نیلوفر کی ادبی کاوش ’’دستک‘‘ پر طائرانہ نظر کتابی جائزہ

ریاض اتکلی
عالمی سطح پر اردو ادب کے مختلف اصناف پر طبع آزمائی میں مرد وخواتین قلمکار یکساں طور پر مصروفِ عمل ہیں۔ انہیں قلمکاروں میںخطۂ چناب کے ڈوڈہ ضلع کی خاتون قلمکار نیلو فرنے اپنا پہلاافسانوی مجموعہ ’’ دستک ‘‘ منظر عام پر لاکر پورے خطۂ چناب میں اولین افسانہ نگارہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔ نیلوفر کی ولادت 7مئی1973کو قصبہ ڈوڈہ میں ہوئی ۔انہوں نے اردو زبان میں ایم فل اور بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور درس وتدریس سے منسلک ہوگئیں۔ گذشتہ 22برسوں سے اپنی نجی گھریلو مصروفیات کے ساتھ محکمہ تعلیم میں بحیثیت مدرس اپنی خدمات کو بحسن وخوبی انجام دے رہی ہیں۔  خطۂ چناب کے سر سبزو شاداب ماحول کی پروردہ نیلو فر کے سلسلے سے ولی محمد اسیر کشتواڑی اپنے مضمون ’’ پیش کلام ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نیلوفر ان دنوںگورنمنٹ مڈل اسکول کے جی بی وی ڈوڈہ کے ہوسٹل کی انچارج وارڈن ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی اردو زبان و ادب سے دلی لگائوتھا۔ انہیں تخلیقی ادب کا شوق کچھ نہ کچھ لکھنے پر آمادہ کرنے لگا تو 1999میں ہمت کر کے پہلا مضمون بعنوان ’’ آج کی مشرقی عورت ‘‘ قلمبند کردیا جو ڈوڈہ کے مقامی اخبار ’’ صدائے کوہسار‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون کو لوگوں نے پسند کیا تو نیلو فر کے قلم کی رفتار تیز ہوگئی۔‘‘   (دستک ۔ صفحہ ۔ ۸)
نیلوفرنے مضمون نگاری کے ساتھ اپنے اطراف کے سماجی ماحول کا جائزہ لیا اور اسے افسانوں کے خدوخال میں پروکر2023میں اپنا اولین افسانوی مجموعہ ’’دستک ‘‘ اردو ادب نوازوں کی محفل میں پیش کردیا ،جس میں کل 17افسانے اور ان کی ادبی کاوشوں پر کئی معروف قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں ۔انہوں نے کتاب کا انتساب اپنے مرحوم والد محترم حاجی غلام حسن ملک اور پیاری والدہ محترمہ حجّن حلیمہ بیگم ملک کے نام کیا ہے ۔مندرجہ ذیل اقتباس سے ان کے فنی استعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’’ وقت اچھا ہو یا بُرا گزر ہی جاتا ہے اور جس کے مقدر میں پروردگار نے جو رکھا ہوتا ہے وہ اسے مل ہی جاتا ہے ۔ چاہے انسان اس کے لئے کوشش کرے یا نہ کرے۔ کیوں کہ کارخانۂ دو جہاں کا مالک مختار کُل ہے اور اسے کسی امر کے ہونے یا نہ ہونے میں کسی کے عمل و دخل کی حاجت نہیں ہوتی ‘‘  ( افسانہ’’ چاہت‘‘ ۔ صفحہ ۔ ۳۸)
مصنفہ کے افسانے سماج کا عکاس ہیں۔ ’’ چاہت۔پلیز !  اپنے آپ کو سنبھالو، چاہت مجھ سے بات تو کرو۔ شیراز سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کے دل کا بوجھ کچھ قدر ہلکا کرنے کا متلاشی تھا۔ وہ مسلسل اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے روئے جارہی تھی ۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی امی نے آج صبح سویرے چاہت کی پڑھائی جاری رکھنے کی بات کو لے کر گھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا تھا لیکن شیراز کے ابو جان نے امی کی شدید مخالفت کرنے کے باوجود بھی چاہت کا یونی ورسٹی میں ایم اے سیاسیات میں داخلہ کروادیا۔‘‘( افسانہ’’ چاہت‘‘ ۔ صفحہ ۔ ۳۷)
’’چاہت‘‘ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔جب اس کی عمر دس سال کی تھی تبھی اس کے والدین ایک کار حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔سراج سکندراپنے بہن بہنوئی کی اچانک موت کے بعد ان کی اکلوتی بیٹی چاہت کی پرورش اور تعلیم کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ماموںجان اور ان کا اکلوتا بیٹاشیرازچاہت سے بے حدپیار کرتے تھے لیکن سراج سکندر کی بیگم چاہت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ،اسی لئے سراج سکندر اور ان کی بیگم کے درمیان سرد جنگ چلتی رہتی تھی۔اسی دوران شیراز دو سال کے لیے امریکہ جانے کا مژدہ سناتا ہے تو چاہت اس کی جدائی کے غم میں پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگتی ہے۔ دو سال کاعرصہ گزرتے ہی شیراز کے واپسی کی خبر سے گھر میں ایک چھوٹی سی پارٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سراج سکندر کی بیگم اپنے بیٹے شیراز کی شادی ڈاکٹر رحمن کی بیٹی ندا سے کرنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے اور پارٹی میں ڈاکٹر رحمن کے فیملی کو بھی مدعو کرتی ہے جبکہ شیراز اور اس کے والد چاہت کو پسند کرتے ہیں۔ان دونوں نے خفیہ طور پر ایک منصوبہ بنایا۔
’’ابو جان ! کیاآپ نے چاہت کو اس ڈرامے سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ بیٹا یہ سب اتنی جلدی میں ہوا کہ میں چاہت کے علم میں یہ منصوبہ نہ لاسکا۔ تمہاری امی کو منصوبے کی کچھ بھنک نہ لگے۔ میں اس لئے بھی خاموش رہا۔سراج سکندر گفتگو کے دوران چاہت کے چہرے پر پانی کی چھینٹیںبھی پھینکتے جارہے تھے۔ مائرہ بھی ساتھ میں بیٹھی ہوئی تھی اور سراج سکندر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شیراز سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ مائرہ نے اس منصوبے کو کامیاب بنانے میں ہماری مدد کی۔ ورنہ تمہاری امی کسی طرح بھی تمہیں ڈاکٹر رحمان کی بیٹی ندا سے رشتہ جوڑنے کے لئے مجبور کرتی ‘‘  ( افسانہ ۔’’چاہت‘‘۔ صفحہ ۔ ۴۳)
مصنفہ نے افسانہ ’’ اپنوں کے زخم ‘‘ میں فساد زدہ ماحول کو پیش کیا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی کسی کی جان کی حفاظت کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے تواسے اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عرشی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچنے کے لئے وہ اپنے شوہر اور آٹھ ماہ کے شیرخوار بچے کے ساتھ اپنے سسرال سے میکے کو کوچ کر گئی جہاں کچھ دنوں رہنے کے بعد حالات کو سازگار دتصور کرتے ہوئے اپنے گھر آگئیں لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی ۔ان لوگوں کے گھر پہنچتے ہی بلوائیوں نے ان پر حملہ کردیا ،آخر کار عرشی کے شوہر نے اسے بچے کو لیکر بھاگ جانے کی صلاح دی۔ اس کے نزدیک دوسرا کوئی راستہ نہ تھا۔ عرشی اپنے شیر خوار بچے کو لیکر تیز تیز قدموں سے جانے لگی لیکن شوہر کی یاد اسے بے چین کررہی تھی۔ کچھ دوری پر ایک حویلی دیکھ کر رکی جہاں اس کے آٹھ ماہ کا بچہ اسد کے زور زور سے رونے کی آواز سن کر حویلی کے پہرے دار بھیم سنگھ دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ اندر سے ایک عمر رسیدہ خاتون کی آواز نے عرشی کو چونکا دیا۔ عرشی اندر پہنچتے ہی عمر رسیدہ خاتون کے قدموں میں گر کر مدد کی بھیک مانگنے لگی ۔ عرشی نے اپنے شوہر کے سلسلے سے پوری جانکاری دی۔ عرشی کی پریشانی اور گھبراہٹ کو دیکھ کر حویلی کے پہر دار بھیم سنگھ فساد زدہ علاقے میں جاکر اس کے شوہرکو ظالموں کے چنگل سے بچانے کے لئے نکل پڑا۔ ’’ بیٹی فکر نہ کرو ہم ابھی کچھ آدمیوں کے ساتھ نکل کر تمہارے شوہر کا پتہ کریں گے اور بھگوان کی کرپا ہو تو اسے ساتھ ہی لے آئیں گے۔‘‘ بھیم سنگھ نے نہایت ہی پُر اعتمادی سے کہا۔ ( افسانہ ۔’’اپنوں کے زخم‘‘۔ صفحہ ۶۰)بھیم سنگھ اور عمر رسیدہ خاتون کے دلاسہ کے بعد عرشی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور گہری نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
مجموعے کا ٹائٹل افسانہ ’’ دستک ‘‘ ایک بیمار والدین کی پہلی اولاد نجمہ کے گرد گھومتی ہے۔ مذکورہ افسانے میں مصنفہ نے نجمہ کے کردار کو بڑے ہی خوش اسلوبی کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر سماج کو ایک عمدہ پیغام دیا ہے۔ نجمہ اپنے ریٹائرڈ بیمار والد اور ضعیف والدہ کے علاوہ دو بہنوں اور اکلوتے بھائی کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اپنی خواہشات اور جذبات کو قربان کردیتی ہے۔ نجمہ اپنے والدین کی معاشی و جسمانی حالات اورچھوٹے بھائی بہنوں کی پرورش وبہتر تعلیم کو مد نظر رکھتے ہوئے ملازمت تلاش کرتی ہے ۔ اس کی تعلیمی لیاقت اور والدین کی دعائوں سے اسے ایک دفتر میں ملازمت بھی مل جاتی ہے۔اب وہ اپنے گھر والوں کی خدمت کو اپنا فرض ِ اولین سمجھتی ہے اور شادی کے لئے آنے والے اچھے سے اچھے رشتے کو باہر ہی باہر ٹال دیتی ہے۔ جب اس نے ایک موزوں رشتے سے انکار کیا تو اس کی خبر گھر والوں کو ہوگئی جس پر اس کی ماںنے اپنے غصے کا اظہار اسے بُرا بھلا کہہ کر کرتی ہے۔’’ ہائے نجمہ تم نے بہت غلط کیا تم سے بڑی حماقت سرزد ہوئی۔ خدا جانے اب تمہارے نصیب میں ایسی دستک ہو بھی یا نہیں ۔ پھر ان چھوٹی لڑکیوں کے لئے بھی اب کوئی آئے یا نہیں ۔لوگوں نے نہ جانے ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کی ہوگی ۔‘‘ ( افسانہ ۔’’دستک‘‘۔ صفحہ ۔۷۴)
نجمہ ایک دن جب اپنے دفتر سے گھر آنے کی تیاری کررہی تھی تبھی رضوان صاحب نے اسے اپنے دفتر میں بلوایا۔وہ جیوں ہی صاحب کے چمبر میں داخل ہوئی تووہاں ایک اجنبی کو دیکھ کر چونک پڑی۔ رضوان صاحب اس اجنبی شخص کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ راحم ہے۔ یہ اسی شہر کے رہنے والے ہیں اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر گھر لوٹے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ایک دوسرے کے دلوں میں سما گئے۔ ایک دن جب نجمہ دفتر سے گھر آکر اپنے کمرے میں آرام کررہی تھی تبھی اس کی والدہ نے اسے دروازہ کھولنے کو کہا ۔نجمہ کے دروزہ کھولنے پر ماں اور بیٹی کے درمیان کیا گفتگو ہوئی :
’’ دیکھو تمہارے لئے آج بہت اچھا رشتہ آیا ہے۔ خبر دار جو اب کے تم نے کوئی حماقت کی۔ اب بات ہم تک پہنچی ہے۔‘‘
’’ کیا بات ، کون سی بات ہے ؟ ‘‘ وہ تھوڑی دیر مضطرب ہوگئی۔
’’آج تمہارے آفس جانے کے بعد منور عزیز صاحب ،تم بھی تو جانتی ہو انہیں، اپنے بیٹے کے ہمراہ تمہارا ہاتھ مانگنے آئے ۔ان کے بیٹے کا نام راحم ہے۔ حال ہی میں پڑھائی مکمل کرکے آیا ہے۔ بس تم انکار کرکے ہماری پریشانی میں اضافہ مت کرنا۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں باوضو ہو کے جائے نماز بچھائو اور شکرانے کے دو نوافل ادا کرو۔ مشکل سے خو شی نے آج ہمارے یہاں دستک دی ہے ۔‘‘ یہ کہتے کہتے امی چل دیں۔ ( افسانہ ۔’’دستک‘‘۔ صفحہ ۔۷۹)نجمہ بھی راحم کو پسند کرتی تھی۔ اس لئے اس رشتے سے اسے کب انکار ہوتا۔ وہ اندر اندر خوش تھی بکہ اسے اب اپنے کنبے کے لئے قربانی کا صلہ ملنے والا تھا۔
ہمیں امید قوی ہے کہ افسانوی مجموعہ’’دستک ‘‘کے دوسرے افسانے ’’گُل، اجنبی عورت، رنجش ہی سہی ، اپنوں میں اپنے کی تلاش  ودیگر بھی آپ کے ذوق مطالعہ کی تشنگی کو دورکرنے میں کامیاب ہونگے۔اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ نیلو فر کا قلم تیز رفتاری سے اپنی منزلوں کی سمت بڑھے تاکہ اس سے بھی عمدہ افسانے قارئین تک پہنچ سکے۔
رابطہ ۔ 9832913500