ڈگری یافتہ ہی نہیں،تعلیم یافتہ بنیں

عذراء زمرود

دراصل ہم لوگ ظاہری آرائش و زیبائش پریڈ سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں، جسکی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مطلوب ہے۔زندگی کو خوشگوار اور پرسکون بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئے ،یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔چونکہ لوگوں نے صرف دنیاداری، مال و دولت اور آسائش میں ترقی کو اپنا مقصود بنا لیا ہے،جبکہ کامیاب و کامرانی اللہ تعالیٰ کی رضا، روحانی اور علمی و فکری ہونا چاہیے۔اب یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ ہم گھر اور معاشرہ کے لیے ہر معاملے میں کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔نیز معاشرے کے ہر فرد کو مدد کر سکتے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ تاریخ بھی رقم کر سکتے ہیں۔
مگر ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ معاشرہ کو میری کس چیز کی ضرورت ہے، اس بات پر ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔ مرد اور عورت چونکہ دونوں ایک ہی نوع سے ہیں۔لہٰذا نیک اعمال کا جس قدر بدلہ مردوں کو ملے گا،اتنا ہی عورتوں کو بھی ملے گا۔جزائے اعمال کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ بار بار اسی بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ تم سب انسان ہو اور میری نگاہ میں یکساں ہو،میرے ہاں یہ دستور نہیں ہے کہ عورت اور مرد، آقا اور غلام، کالے اور گورے،اونچ اور نیچ کے لیے انصاف کے اصول اور فیصلے کے معیار الگ الگ ہوں۔البتہ اعمال کے میدان میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں۔ اس کے بعد اس کی دلیل بیان فرمائی : ’’ تم ایک دوسرے سے ہو۔‘‘ یعنی عورتوں اور مردوں میں فرق کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں ایک ہی جنس سے اور ایک ہی آدم وحوا کی اولاد ہیں، تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اجر وثواب کے حوالے سے مرد کو عورت پر ترجیح حاصل ہو۔ یہ وہ رعد آسا اعلان ہے کہ جسے دنیا نے پہلی بارسُنا، ورنہ اس سے پہلے مرد و عورت کی برابری کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔
دراصل اسلام نے مردوں اور عورتوں کو برابر حیثیت دی ہے۔ بس فرق اس بات کا ہے مرد کا دائرہ کار علیحدہ ہے اور عورت کا علیحدہ ۔دونوں کو اپنی ذمہ داریوں سے نوازا ہے مگر طریقہ کار الگ الگ ہیں۔جیسے مرد کو گھر کے باہر کے کام سونپے ہیں اور ساتھ میں معاشی ذمہ داری عائد کی گئی ہے ،جبکہ عورت کو گھر کے اندر کی ذمہ داریوں سے نوازا ہے خاص کر بچوں کی پرورش کا کام اس کے حوالے کیا ہے۔اسی کی وجہ سے عورت پہ معاشی ذمہ داری سے رخصت دی گئی ہے۔کیونکہ اسلام نے عورت کا درجہ بلند کیا اور ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جس نے عورت پر احسان عظیم کیں اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا۔
موجودہ دور میں جہاں انسان نے ترقی کے زینے طےکئے ہیں اور ہر شئے میں تغیر آیا ہے۔عورت کے اندر بھی سوچ وفکر میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔پہلے وہ چار دیواری کی زینت تھی پھر علم کے میدان میں اس نے ترقی کی اور اب کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار عورت کی خواندگی سے منسوب کیا جانے لگے۔
تاریخ اسلام کے مطالبے سے معلوم ہوتا ہے۔قرون اولا میں اگر چہ ڈگریوں کا رواج نہ تھا، مگر خواتین علم دین، صنعت وحرفت،طب و صحت، فن سپہ گیری اور تجارت و معشیت کے میدان میں بھی معروف تھیں۔اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ماں کی گود ہی پہلی درسگاہ مانی جاتی ہے جہاں سے بچہ بنیادی تعلیمات حاصل کرتا ہے۔جو اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ثابت ہوتی ہیں تعلیم یافتہ عورت بچوں کی تربیت ان کے متعلق فیصلہ لینے اور دنیا کے مطابق ان کے لیے اخلاق اور کردار بنانے اور سنوارنے میں زیادہ مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ ان کے مستقبل کا انتخاب، دوستوں کا انتخاب، کتابوں کا انتخاب میں غیر تعلیم یافتہ ماں کے بہ نسبت زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہے۔غرض یہ کہ عورتوں کو بھی مردوں کی طرح تعلیم کے حصول کے پورے حقوق حاصل ہونے چاہیے کیونکہ مرد کی تعلیم فرد کی تعلیم عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم۔
اب مسئلہ یہ ہے تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ڈگری یافتہ ہونا ہرگز نہیں ہے کیونکہ تعلیم شعور اور احساس کی بیداری کا نام ہے۔شعور وہ علم ہے۔ جو بنا رسمی تعلیم کے بھی حاصل ہوتا ہے۔چونکہ اسلام کی نظر میں تعلیم کا اصل مقصد روحانی ترقی اور خدمت خلق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو دو الگ الگ خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ بنایا ہے، دونوں پر الگ الگ ذ مہ داریاں ڈال کر ایک ساتھ چلنے اور اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کا حکم دیاہے اور ساتھ ہی دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فطرت نے عورت پر جو ذ مہ داریاں ڈالی ہیں، انہیں بحسن خوبی نبھا کر عورت اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت دیں۔اب اگر وہ اس سے اعراض کریں گی تو محض ڈگری یافتہ بن کر رہ جائیں گی اور تعلیم یافتہ کہلانے کی حقدار نہ ہوں ۔
(تاریگام کولگام کشمیر)
[email protected]
����������������