’’ایفائے عہد‘‘ ایمان کی علامت ہے فرمانِ الٰہی

عذراء زمرود۔ کولگام 
 مسلمان کا عہد و پیمان سارے فرائض کی طرح ایک عظیم اور اہم فرض ہے۔ جو کوئی مسلمان قول و قرار کے ساتھ راست باز نہ ہو تووہ اس نعمت سے محروم ہے کیونکہ قرآن مجید اس کی تائید کرتا ہے کہ ’’انسان کے قول اور فعل کا تضاد بہت بُری خصلت ہے۔ جس سے وہ لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور اللہ ایسی بات کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے لیکن اس کو نبھانا آسان نہیں ہوتا، لہٰذا جو بات کرو سوچ سمجھ کر کرو۔‘‘
 قرآن مجید چونکہ ہر زمانے کے لوگوں سے مخاطب ہے ، اس لئےان آیات کو پڑھتے ہوئے یوں سمجھیں کہ آج یہ ہم سے سوال کر رہا ہے کہ اے ایمان کے دعوے دارو ! تم کیسے مسلمان ہو ؟ تمہارے قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے ؟ تم اللہ پر ایمان کا اقرار بھی کرتے ہو اور دن رات اس کے احکام کو پائوں تلے روندتے بھی رہتے ہو ! تم رسول اللہؐ کی ذات سے عشق و محبت کے دعوے کرتے ہو لیکن جب عمل کے میدان میں آتے ہو تو آپؐ کی سنتوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہو ! ذرا تصور کیجیے ! آج اگر اللہ کا کلام نازل ہو تو ہمارے ایمان ،ہمارے کردار اور ہمارے عمل پر کیا کیا تبصرہ کرے ! اور اگر آج حضورؐ خود تشریف لاکر اپنی امت کی حالت دیکھ لیں تو کیسا محسوس کریں (بیان القرآن)
چنانچہ آجکل ہمارے معاشرے میں جو خرابیاں عام ہو رہی ہیں، انہی خرابیوں میں سے ایک بڑی خرابی ایفائے عہد کی خلاف ورزی ہے جس نے ہمارے معاشرے کو بے سکونی اور بے اطمینانی کی حالت میںمبتلا کر دیا ہے۔ہمارے معاشرے میں معاہدوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے، ایفائے عہد کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات اور حضور اکرم ؐ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے ایک عظیم الشان اور بہترین نمونہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ المعارج آیت نمبر ۲۱ میں ایفائے عہد کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:’’جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں‘‘۔اس آیت کریمہ کی تفسیر مولانا مودودیؒ یوں فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے سپرد کی ہیں اور وہ امانتیں بھی جو انسان کسی دوسرے انسان پر اعتماد کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ اسی طرح عہد سے مراد وہ عہد بھی ہیں جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے اور وہ عہد بھی جو بندے ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کی امانتوں اور دونوں قسم کے عہد و پیمان کا پاس ولحاظ ایک مومن کی سیرت کے لازمی خصائص میں سے ہے۔ حدیث میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ ہمارے سامنے جو بھی تقریر فرماتے، اس میں یہ بات ضرور ارشاد فرمایا کرتے کہ ’’ خبر دار رہو، جس میں امانت نہیں، اس کا کوئی ایمان نہیںاور جو عہد کا پابند نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔ ‘‘(بہقی فی شعب الایمان) اور عہد ایفائے کے سلسلے میںسورۃ النمل آیت نمبر ۹۱میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں :’’اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو، اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے۔‘‘اور سورۃ بنی اسرائیل میں یوں فرمایا گیا ہے:’’عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔‘‘اس آیت کریمہ کی تفسیر مولانا مودودیؒ یوں فرماتے ہیں کہ’’ امانات ‘‘ کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے جو خداوند عالم نےیا معاشرے نےیا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا اور کبھی اپنے قول وقرار سے نہ پھرے گا۔آیت کا یہ جز لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفعَلُونَ مولانا مودودیؒ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اس ارشاد کا ایک مدعا تو عام ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہےاور ایک مدعا خاص ہے جو بعد والی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتاہے ۔پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہئے۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں، کجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ نبی کریمؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا،منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو ،روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ جب بولے جھوٹ بولےاور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
ایک اور حدیث میں آپ ؐکا ارشاد ہے:’’چار صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائی جائیں ،وہ خالص منافق ہے، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے ،اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے، جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب بولے تو جھوٹ بولے، اور عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کر جائے اور لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالیں۔‘‘ جھوٹ بولنا، وعدے کی خلاف ورزی کرنا یا امانت میں خیانت کرنا یہ سب اسی خصلت کے شاخسانے ہیں۔ آنحضرت ؐ نے اسے منافق کی نشانیاں قرار دیا ہے، جس کا ذکر آچکا ہےاور سیرت و کردار کی تعمیر میں اس کا جو حصہ ہے، شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ آنحضرتؐ اپنے ہر خطبہ جمعہ میں ہمیشہ اس کا ذکر ضرور فرماتے تھے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں اس عیب کے پیدا ہونے کا کبھی امکان بھی محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔اور مزید وضاحت مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنے معروف القرآن میں فرماتے ہیںکہ انسانوں کی عزت اور کامیابی ایمانی اوصاف و کمالات پر ہی موقوف ہے ،جس کے لیے قول وفعل کی مطابقت ویکسانیت چاہئے ،قول وفعل میں تضاد نفاق کی علامت ہے۔