کائنات کا حقیقی حُسن اور خواتین تلخ و شریں

علی شاہد دلکش

خواتین خالق ِکائنات کی شاہکار تخلیق ہیں۔ کائنات کا حقیقی حسن عورت ہی ہے۔ لہٰذا عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔
اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ مذہب اسلام نے بڑی حکمت عملی سے خواتین کی عظمت و اہمیت اور پردہ پر زور دیا ہے۔ معروف عالم دین اشرف علی تھانوی کے مطابق عورت کے معنی ’’چھپی یا چھپائی ہوئی چیز‘‘ کے ہیں۔ عورت الله رب العزت کی بہت ہی پیاری پیدا کردہ مخلوق ہے۔ ایک مومن عورت بالکل اسی طرح قیمتی ہے جیسے کسی سیپ میں چھپا ہوا انمول موتی۔ سیپ کے باہر مٹی ہو یا پانی صاف ہو یا گندا اس سے موتی کی حیثیت خراب نہیں ہوتی نہ اس پر کوئی آنچ آتی کیونکہ وہ تو الله کے دئیے ہوئے محفوظ پردے میں ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک مومن عورت اگر خود کو انمول سمجھ کر الله کے حکم کی تعمیل کرے تو وہ اس انمول موتی سے بڑھ کر انمول ہو سکتی ہے۔ کائنات میں رنگ و نور خاتون کے وجود سے ہے۔ وسیع کینوس میں خواتین، انسانی تہذیب کی بانی ہیں۔ واضح ہو کہ تہذیب کی ترقی میں خواتین کا رول انتہائی اہم ہے کہ ان کے ہی دم سے معاشرے میں خوبصورتی اور نفاست کا عنصر ِ احساس جا بجا ملتا ہے۔
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت کا وجود مُتَعامِل ہے۔حدیث شریف(مشکاۃ، ص: 280) کے مطابق رحمت اللعالمین کی وصیت ہے کہ عورت تمہاری اوپر کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور بھلائی کا معاملہ اختیار کریں۔ غالباً اسی خاطر خواتین کو صنف نازک بھی گردانا جاتا ہے۔ چشم بینائی سے کام لیں تو آفاق کی اس کارہ گری میں صنف ِ نازک کا کردار ناگزیر اور ناقابل ِ فراموش ہے۔ خلوت سے جلوت تک کی ساری رونقیں حسن ِ زن کے دم سے ہی ہیں۔ ازل سے ہی پوری کائنات میں خوشنمائی کی ابتدا و بقاء نسوانی رنگ پرمبنی ہے۔ شعوری طور پر عورت عزت ہی عزت ہے۔ یہ والدین کے لیے باعث ِ فخر ہے، بھائیوں کے لیے باعث ِ عزت، شوہر کے لیے دنیا کا قیمتی سرمایہ ہے تو اولاد کے لیے عمدہ نمونہ۔ لہٰذا ہر رنگ میں خواتین تحسین ہیئات ہیں۔ عورت کے وجود کے بغیر ایک گھر کیا! پوری کائنات کا رنگ پھیکا پھیکا سا ہے۔
عورتوں کا تذکرۂ عزت و احترام کبھی ماں کی شکل میں، کبھی محبوبہ کی شکل میں تو کبھی عورت کی جفاکشی اور دلیری پر داد و تحسین کی رو سے ۔عورت کی شناخت مرد سے نہیں ہوتی، عورت کا وجود اس کا اپنا ہے۔ خاتون مرد ہی کی جنس سے ہے۔ صنف نازک بیٹی کی شکل میں ہو تو رحمت، ماں کی شکل میں ہو تو برکت اور بشکل بیوی ہمت ہے۔ بلاشبہ لفظ عورت اپنے اندر قدرت کی تمام تر رعنائی، دل کشی اور نزاکت لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو خصائص ِ نرم و نازک عطا کرنرم گفتار اور معصوم بنایا ہے۔ جب مالک ِ دو جہاں نے عورت کی خلقت کو ٹھانی تو فرشتوں نے محبت و ایثار کی مٹی میں جنت کے وفاؤں کے پانی سے خمیر تیار کیا۔ مزید اس میں صبر و برداشت کو ملایا تب جا کر نرم و گداز اور نزاکت سے پرُ پیکر ِ عورت کی ساخت تشکیل ہوئی۔ پھر اللہ نے اس کی روح میں معصومیت اور حساسیت بھر دی۔ اس طرح عورت کا وجود دنیا میں آیا۔ ساتھ ہی اللہ نے عورت کو ماں بنایا اور اس کے قدموں تلے جنت بھی رکھ دی۔ بہن بنایا اور بھائیوں کی عزت و آبرو کی چادر اوڑھائی۔ بیوی بنا کر شوہر کی غم گسار اور شریک حیات بنایا۔ بیٹی بنا کر باپ کا فخر و مان بنایا۔عورت ہر روپ میں محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے، ماں ہے تو پیار بھری گود، ممتا کا احساس، بہن ہے تو الفت بھری نوک جھوک، بیوی ہے تو محبت بھرا ساتھ اور بیٹی ہے تو التفات سے بھرا احساس۔ متذکرہ باتوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے سارے عالم کو خلق کرنے کے بعد اس کی آرائش و زیبائش کے لیے خاتون کی ذات کو بنایا۔ خاتون کی مرہونِ منت دیگر کئی انکشافات و دریافت ہیں۔ دلیل کے طور پر آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ زراعت کی دریافت عورت ہی کی ہے۔ اس نے لکڑی کے ذریعے زمین کھود کر ان میں بیج ڈالے جو پودوں کی شکل میں سامنے آئے۔ خاتون، خدا کا بہترین تحفہ ہے۔ مذہب اسلام نے اسے تحت الثریٰ سے نکالنے کے بعد اعلی مقام عطا کر جنت کا ضامن بنا دیا۔ جبکہ اسلام سے قبل عورت کی حالت ِزار نا قابل ِ بیاں تھی۔ غیر اسلامی تہذیبوں میں خاتون کی بے حد حق تلفی ہوئی۔ رومیوں نے خواتین کو جانور کا مقام دیا۔ یہودی اسے انسان نما حیوان سمجھتے رہے۔ 582ء میں کلیسا نے یہ فتویٰ دیا کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں۔ زمانہئ جاہلیت میں اہل عرب صنف نازک کو زندہ درگور کرتے رہے۔ غیر حسِ تہذیب میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی جلا بھی دیا جاتا تھا تو کبھی بیوہ عورتوں کو ‘ستی کے رواج میں آگ میں پھینکا جاتا تھا۔
ایک زمانے تک ملک عرب برائیوں کی آماجگاہ تھا۔ اسی لیے رب العالمین نے وہاں اپنے حبیب رسولِ اکرم کو بشکل رحمت اللعالمین بناکر بھیجا۔ عرب معاشرے میں متعدد برائیوں میں ایک سطحی برائی عورتوں کے خلاف شدید منافرت بھی تھی۔ گھر میں عورت کے وجود کو مرد اپنی توہین سمجھتا تھا۔ لیکن جب عرب کی سر زمین پر اسلام دھرم کا سورج طلوع ہوا تو اس سے عورت کی تاریک زندگی میں بھی روشنی کی بارش ہونے لگی۔ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیئے جن کا زمانہ ئ جاہلیت میں تصور بھی نا ممکن تھا۔ اسلام نے جنس ِ اناث کی ولادت سے لے کر آخر عمر تک اسے محترم قرار دیا ہے۔ عورت کا فطری تقدس اور اس کی نسوانی حرمت صرف اسلام کے قلعہ میں محفوظ ہے۔ اسلام نے خاتون کو آبگینہ قرار دیا ہے اور اس آبگینہ کی حفاظت کا ہر ممکن معقول ترین انتظام کر رکھا ہے۔ اسلام نے عورت کی حیا اور پاکدامنی کا خیال کرتے ہوئے بیت اللہ میں طواف اور سعی کے درمیان انہیں دوڑنے سے بعید رکھا ہے۔ دین اسلام نے خواتین کی فطرت و نزاکت کا خیال کرتے ہوئے باآواز بلند آذان واقامت اور آمین بالجبر کہنے سے روک رکھا ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو حق ِوراثت عطا فرمایا تاکہ عورت معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی کی دست نگر نہ ہو۔ اس کے علاوہ اسلام نے بہن، بیٹی، خالہ،دادی اور نانی کی حیثیت سے بھی عورت کو حقوق سے نوازا۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ہر حقوق عطا کیا۔ اسلام نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر شرف ِ انسانیت بخشا۔ زیست ِ خواتین میں ماں ہونا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ حسن ِ زن، اس کی نازک صنفی خصائص اور اس کے تئیں اختیار کئے جانے والے مرد اساس سماج کے رویوں مزید دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرنے پر نیز اس کتھا کے مختلف رنگوں کو قرطاسِ زندگی پہ عملی طریق سے بکھیرنے پر ماں کی عظمت کے حوالے سے عورت کی قدر شناسی احسن طریقے سے ہو سکتی ہے۔ نپولین بنا پارٹ نے کہا تھا کہ تم لوگ مجھے بہترین مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دونگا۔’’بظاہر جملہ تو بہت سادہ سا ہے مگر بہت گہری بات کہی۔ جس میں ایک بہترین قوم کا لائحہ عمل بتایا گیا ہے۔ اچھی قوم اچھی ماں سے ہی ممکن ہے۔ جو سماج کی تشکیل میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ کیونکہ اچھا خاندان ملک کے لیے ایک اثاثہ ہوتا ہے۔لہٰذاعورت نسلِ نوکی معمار ہے۔ چونکہ اللہ تعالی بہترین منصف ہے اور وہ اپنے بندوں کے عمل نیز ان کے کرب کی نوعیت کو بھی جانتا ہے۔ لہذا نو ماہ کی کرب و صعوبتوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے والی اپنی نازک مخلوق کے پیروں تلے جنت رکھ دی۔ اس سے عورت کے رتبے اور تقدس میں اضافہ ہوا مزید درجات بلند ہوئے۔ عورت کو رب العزت نے یہ مخصوص مقام دے کر ان کی تکریم میں اضافہ کیا۔نظامِ ِ کائنات کو فاطر ِ کائنات نے اس اصول پر بنایا ہے کہ اس کے تمام اجزاء و عناصر ایک دوسرے کے لئے محتاج اور محتاج الیہ بن گئے۔ ٹھیک اسی اصول پر عورت اور مرد، دونوں مساوی ہیں لیکن دونوں کے عمل اور حدود الگ الگ ہیں۔ معاشرے کا حفظ و بقاء اسی میں مضمر ہے کہ دونوں کو یکساں عزت و احترام کا مستحق سمجھا جائے۔ یہ بات طشت از بام ہے کہ جدید دور میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں۔ آج صنف نازک محض استانی،نرس اور ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ اسپورٹس پرسن، پائیلیٹ، سپاہی، اعلی افسر اوروزیر مملکت کی اہم ذمہ داریاں بھی خوب نبھا رہی ہیں۔
(رابطہ۔8820239345)
[email protected]