احساسِ کمتری،ہر منفی پہلوکی جَڑہے مکمل ذات تو صرف ربّ الکریم کی ہے

 سید عطیہ تبسم

انسان کو احساسات کا مجموعہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ وہ مثبت ہو یا منفی اس کے باغیچے میں احساسات کا کوئی نہ کوئی گلدستہ پڑا رہتا ہے۔یہ جذبات و احساسات کا تسلسل آخری سانس تک قائم رہتا ہے۔ ہر وہ بڑی شخصیت جس نے انسانیت کو عروج کی بلندیوں پر دیکھنا چاہا، اس نے مثبت پہلو کو منفی احساسات پر غالب رکھنے کی تلقین کی۔ انسانیت نے اسی جہادِ مسلسل میں عروج و زوال کے مختلف مراحل طے کئے ۔احساسات کی فہرست میں ’’احساسِ کمتری‘‘ سرِفہرست ہے۔ احساسِ کمتری کو ہر منفی احساس کی جڑ کہا جائے تا درست ہوگا۔

انسان کب اپنے آپ کا غلط اندازہ لگا تے ہوئے خود کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے، اسے خود بھی علم نہیں ہوتا۔ وہ کسی ایک محرومی کا حوالہ دے کر پوری زندگی کو محرومیوں سے تعبیر کرنے لگ جاتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو اِگنور (ignore) کر کے خود کو انڈر اسٹیمیٹ (underestimate) کرنے کو احساسِ کمتری کہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ احساس لاشعوری طور پر جنم لیتا ہے اور اس کو پیدا کرنے والے بیرونی ذرائع ہوتے ہیں، جیسے سماج یا کوئی باوقار شخص جس کے خیالات کو ہم اہمیت دیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ احساس ہمارے اذہان اور قلوب میں پرورش پاتا رہتا ہے، آہستہ آہستہ یہ بیج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس کی مضر شاخیں جیسے حسد، ڈپریشن اور کئ طرح کی نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں اور اس درخت کا پھل ایک انسان کی خود اعتمادی کا قتل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

دور جدید کا انسان ایک ہائیلی کمپٹیٹیوسوسائٹی(highly competitive society) میں رہتا ہے ،جہاں ہر وقت، ہر سمت اُسے کسی نہ کسی کا کمپیٹیٹر بننا ہے اور اس مقابلے کی دُھن میں وہ یا تو کسی سے کمتر یا کسی سے برتر بننے کا احساس لئےپھرتا ہے ۔ ہمیشہ اس تقابلی پنجرے میں جکڑے رہنے کی وجہ سے وہ کبھی خود مختار اور آزادانہ زندگی کا تصور بھی نہیں کر پاتا ہے، کیونکہ اس کو ہر لمحہ کسی اور کے مطابق اپنی زندگی کو جینا ہوتا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر اس کمپٹیشن میں وہ ایک دو دفعہ فیلیر ثابت ہوا تو پوری زندگی اس احساسِ کمتری میں گزار دیتا ہے کہ وہ کبھی کچھ کر ہی نہیں سکتا ہے۔ جبکہ اس دنیا میں گلوں تک پہنچنے کے لیے بھی کانٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:؎
یہ دنیا ہے یہاں پر داستانیں مار دیتی ہیں
یہاں رسموں رواجوں کی چٹانیں مار دیتی ہیں
اس دنیا کی تلخیوں اور شیرینیوں میں منفی جملوں کی بھرمار اُن منفی احساسات کو جنم دیتی ہے اور نشوونما بھی فراہم کرتی رہتی ہے۔’’۔۔۔۔میری فرینڈ کے نمبر مجھ سے اچھے ہیں….. میری کزن تو مجھ سے خوبصورت ہے…. بس ناک ذرا موٹی ہے باقی سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ تم تو بہت پتلی ہو۔۔۔ ارے کم کھایا کرو، موٹی ہو گئی ہو۔۔۔۔ ارے بیٹا! ابھی تک پڑھ رہے ہو، تمہاری دوست نے تو (I.A.S) بھی کر لیا ۔۔۔۔کھانا تو اچھا بنا لیتی ہو مگر میک اَپ کرنا نہیں آتا ہے۔۔۔۔۔ ”
اس طرح کے جملوں کو سننا، سوچنا اور دوہرانا عام سی بات ہوگئی ہے اور اسی عام سی بات نےاس خاص منفی احساس ’’احساس کمتری‘‘ کو عام کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اور ہم سے منسلک افراد یہ بھول جاتے ہیں کہ مکمل ذات تو صرف ربّ العزت کی ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی مکمل نہیں ہوتا ہے ۔ ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خلا ،کوئی نہ کوئی کمی ضرور موجود ہوتی ہے۔ اللہ کی تقسیم دراصل عدل پسندانہ ہے ۔ اُس نے ہر جھولی کو کسی انوکھی نعمت سے بھر رکھا ہے۔ اگر ہم نعمتوں کا مقابلہ کرنے نکلیں تو مایوس ہو کر لوٹے گے۔ قرآن نے تو مایوسی کو کفر کہا ہے۔ شاید اسی لئے کیونکہ اس کفر سے احساسِ کمتری جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ اس احساس سے باہر آنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو ربّ کی تقسیم پر ایمانِ کامل ہو اور خود پر اعتماد ہو، کسی اور کی صلاحیتوں سے اِمپریس ہونے کے بجائے وہ اپنے اندر کے جوہر کو تلاشےاور تراشے ۔ دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنا اور پھر اپنا موازنہ اُن کے ساتھ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ جب انسان کو اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے تو کوئی منفی احساس اس کے ارد گرد نہیں بھٹکتا ۔اقبال نے ان منفی احساسات سے باہر آنے کا یہ نسخہ بتایا ہے:؎
خدائے مہرباں کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کرے گا پھر کی مغلوب گماں تو ہے
[email protected]