کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:اکثر بیماری کی صورت میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو نظر لگ گئی ہے یا اس پر کسی نے سحر کرایا ہے۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی کی نظر لگ جائے،یا کسی پر سحر کیا گیا ہو تو کیا واقعی سحر کے اثرات ہوسکتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو نظر لگنا یا سحر ہونا برحق ہے۔پھر اس کا علاج کیا ہے؟ قرآن و حدیث میں اس کی کیا رہنمائی ہے؟
غلام نبی خان۔بمنہ سرینگر
سحر اور نظرِ بَد کا علاج
جواب: سحر اور نظر لگنا دونوں برحق ہیں۔سحر اور جادو کا تذکرہ تو قرآن کریم میں ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جادو گر سحر کرتے تھےاور میاں بیوی کے درمیان نزاع پیدا کرکے رشتہ ختم کردیتےتھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ خطرناک جادو گروں سے فرعون نے کرایا تھا ،گویا جادو ایک حقیقت ہے جس کا ثبوت قرآن کریم سے ہے۔حضرت نبی کریم علیہ السلام پر ایک یہودی منافق، جس کا نام لبید تھا ،نے جادو کیا تھا۔اس کا اثر ختم کرنے کے لئے سورۂ فلق اور سورہ ناس ،جن کو معوزتین کہا جاتا تھا ،نازل ہوئی تھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت کی اور وہ جادو کے اثرات ختم ہوئے۔
نظرِ بَد لگنا بھی برحق ہے۔حدیث میں ہے ،جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،نظر لگنا حق ہے ۔(بخاری عن ابی ہریرہ)ایک حدیث میں ہے کہ میری امت میں طبعی موت اور اللہ کی قضاسے نظر بد سے بھی موتیں ہوں گی ۔(مسند بزار عن جابر)اگر کسی انسان کو بلاوجہ جسمانی بے قراری ہو،بھوک نہ لگتی ہو،نیند نہ آتی ہو،چڑچڑاپن ہو،بلاوجہ غصہ آتا ہو،جوڑوں میں اکڑن ہو ،سُستی اور کاہلی ہو،کثرت سے نیند اور غنودگی رہتی ہو،بلا کسی وجہ کے غم و رنج رہتا ہو،جسم میں سرسراہٹ رہتی  ہو۔خوامخواہ پریشانی طاری ہوتی ہو ،بار بار پیشاب آتا ہو،دل کی دھرکن تیز ہوتی ہوتو یہ عموماً نظرِ بد کی علامت ہوتی ہے یا یہ کسی جسمانی بیماری کی وجہ سے ہوگا۔دراصل کسی انسان کو جب دوسرے کسی کی کوئی چیز اچھی لگے اور اُس کے دل میں حسد اور جلن پیدا ہوجائے اور پھر حسد کی وجہ سے وہ بار بار اُس شخص کو دیکھے اور اُس خوبی کی وجہ سے اس کے دل میں بُرے جذبات اُبھریں ،جلن ہونے لگے اور وہ سوچے کہ اس کو یہ چیز کیوں ملی ہے تو اِس شخص کی نظرِ بد اُس دوسرے شخص پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہےاور اُس میں وہ علامات شروع ہوجاتی ہیں جو اوپر لکھی گئیں۔جادو اور نظر دونوں کا علاج ہوسکتا ہےاور ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔اس میں شرعی جھاڑ پھونک اور تعویز اور رقیہ بھی ہے ۔قرآن کریم کی آیات میں سے سورہ ٔ  فلق ،سورۂ ناس ،آیت الکرسی اور اس طرح کی وہ آیات ،جو منزل نام کی چھوٹی کتاب میں جمع کی گئی ہیں،اُن کو پڑھ کر جادو یا نظر بَد میں مبتلا شخص پر دَم کیا جائے ،یا وہ شخص خود پڑھ کر پھر اپنے جسم پر دَم کرے اور کھانے پینے کی چیزوں پر دَم کرکے اُن کا استعمال کیا جائے ۔جو عامل شرعی طریقوں کے مطابق جادو ،نظر بد اور جنات کا علاج کرتے ہیں،اُن سے بھی علاج کرایا جائے۔ بیت الخلاء جانے کی دعا اہتمام سے پڑھی جائے۔بلا غسل کے جنابت کی حالت میں نہ رہا جائے۔صبح و شام کی تسبیحات اور اَوراد پڑھی جائیںاور ہر نعمت میں برکت کی دعا پڑھی جائے۔جو چیز اچھی لگے تو زبان سے ماشاء اللہ ،تبارک اللہ پڑھا جائے۔نمازیں ،تلاوت ،تسبیحات ،استعغفار ،صبح و شام کی دعائیں اہتمام سے پڑھی جائیں۔پاک وصاف رہنے کے ساتھ تقویٰ و طہارت کی زندگی اختیار کی جائے۔توہّم پرستی ،بدعات و شرکیات سے پرہیز کیا جائےتو ان بُرے خطرات سے تحفظ کی فوری امید ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- آج کل حرام کمائی اور خرام خوری کا دور دورہ ہے ۔ مزاج اتنا راسخ ہو گیا ہے کہ اب حرام کو اس طرح استعمال کیا جاتاہے جیسے کہ وہ حلال ہے ۔کوئی احساس بھی نہیں ہوتا۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ حرام کی وہ صورتیں جو بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ، کیا ہیں؟تجارت میں کیا کیا چیزیں حرام کمائی کے زمرے میں آتی ہیں ۔
شوکت احمد  …   بمنہ ، سرینگر
تجارت میں حرام کمائی کی صورتیں
جواب:-حرام کمائی کی یوں تو بے شمار صورتیں ہیں لیکن کچھ شکلیں بہت زیادہ رائج ہیں اور ہر شخص ان کو جانتاہے ، سمجھتاہے اور اس کے رائج ہونے سے واقف بھی ہے ۔ان ہی کثیر الوقوع چند شکلوں کو اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے :
(۱لف) جن چیزوں کی تجارت قرآن یا حدیث میں حرام قرار دی گئی ہے مثلاً شراب ،چرس ، بھنگ اور اس قبیل کی دوسری منشیات وغیرہ ، ان کا خریدنا ، بیچنا حرام ہے ۔ ان اشیاء سے جو روپیہ کمایا جائے وہ حرام ہے ۔
اسی طرح مردار جانور کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے اور اُس سے حاصل شدہ رقم حرام کمائی ہے۔ ہاں! مردار جانور کی ہڈیاں خشک کی گئی ہوں یا کھال کو دباغت دیا گیا ہو تو ان دو اشیاء کی قیمت حلال ہوگی ۔ شراب صرف پینا اور پلانا یا خریدنا اور فروخت کرنا ہی حرام نہیں بلکہ شراب کا ٹھیکہ ، شراب کی ایجنسی چلانا ، شراب کی فیکٹری لگانا ،شراب کی فیکٹری میں ملازمت کرنا ،شراب پلانے کی نوکری کرنا ، شراب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔ مثلاً کوئی شخص ٹرک یا لوڈ کیرئر سے شراب دوسری جگہ پہنچائے اور اپنی مزدوری لے کر یہ سوچے کہ میں نہ خود پیتاہوں نہ پلاتاہوں ۔ تو حق یہ ہے کہ یہ سب حرام ہے او ران میں سے ہر شخص کی آمدنی حرام ہے ۔
شراب کی صنعت کو سپلائی کرنے کے لئے مخصوص طور پر انگور یا دوسری کوئی چیز ،جو صرف شراب بنانے ہی کے کام آئے ، کاشت کرنا اور اس کی آمدنی حاصل کرنا ۔ یہ آمدنی بھی حرام کمائی میں آتی ہے ۔مثلاً کشمیر میں کچھ علاقوں میں Hops پھول ، جنہیں کشمیری میں شراب پوست کہتے ہیں ، کی کاشت صرف اسی غرض کے لئے ہوتی ہے۔ یا منشیات بنانے کے لئے کوئی نباتاتی قسم مثلاً خشخاش اور بھنگ یا فکی تو ان اشیاء کی کاشت سے آنے والی آمدنی حرام ہے ۔
شراب یا دیگر منشیات کے بزنس کے لئے جو دستاویز لکھی جائے ۔اس کا لکھنے والا ، گواہ بننے والا اس کام سے جو آمدنی پائے گا ،وہ بھی حرام ہے ۔
(ب) تجارت میں دھوکہ فریب دے کر پیسہ کمانا ہے مثلاً نقلی یا دونمبر کی اشیاء اصلی کہہ کر فروخت کرنا ، تو زائد رقم حرام ہے ۔ اسی طرح خود ملاوٹ کرکے یا ملاوٹ کی چیز لاکر فروخت کرنا حرام ہے اس پر جو نفع ہوگا وہ بھی حرام کی کمائی ہے ۔ سامان عمدہ تھا مگر پرانا ہونے کی وجہ سے خراب ہوچکاہے تو اس عیب دار چیز کو فروخت کرنا اور رقم کمانا حرام ہے ۔ اسی طرح مقرر نرخ سے زائد قیمت لینا یا خریدار کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاکر زیادہ نفع لینا حرام ہے ۔
اسی طرح ناپ تول میں کمی کرکے جو رقم کمائی جائے وہ حرام کمائی میں ہی آتاہے ۔تجارت میں اشیاء ضروریہ مثلاً کھانے پینے اور اس طرح کی ضروریات مثلاً گیس وغیرہ کا ذخیرہ کرنا تاکہ بھائو بڑھا کر پھر من مانی قیمتیں وصول کریں ۔ یہ زائد رقمیں بھی حرام کمائی میں داخل ہیں اس لئے کہ ایسی ذخیرہ اندوزی کرنا اسلامی شریعت میں حرام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنے کے متعلق شریعت کا حکم کیا  ہے ۔ اگرجنازہ کی سلام پھیرنے کے بعد دعا کی جائے اور طریقہ یہ ہو کہ امام دعا کرے اور مقتدی حضرات آمین کہیں ۔ یعنی اجتماعی دعا کی جائے تو کیا اس میں کوئی حرج ہے ۔ کیا حضرت رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرات صحابہ کرامؓ نے اس طرح کبھی دعا فرمائی ہے ۔کیا شریعت کی کتابوں میں اس طرح دعا کرنے کا کوئی ثواب کوئی ثبوت موجود ہے ۔
حاجی اسداللہ …… گاندربل، کشمیر
نمازِ جنازہ کے فوراً بعد اجتماعی دعاکا کوئی ثبوت نہیں
جواب:۔نمازِ جنازہ کی سلام پھیرنے کے بعد میّت کو اُٹھانے سے پہلے کھڑے کھڑے اجتماعی دعا کرنے کا نہ کوئی ثبوت ہے نہ اس پر کوئی اجر ہے ۔حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ شریف میں یہ حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کہ جب تم میت پر جنازہ پڑھو تو اخلاص کے ساتھ اُس کے لئے دعا کرو، یہ حدیث ابودائود میں ہے ۔ اس حدیث کی تشریح میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنازہ کے دوران جودعا پڑھیجاتی ہے اُس میں اُس میت کی نیت کی جائے جن پر جنازہ پڑھا جارہاہے ۔ اگرچہ اُس دعا میں الفاظ عام ہی ہیں ۔اس حدیث میں ہرگز یہ نہیں ہے کہ جنازہ کے بعد میت کے لئے دعا کی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اور حضرات صحابہؓ نے کبھی بھی جنازہ سے فارغ ہوکر کوئی دعا نہیں فرمائی اور آج بھی پورے عالم میں مسلمان اپنے مُردوں پر جنازہ پڑھتے ہیں مگر کبھی بھی جنازہ کے بعد کوئی دعا نہیں کرتے ۔ اب آج یہ نئی بدعت کیوں شروع کی جائے ۔ مشکوٰۃ کی شرح مرقات میں تو یہ بھی لکھاہے کہ جنازہ کے بعد کوئی دعا نہ کی جائے ۔ اس لئے یہ اپنی طرف سے دین میں اضافہ کرناہے ۔اور اپنی طرف سے کسی عمل کا اضافہ وزیادتی بدعت کہلاتی ہے اور بدعات کاپھیلائو اسی طرح ہوتاہے کہ اس کو دین کا عمل کہہ کر شروع کرایا جاتا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہورکتاب ’’خلاصۃ الفتاویٰ ‘‘میں لکھاہے کہ جنازہ کے بعد کھڑے ہوکر ہرگز دعا نہ کی جائے ۔ یہ مکروہ ہے ۔ خود یہاں کشمیر میں جب سے اسلام آیاآج تک جنازہ کے بعد کوئی دعا کہیں نہیں پڑھی گئی اور آج بھی یہاں جب بھی جنازہ پڑھاجاتاہے اس کے بعد کوئی دعا نہیں ہوتی ۔ جب کسی حدیث یافقہ کی کسی کتاب میں جنازہ کے بعد دعا کرنے کا کوئی تذکرہ تک نہیں ہے تو پھر اس کا جواز کیسے ہوسکتاہے اس لئے اگر کہیں جنازہ کی سلام کے بعد کھڑے کھڑے دعا کرنے کا رواج شروع کیا جائے تو یہ دین میں اضافہ اور ایک نئی بدعت کو شروع کرنے کا عمل ہوگااور کوئی عمل چاہے وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بہتر بلکہ عبادت بھی ہو تو بھی وہ اُس وقت بدعت اور غیر شرعی قرار پاتاہے جب وہ کسی عبادت میں اضافی عمل ہو ۔