خواتین با اختیار یا بے اختیار؟

غلام حسن ڈار،رفیع آباد
ہر سال کی طرح رواںسال بھی عالمی یوم خواتین گذشتہ مہینے کی ۸؍ تاریخ کو کم و بیش ہر ملک و قوم میں منایا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ میں عالمی یوم خواتین منائے جانے کی روایت ۸؍مارچ ۱۹۷۵ ءسے چلی آرہی ہے۔ لہٰذا اس دن کے منائے جانے کی مناسبت سے پوری دنیا میں زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ادارے عورتوں کے حقوق کو مرد کے حقوق کے مساوی قرار دینے، گھر، دفتر، workplace ، سماج، سیاست اور معیشت وغیرہ میں خواتین کو مردوں کے برابر حصّہ دلوانے کی غرض سے مختلف سطحوں پر اس موضوع کو اُبھارنے کی ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ خواتین کو سماجی اور معاشی اعتبار سے بااختیار بنایا جاسکے۔ یہ کوشش، نعرہ، رجحان اور تحریک اگرچہ بظاہر بے حد خوشنما، نیک نیتی پر مبنی، خواتین کے تئیں ہمدردی اور انہیں فلاح وبہبود اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی خاطر سعیِ جمیل ہے۔ تاہم ہم منطقی، سماجی اور اخلاقی سطحوں پر اسکے اثرات اور نتائج سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے ہیں۔ اسلئے کہ ہمیں سب سے پہلے مرد اور عورت کے درمیان بحیثیت انسان جسمانی اور نفسیاتی تفاوت کو سمجھنا ہوگا۔ کہ دنیا میں انسان (مردوعورت) کی تخلیق سے ہی دنیاآباد ہوئی، مزین ہوئی اور بامقصد بن گئی اور دونوں جنسوں کے باہمی تال میل، تعاون اور اپنی اپنی طاقت، صلاحیت اور دائرہ کار کے اندر رہ کر اپنا حقیقی رول ادا کرکے اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے زندگی اور دنیا کی مشکلات، مسائل اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کی غرض سے دونوں کا وجود اور کردار لازم وملزوم ہے۔ اس اعتبار سے دونوں کی اہمیت اور عظمت میں کوئی ایک دوسرے سے کم ہے نہ زیادہ ،البتہ دونوں جنسوں کے درمیان واضح تفاوت ہے لیکن یہ تفاوت بھی ایسی کہ مرد جسمانی اعتبار سے سخت اور جذباتی اعتبار سے مضبوط ہونے کے باوجود نہ تو مرد بچہ جِن سکتا ہے اور نہ ہی ابتدائی مرحلے میں اس کی نگہداشت کرسکتا ہے جو کہ صرف اور صرف عورت کی اہلیت اور خاصہ ہے۔ اسی طرح نہ عورت مرد کی طرح سخت سخت اور صبر آزما کام کرسکتی ہے اور نہ ہی مرد عورت کی طرح نازک نازک کام انجام دے سکتا ہے۔ تو واضح ہوا کہ دونوں جنسوں کا کردار اور دائرہ کار جُدا جُدا ہے لیکن ستم یہ ہے کہ ترقی اور جدیدیت کے زعم نے عورت کو سخت سخت کاموں میں دھکیل دیا۔ اس کی فطرت اور طاقت کے خلاف اس کی نسوانیت اور نزاکت پر حملہ کرکے اسے میدان کارِزار میں اُتار دیا۔ اور مرد کے ساتھ مسابقت اور مقابلہ آرائی پر اسے خوب اُکسایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں جنس ایک دوسرے کے رفیق اور معاون بننے کے بجائے ایک دوسرے کے حریف اور مخالف بن گئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ طاقتور اپنے کمزور حریف کو کیونکر مسابقت اور مقابلہ کے اس کھیل میں اسے فاتح اور غالب ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ یہ تو کُھلم کھلا اس کی حاکمیت (Authority)  پر براہ راست حملہ کے برابر ہے۔ اب اگر مرد کے میدان میں عورت سبقت لے بھی جاتی ہے لیکن آخرکار عورت کو مرد ہی کے حصار میں اور چھت کے نیچے رہنا ہے۔ وہاں اس کی سبقت کا ٹکرائو مرد کی حاکمیت (Authority) سے ضرور ہوگا۔ یہیں سے عورت کی بغاوت اورمرد کی انانیت کے درمیان تصادم کی ایک نئی اور پیچیدہ کہانی شروع ہوتی ہے۔
    مغربی دنیا اس کا تجربہ کرکے اس کے نتائج کی سزا بُھگت رہی ہے اور ہمارے یہاں مشرق میں ہم اس تجربے سے گزر رہے ہیں اور اس کام میں باپ، بھائی اور شوہر یکساں طور پر سماج کی طرف سے دبائو اور مجبوری محسوس کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے عورت بظاہر بااختیار تو بن گئی (رہی ہے) لیکن اس کی نسوانیت، نزاکت، عزت وتکریم اس سے دُور ہورہی ہے۔ اس کے خلاف جرائم بشمول طلاق و خلع کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ عورت بااختیار بننے سے زیادہ بے اختیار بن گئی۔
   اس تحریر کے پس پردہ ہمارا مقصد دور جدید کی عورت کی حوصلہ شکنی کرنا ہر گز نہیں ہے۔ تاہم حدِ فاصل قائم کرنا ناگزیر ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت کو اس کے چاروں روپوں (ماں، بہن، بیٹی، بیوی) میں عزت، عظمت، مہرو محبت اور وفا کی انتہا حاصل ہے لیکن اگر عورت اپنی بنیادی شناختیں ہی کھوبیٹھی ہے تو معاشرے کی بنیادی اکائی  گھر تو تباہ و برباد ہوجائیگا پھر اس کے ساتھ ہمارا مضبوط اور مربوط معاشرتی نظام بھی درہم برہم ہوجائیگا۔
اگر چہ اس حقیقت کو بھی نکارا نہیں جاسکتا ہے کہ ہمارے درمیان ایسی بھی بہن بیٹیاں ہیں جو اپنی ذہانت، فہم و فراست اور وسیع علم و تجربے کے بل پر وقتاً فوقتاً تاریخ رقم کرچکی ہیں۔ ظاہر سے بات ہے قوم و ملت کو ایسی ہونہار، بہادر اور بے مثال مائوں، بہنوں اور بیٹیوں پر فخر و ناز ہوتا ہے۔ انہی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی بدولت نسلیں پھلتی پھولتی اور ترقی کی منزلیں طے کر کے اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔
 لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی بہن بیٹیوں کی تربیت کی تربیت کچھ اس انداز سے کریں کہ کل وہ ہمارے لیے باعثِ سرمایۂ افتخار بنیں۔ مطلب یہ کہ انہیں ابتدا ہی سے دین فہمی، مروجہ علوم اور اپنی تہذیب و ثقافت کی بنیادوں پر پروان چڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
)رابطہ۔9596010884 )