوگا؟
بدصورت چہرہ، چالاک مصّور، ماضی کی آنکھیں ! اِن سب کا کیا ہوگا؟
���
ڈورو، شاہ آباد، اننت ناگ، موبائل نمبر؛7006452955