ٹیس راجہ ارشاد احمد

’’میرے دل کا حال بھی سنا کریں؟. ہر وقت اپنی ماں کی طرفداری نہ کیا کریں‘‘۔ زینت نے شکایت بھرے لہجے میں اپنے شوہر شفاعت سے کہا۔
میں کسی کی طرفداری نہیں کرتا بلکہ جو تمہارے حقوق ہیں ان کو پورا کرتا ہوں اور جو والدہ کے فرائض مجھ پر ہیں ان کو بھی ادا کرتا ہو”۔ شفاعت نے اپنی شریک حیات کو مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’”نہیں میں یہ بات ماننے کے لئے قطعی تیار نہیں ہو _ں، آپ اپنی ماں کی باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور مجھے نظرانداز کرتے ہیں ۔۔۔‘‘ زینت نے شفاعت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔
’’ایسا تم کو لگتا ہے،میری تو یہ ہی کوشش ہوتی ہے ہے کہ نہ تمہارے دل کو ٹھیس پہنچے لہجے میں کہا اور نہ والدہ کو میری کسی بات سے کبھی دکھ پہنچے ‘‘۔ شفاعت نے معصومیت سے جواب دیا
“ہر بات کی حد ہوتی ہے تمہاری ماں مجھے اپنا سمجھنے کو تیار نہیں، ہر وقت میرے کام میں نکتے نکال نکال کر مجھے کوستی رہتی ہے۔میں روز روز کے جھگڑوں سے تنگ اچکی ہوں، زینت کے لہجے میں تلخی ذرا تلخی آئی۔

شفاعت نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا “میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ تمہارے دل میں کیوں میری والدہ کی کڑواہٹ پیدا ہوگئی ہے، یاد کرو جب ہماری شادی ہوئی تھی تو ماں کتنی خوش ہوئی تھی۔ اپنے ہاتھوں سے تمہارے قدم گھر میں داخل کروائے تھے‘‘۔
شفاعت خلا میں آنکھیں دوڈاتے ہوئے پرانی یادوں میں کھوتے ہوئے کہا
پانچ سال قبل دونوں خاندانوں کی رضامندی سے شفاعت اور زینت کی شادی طے ہوئی تھی۔ شادی کے دو سال بعد ان کی ازدواجی زندگی میں اُس وقت بہار آئی تھی جب چاند سی بیٹی نورین نے ان کے گھر میں جنم لیا تھا۔ نورین اب تین سال کی ہوگئی ہے جو شفاعت اور زینت کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی ہے تاہم شفاعت کے والدین چاہتے تھے کہ ان کی ایک اور اولاد، جو کہ بیٹا ہو، دنیا میں آئے تاکہ وہ ان کے خاندان کا وارث بن جائے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ زینت اور اس کی ساس کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ بات بات پر ساس بہو کے درمیان نوک جھونک چلتی رہتی تھی جو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہی بڑھتی رہتی تھی۔ اس کا اثر شفاعت کی روزمرہ زندگی پر بھی پڑنے لگا تھا وہ والدہ کی سنتا تو شریک حیات پر غصہ آتا اور شریک حیات کی سنتا تو والدہ کی حرکتوں پر دل مایوس ہوجاتا تھا، لیکن شفاعت دونوں کی سنتا اور دل ہی دل میں غصے کے گھونٹ پی لیتا تھا۔
شفاعت جب دن بھر کے کام کاج سے تھکا ماندہ گھر لوٹتا تو والدہ اور شریک حیات کی کڑوی باتیں سننی پڑتی تھیں۔
نہ وہ والدہ کی باتوں کو نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ شریک حیات کی ناراضگی مول لے سکتا ہے حالانکہ وہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا کہ ساس بہو ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں……. اسی کشمکش میں شفاعت اُلجھا رہنے لگا تھا۔
’’کہاں کھوگئے ہو ۔۔۔‘‘؟ وہ تب کی بات تھی، اب آپکی ماں وارث نہ ملنے پر مجھے طعنے مارتی رہتی ہے ‘‘۔ زینت نے اسے خیالوں کی دنیا سے واپس لاتے ہوئے کہا۔
شفاعت نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے زینت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا “نہ تم غلط ہو اور نہ میرے والدین غلط ہیں، آج میری بات کو غور سے سنو۔‘‘
شادی کے بعد اگر لڑکی کو سسرال والے ستانے لگیں تو اس کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ کتنا برداشت کرتی ہے اگر شادی کے بعد گھر لائی گئی دلہن تیز مزاج یا جھگڑالو طبیعت کی ہوئی تو سب کے ناک میں دم کرکے رکھ دے گی ۔
’’شادی کے بعد اگر لڑکا بیوی کی سنیں تو والدین، بھائی، بہن، یار دوست سب کہتے ہیں کہ بیوی کا غلام بن گیا ہے ‘‘
شفاعت نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ “اگر لڑکا شادی کے بعد والدین کی بات سُنے تو بیوی کہتی ہے کہ والدین کی سنتے ہو بیوی کو پوچھتے نہیں ۔ اگر بیوی کو خاطر میں نہیں لانا تھا تو شادی کیوں کی تھی جبکہ حقیقت ۔۔۔”زینت نے اس کی بات کاٹنے ہوئے کہا کہ ’’آپ میری بات سنیں ایک لڑکی شادی کرکے اپنے والدین، بھائی، بہن اور بچپن کی سہیلیاں سب چھوڑ کر آتی ہے، ایسے میں اسے بھی مان سمان ملنا چاہیے اور ہر لڑکی کے دل میں کچھ ارمان اور خواب ہوتے ہیں ۔”
’’میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ لڑکی جب شادی کرکے اپنا مائیکہ چھوڑ کر آتی ہے تو اس کے کچھ ارمان اور خواب ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ آتے ہی بیٹے کو والدین اور دیگر رشتہ داروں سے دور کردے ۔” شفاعت نے جواب دیا
“میں نے تو یہ کبھی نہیں کہا کہ تم اپنے والدین یا باقی رشتہ داروں کو چھوڑ دو، میں تو صرف یہ کہتی ہوں کہ میرے حقوق کی نگہبانی کرو۔” زینت نے تیز لہجے میں کہا ۔
“تمہارے حقوق، تمہارے ارمان اور خواب، میرے والدین کے فرائض سب اپنی جگہ مجھے قبول ہیں لیکن کسی نے اس درد اور کسک کو محسوس نہیں کیا کہ والدین اور شریک حیات کے درمیان پستے پستے مرد کی حالت کیا ہوجاتی ہے‘‘ شفاعت نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا”شادی کے بعد لڑکا نہ والدین کا رہتا ہے اور نہ ہی بیوی کا رہتا ہے ۔والدین کی سنیں تو بیوی کا مزاج گرم ہوجاتا ہے ،بیوی کی سنے تو والدین ناراض ہوجاتے ہیں کہ بیوی کا غلام بن گیا ہے ۔”لڑکی تو صرف مائیکہ چھوڑ کر غیروں میں آتی ہے لیکن لڑکا تو شادی کے بعد بغیر کچھ چھوڑے سب کے لئے غیر بن جاتا ہے، نہ بیوی کا اور نہ ہی والدین کا رہتا ہے،” شفاعت نے ایک لمبی سانس لی اور اپنی بات جاری رکھی
“لڑکی مائیکے میں جاکر ماں اور بہنوں کو حال دل سناتی ہے لیکن مرد تو یہ بھی نہیں کرسکتا نہ والدین کو کچھ بتاسکتا ہے اور نہ بیوی سننے کو تیار ،جائے تو جائے کہاں۔ یار دوستوں کو بھی حال دل نہیں سناسکتا۔” گھر کو گھر بنانے میں وہ زندگی لگا دیتا ہے لیکن وہ خود نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا؟” شفاعت نے بات کہہ کے زینت کی طرف دیکھا اور پھر کہا
” ہر گھر کی دیوار اور چھت بنانے اور سجانے میں ہر انسان کی زندگی گزر جاتی ہے لیکن اس گھر کو گھر بنانے میں سب سے زیادہ محنت ایک عورت کی ہوتی ہے، شفاعت نے زینت کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی “…… ایسے میں اگر کسی گھر میں ساس بہو کے جھگڑے… یا کسی اور طرح کی رشتوں میں کوئی آپسی رنجش ہوتی ہے تو وہ گھر….گھر نہیں رہتا بلکہ جہنم بن جاتا ہے………”
“میں مانتی ہوں کہ گھر کو گھر بنانے میں عورت کا ہاتھ ہوتا ہے…….”زینت نے شفاعت کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا” لیکن میں اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتی ہوں لیکن آپ کی والدہ میرے کام اور محنت کو نظرانداز کرتی ہے۔ ”
” دیکھو زینت تم میں جتنا برداشت ہے کرلو…… میں اپنی والدہ کے سامنے کسی بھی طرح کی کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا دل میری وجہ سے دکھی ہوجائے…… ‘‘شفاعت نے کہا
’’ …… آپ کو تو والدہ کے دکھی ہونے کا احساس ہے لیکن میری زندگی ویران ہوتی جارہی ہے۔اس کا خیال نہیں…..‘‘۔ زینت نے جذباتی انداز میں کہا
’’میں تمہارے جذبات اور احساسات کی قدر کرتا ہوں…. لیکن میں ترازو کا وہ پلڑا ہو جو نہ تمہاری طرف جھکے گا اور نہ والدہ کی طرف….. میری یہ ہی کوشش رہتی ہے کہ دونوں جانب اپنا توازن برقرار رکھوں، لیکن نہ تم اور نہ والدہ…… بلکہ کوئی بھی اس بات سے واقف نہیں ہوتا کہ مرد پر کیا گزرتی ہے۔ بے چارہ گھر بناتے….گھر کی ضرورتیں پوری کرتے….. رشتوں کو نبھاتے اور سنبھالتے ہوئے…. سب کی خواہشیں پوری کرتے کرتے خود کو بھول جاتا ہے…..اسے پتہ تو تب چلتا ہے جب دنیا کو چھوڑنے کا وقت آتا ہے…… بے چارہ مرد… ‘‘ شفاعت نے کہا ۔
زینت اس کے دل میں چھپے درد کی ٹیس کو محسوس کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھتے ہی رہ گئی۔
���
گاندربل،کشمیر، موبائل نمبر؛9419000457