کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال :میں ایک مسجدشریف میں امام ہوں،خود حافظ بھی ہوں اور قاری بھی مگر چونکہ عالم ومفتی نہیں ہوں۔اس لئے جب مجھے یا میرے کسی مقتدی کو کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اور کسی عالم یا مفتی سے میں مسئلہ پوچھتا ہوںمگر افسوس کہ بعض دفعہ جواب دینے والا غلط جواب دیتا ہے اور یہ اُس وقت معلوم ہوتا جب وہی مسئلہ کسی کتاب میں ہوتا ہے یا وہی مسئلہ جب کسی دوسرے بڑے مفتی سے پوچھا جاتا ہے تو پہلے جواب دینے والے سے مختلف جواب ہوتا ہے۔مثلاً کچھ دنوں پہلے ایک صاحب، جو اپنے آپ کو عالم باور کراتے ہیں، نے کہا کہ سَر کے بال مونڈھنا اسلام میں ناجائز ہے اور یہ اجازت صرف حج یا عمرہ میں ہے کہ سَر کے بال مونڈھ دیئے جائیں۔اس کے علاوہ شریعت میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے،پھر جب یہ مسئلہ کتابوں میں دیکھا تو وہاںلکھا تھا کہ کہ سَر کے سارے بال مونڈھ دینا جائز ہے اور پھرکئی دوسرے مفتی حضرات سے بھی یہی معلوم ہوا۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ غلط مسئلہ بتانے والے کے لئے کیا حکم ہے اور اگر کسی شخص کو مسئلہ کا جواب معلوم نہ ہو تو پھر جواب دینے والے کو کیا کہنا چاہئے۔
قاری حافظ محمد اسلم۔ اما م مسجد شریف بال گارڈن سرینگر

جواب :جب کسی شخص کو مسئلہ پوچھنے کا ارادہ ہو تو پہلے یہ معلوم کرنا لازم ہے کہ جس شخص سےمسئلہ پوچھنے کا ارادہ ہے ،وہ معتبر، مستند اور مسلکِ حق کا متدین عالم یا مفتی ہے یا نہیں۔یہ بات معلوم کرنے کے بعد ہی اُس سے مسئلہ شرعی معلوم کرنا چاہئے۔پھر اُس شخص جس سے مسئلہ پوچھا جارہا ہے کے لئے لازم ہے کہ اگر اُسے مسئلہ کا صحیح جواب معلوم نہ ہو تو وہ کہے کہ میں تحقیق کرکے بتائوں گایا صاف صاف بتادے کہ مجھے یہ مسئلہ معلوم نہیں۔ اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنا عیب نہیں بلکہ خوبی ہے۔یا یہ کہے کہ مجھے مسئلہ یاد نہیں یا پڑھا نہیں،یا یہ کہے کہ ذہن میں نہیںاور ساتھ ہی کہ دوسرے کسی مستند عالم سے رجوع کرنے کی تجویز دے۔دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ہر عالم ،ہر مفتی ہر مسئلہ جانتا ہو۔مسئلہ بیان کرنا یعنی کسی چیز کے متعلق جائز اور ناجائز ہونے کا حکم سنانا ،حکمِ شرعی بیان کرنا ہےاور حکمِ شرعی بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُسے اِس کا صحیح علم ہو۔اگر صحیح جواب بیان کیا تو بہت اجر اور اگر غلط مسئلہ بیان کیا تو اس کا سارا گناہ غلط جواب دینے والے کے سَر ہوگا۔سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ جو شخص ایسا فتویٰ دے جو درست نہ ہو تو اس کا گناہ اُسی پر ہوگاجس نے فتویٰ دیا۔یعنی جس نے غلط مسئلہ بتایا اور دوسرے نے اس پر عمل کیا تو اس غلط مسئلہ پر عمل کرنے کا گناہ اسی مسئلہ بتانے والے پر ہوگا۔ایک دوسری حدیث میں ہے : جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی جائے جو میں نے نہ کہی ہو ،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھےاور جس نے بغیر علم کے کسی مسئلہ کے متعلق فتویٰ دیااس کا گناہ اُسی پر ہوگا۔(مسند احمد)

اسی لئے حضرات صحابہ،فقہاء اور ائمہ مجتہدین اس سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں۔وہ یہ کوشش کرتے تھے کہ مسئلہ کا جواب کسی دوسرے برتر شخص سے دلوائیں۔عبدالرحمٰن ابن ابی یسلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے سو سے زیادہ انصار صحابہ کو دیکھا کہ اُن سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ کسی دوسرے کے پاس بھیج دیتے۔وہ کسی تیسرے کے پاس ،وہ کسی چوتھے کے پاس ،یہاں کہ وہ واپس پہلے شخص تک پہنچ جاتا ۔امام مالکؒ سے ایک مجلس میں چالیس سوالات پوچھے گئے ،تیس سوالات کے متعلق آپ نے فرما کہ مجھے معلوم نہیں۔صرف دس سوالوں کا جواب دیا ۔اس لئے سوال کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ پہلے یہ دیکھ لےکہ جس سے پوچھا جارہا ہے وہ اُس لائق ہے کہ وہ صحیح جواب دے سکے۔اور جواب دینے والے پر لازم ہے کہ وہ اُس وقت تک جواب نہ دے جب تک اُسے مسئلہ کے صحیح جواب کا یقین نہ ہو۔بہت سارے لوگ شرعی حکم کےنا م پر اپنا خیال پر ظاہر کرتے ہیں ،یہ بھی نہایت خطرناک جرأت ہے۔مثلاً کسی شخص سے پوچھا گیا کہ کیا سَر کے سارے بال مونڈھ دینا جائز ہے ۔اُس نے کہا جائز نہیں۔صرف حج یا عمرہ میں یہ جائز ہے۔اب اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ وہ یہ کہہ د یتاہےکہ دنیا میں جہاں بھی جو بھی مسلمان سَر کے سارے بال مونڈھ دیتا ہے وہ خلافِ شریعت کام کررہا ہےلہٰذا وہ گنہہ گار ہے۔حالانکہ شریعت کی کسی بھی کتاب میں یہ نہیں ہے ،نہ حدیث میںاورنہ فقہ میں ۔یہ اُس کا خود کا خیال ہےاور باطل خیال ہے ۔اپنے باطل خیال کو وہ شریعت کے نام پر ظاہر کررہا ہے۔خلاصہ یہ کہ مسئلہ بتانے والے کو بہت محتاط ہونا ضروری ہے اور مسئلہ پوچھنے والے کو صحیح انتخاب کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال ۱:۔ مدرسوں میں کبھی کبھار طالبِ علم کسی خاص مجبوری کی وجہ سےست واپس گھر آنے میں لیٹ ہوجاتے ہیں۔انتظامیہ ہر یوم کا ایک ہزار روپیہ جُرمانہ وصول کرتی ہے۔طالب علم اکثر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیںاور کئی طلباء تعلیم چھوڑنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔کیا یہ عمل درست ہے۔مزید یہ کہ اس رقم کا استعمال کس مد میں کرسکتے ہیں۔
سوال: ۲۔آج کل مدرسوں میں دستار بندی کے موقعے پر جن طلباء کی دستار بندی کی جاتی ہے ،انہیں پھولوں اور پیسوںکے ہار ڈالتے ہیں اور یہ رواج بنتا جارہا ہے ۔کیا یہ عمل درست ہے؟

مولوی جاوید احمد رحیمی۔عسر ضلع ڈوڈہ (جموں)
دینی مدارس میں مُصرفانہ رسوم سے اجتناب کی ضرورت
جواب۱:۔ جُرمانہ کی یہ رقم وصول کرنا سراسر ناجائز ہے۔ جو منتظم بھی یہ جُرم کرتا ہے کہ مدرسہ تاخیر سےپہنچنے پر طالب علم سے جُرمانہ کے نام رقم وصول کرتے ہیں وہ شرعی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ رقم لینا حرام ہے اور اپنے اوپر یا مدرسہ میں یہ رقم خرچ کرنا بھی حرام ہے اور اس طرح جُرمانہ کے نام پر رقم کی وصولی مدارس ِ اسلامیہ کے اصولوں و ضوابط کے بھی خلاف ہے۔جو رقم اس نام پر وصول کرتے ہیں ،وہ اصول شرع کے خلاف ہونے کی وجہ سے واجب الرد ہے،یعنی یہ رقم جس سے لی گئی ،اُس کو واپس کرنا ضروری ہے،چاہے وہ طالب علم مدرسہ میں موجود ہو یا مدرسہ میں موجود نہ ہو۔اور جن جن طلباء سے جُرمانہ وصول کیا وہ واپس کرنا لازم ہے۔
جواب ۲:۔ مدارس ِ اسلامیہ میں دینی جلسوں میں حافظ یا عالم کی جو دستار بندی ہوتی ہے ،اُس میں مبالغہ آرائی ،حدود سے تجاوز کرنا ،غلو کرنا اور بچوں کے گلے میں پھولوں یا روپے کا ہار ڈالنا ایک غلط رسم ہے۔یہ خود شریعت کے اصول سے تجاوز ہے اور مدارس ِ اسلامیہ کے تعامل کے خلاف ہے۔بہر حال مدارس کےذمہ داران کو جلسہ ٔ دستار بندی میں اس ہار ڈالنے یا پھول برسانے یا روپیہ نچھاور کرنے کی نمائشی اور مُصرفانہ رسم سے اجتناب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ۔زوال کیا ہوتا ہے؟ کتنے اوقات کو زوال کہا جاتا ہے۔ان اوقات میں کون کون سے اعمال کرنا چاہئیں۔جمعہ کے دن زوال کب ہوتا ہے۔اس وقت کون کون سا عمل جائز ہے ۔تفصیل سے فرمایئے۔
۔۔۔ شکیل احمد خان۔زینہ گیر

زوال سے پہلے اذان اور سنتوں کی ادائیگی غیر درست
جواب :شریعت میں تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔طلوع آفتاب،زوال آفتاب اور غروبِ آفتاب۔ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت احادیث سے ثابت ہے۔ان اوقات میں نماز ِ جنازہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہےاور سجدۂ تلاوت بھی نہیں کرسکتے۔ہاں تلاوت ،تسبیح ،اوراد ،ذِکر اور دعا کرنا درست ہے۔یہاں کشمیر میں غلط العوام کی بنا پر تینوں اوقات کو زوال کہہ دیا جاتا ہےحالانکہ زوال صرف دوپہر کو ہوتا ہے۔یعنی سورج کے بلندی کے آخری سرے پر پہنچ کر ڈھلنے کے آغاز کو زوال کہتے ہیں۔دراصل یہ تین اوقات ،نماز کے لئے ممنوع اوقات ہیں۔جیسے ہر دن دوپہر کو زوال ہوتا ہےایسے ہی جمعہ کو زوال ہوتا ہے۔ہر دن طلوع و غروب ہوتا ہےلہٰذاجمعہ کے دن بھی ہوتا تو جیسے ہر دن دوپہر کو زوال کے بعد نماز ِ ظہر کی اذان اور نمازظہر ادا کرنی ہوتی ہے، ایسے ہی جمعہ کے دن بھی زوال کے بعد اذا ن جمعہ اور پھر سنتیں ،خطبہ اور جماعت ہونی چاہئے۔
جن مساجدمیں وقتِ زوال سے پہلے جمعہ کی اذان ہوتی ہے اور پھر سنتیں پڑھی جاتی ہیں ،نہ وہ اذان ادا ہوتی ہے اور نہ وہ سنتیں ادا ہوتی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے غروب آفتاب سے پہلے اذان ِمغرب پڑھی جائےکہ وہ ادا نہ ہوگی۔شریعت کا اصول یہ ہے ،ہر وہ اذان جو وقت سے پہلے پڑھی جائے اس کا اعادہ لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : نماز جنازہ پڑھتے ہوئے یہ سوال درپیش رہتا ہے کہ کیا جوتا پہن کر جنازہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔بہت سارے حضرات جوتا پہن کرہی پڑھتے ہیں اور کبھی کچھ حضرات اس پر اعتراض بھی کرتے ہیں۔بعض جنازہ گاہ میں جوتا نکال کر جنازہ پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔مثلاً زمین گیلی ہو،کیچڑ، بارش یا برف ہو توننگے پائوں زمین پر رکھنے مشکل ہوتے ہیں۔اس صورت حال میں شرعی احکام کیا ہیں؟
۔۔۔۔۔۔محمد طاہر خان۔سرینگر
جوتا پہن کر نماز ِ جنازہ کی ادائیگی ، اہم توضیح
جواب :نماز جنازہ جوتا پہن کر پڑھنے کے متعلق صورت حال ایک نہیںہے۔جو مختلف صورتیں ہیں،وہ درج ذیل ہیں:
(۱) نماز جنازہ پڑھنے والے کو یقین ہے کہ اُس کا جوتا مکمل طور پر اوپر نیچے سے پاک ہے۔اس صورت میں جوتا پہن کر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔
بخاری میں’’الصلوٰۃ فی النعال‘‘کے عنوان ہیں،اس سے ثابت ہے کہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے میں مضائقہ نہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ نماِ جنازہ ز پڑھنے والے کو یقین ہے کہ اس کا جو تا ناپاک ہے،چاہے یہ جوتا اوپر سے ناپاک ہے یا نیچے سے، اس صورت میں جوتا پہن کر جنازہ پڑھنا درست نہیں ہے۔اگر کسی نے جنازہ پڑھا اور جوتا ناپاک تھا اور جوتے پہنے ہوئے جنازہ پڑھا تواُس کا جنازہ پڑھنا درست نہیں ہوگا۔
تیسری صورت یہ ہے کہ جوتے کا تلوا ناپاک ہو اوپر سے جوتا پاک ہو۔اس صورت میں پائوں سے جوتا نکال کر اُس کے اوپر پائوں رکھ کر جنازہ پڑھا گیا تو جنازہ درست ہوگا ۔اگر جوتا پہنے رکھا اور جنازہ پڑھا تو جنازہ درست نہیں ہے۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ جوتے کے متعلق نہ تو پاک ہونے کا یقین ہواور نہ ناپاک ہونے کا یقین ہو۔اس صورت میں اگر جنازہ جوتا پہن کر جنازہ پڑھا جائے تو جنازہ درست ہوگا۔لیکن اس صورت میں احتیاط اس میں ہے کہ جو تا نکال کر جنازہ پڑھا جائے۔
اگر جنازہ گاہ میں برف ہو ،گیلی زمین ہو ،کیچڑ ہو ،اس صورت میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ جوتا پہن کر ہی جنازہ پڑھا جائے۔اب ہر شخص اپنے متعلق خود فیصلہ کرے کہ اُس کا جوتا پاک ہے یا ناپاک۔اور پھر جوتا پہن کر یا نکال کر جنازہ جنازہ پڑھنے کا فیصلہ کرے۔البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی یہ سمجھ رہا ہو کہ میرا جوتا پاک ہے یا ہر طرح کے جوتے میں جنازہ پڑھنا درست ہےمگر اُس کا جوتا ناپاک تھا تو اُس کا جنازہ پڑھنا درست نہ ہوگا مگر اُسے یہی گمان ہوگا کہ میں نے بھی جنازہ پڑھ لیا۔