خود اعتمادی،خود شناسی و خود ضبطی کامل زندگی کی نشانی خوشحال زندگی بسر کرنے کے لئے نیک نیتی لازمی

ندیم خان،بارہمولہ
تکلیف انسان کو سبق سکھاتی ہے جو ساری زندگی یاد رہتا ہے۔ انسان تکالیف اُٹھاتا رہتا ہے، سبق سیکھتا جاتا ہے اور ہر تکلیف سے کچھ نہ کچھ حاصل کرتا جاتا ہے حتٰی کہ کچھ عرصے بعد اُنہی تکالیف کے باعث ایک باشعور و تجربہ کار انسان بن جاتا ہے، جبکہ خوشیاں کھوکھلی ہوتی ہیں۔ یہ انسان کو کچھ نہیں دیتیں بلکہ اگر انسان کا خود پر قابو نہ ہو، مناسب رہنمائی اُسے میسر نہ ہو تو خوشیاں انسان کو گمراہ بھی کرجاتی ہیں۔ لہٰذا پھول کی نرم و نازک ناپائیدار پتیاں کس کام کی؟ اصل تو کانٹے ہیں جو انسان کو شعور کی دولت سے مالامال کر دیتے ہیں۔ پھر یہ سرمایہ عمر بھر کام آتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کی تربیت کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے۔
زندہ تو ہم سب ہیں مگر کیا واقعی محض زندہ رہنے کو زندگی کہا جاسکتا ہے؟ کیا زندگی سانسوں کا تسلسل سے بڑھ کر کچھ نہیں؟ ہم کسی دور افتادہ مقام کو چھوڑیں، محض اپنے ہی ماحول میں موجود لوگوں کا معروضی طریقے سے جائزہ لیں گے تو اندازہ ہوگا کہ بہت سے ہیں کہ محض جیے جارہے ہیں اور اِسی کو زندگی سمجھ کر خوش ہیں۔ بات اگر محض خوش رہنے تک محدود ہوتی تو خیر کوئی بات نہ تھی۔ مشکل یہ ہے کہ جو لوگ خود کو عضوِ معطل بنائے ہوئے ہیں اُن کے ہاتھوں دوسروں کے لیے بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اُنہیں جو کچھ کرنا چاہیے وہ اُن سے ہو نہیں پاتا اور یوں بہت سے معاملات میں صرف اور صرف خرابی سامنے آتی ہے۔ شخصی ارتقا کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان پورے ہوش و حواس کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ جب انسان اپنے ماحول سے بھرپور مطابقت رکھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے تب وہ اپنی خواہشات اور سکت کے مطابق بہت کچھ کرنے کے قابل بھی ہو پاتا ہے۔ آپ نے اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو لگے بندھے انداز سے جی رہے ہیں۔ اُنہیں کسی بھی واقعے یا سانحے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے معمولات متاثر نہیں ہوتے۔ وہ تبدیلی کو پسند نہیں کرتے۔ اُن کی بھرپور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی جس طور چل رہا ہے بالکل اُسی طور چلتا رہے۔
آپ نے اکثر ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جنہیں عموماً کسی نہ کسی معاملے میں فکریں لاحق رہتی ہیں۔ وہ زیادہ تر یہی سوچتے ہیں کہ معاملات بگڑنے والے ہیں۔ گویا تشویش ایک ذہنی رویہ ہے جو ہمیں معاملات کے سلسلے میں ڈرائونی فکروں سے دوچار رکھتا ہے۔ اس دور میں عام آدمی اس مرض کا خصوصیت سے شکار دکھائی دیتا ہے۔ تشویش آدمی میں کئی ذہنی اور جسمانی علامتیں ابھارنے کا سبب بنتی ہے۔ ان باتوں کے علاوہ اس کے ذہن میں ’’خوف‘‘ جاگزیں ہوجاتا ہے، اور یہ خوف بے حد پریشان کن ہوتا ہے۔ اس سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے خیالات کو خود ہی روکنے کی کوشش کرتا ہے، اوپر سے وہ پُرسکون نظر آنا چاہتا ہے مگر اس کے اندر خوف (تشویش) بڑھتا جاتا ہے۔ تشویش سے نجات حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کریں:
زندگی میں کچھ بھی پرفیکٹ یعنی کامل نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اسے بنانا پڑتا ہے، ـ بالکل اسی طرح کسی کی بھی زندگی آسان نہیں ہوتی، اس کو آسان بنایا جاتا ہے۔ ـ ہم اپنی سوچ اور اپنے عمل سے کئی معاملات کو بہتر انداز میں حل کر سکتے ہیں، لہٰذا صبر و تحمل’ برداشت اور نظر انداز کرنے کی عادت کو اپنانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ـ زندگی کے امور اور روزمرہ کے دیگر معمولات اپنی نوعیت میں پیچیدہ ہوتے ہیں، ـ کسی کے لیے بھی زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا۔ ـ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی جگہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنے حالات و واقعات کے مطابق تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ ـ ایک دن میں ہم کئی کام کرتے ہیں پھر اگر یہ سوچا جائے یا توقع کی جائے کہ تمام کام ہماری مرضی سے سرانجام پائیں گے تو ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔ـ حالات ہمارے قابو یا کنٹرول میں نہیں ہوتے ۔ہاں! ہماری سوچ ہمارے اپنے اختیار میں ضرور ہوتی ہے ـ جب ہم مثبت سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن و دماغ اور جسمانی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری کارکردگی میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ ـ اس کے برعکس جب ہم منفی سوچتے ہیں صرف مسائل کے بارے میں غور کرتے ہیں، ان کو خود پر حاوی کر لیتے ہیں، اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کرتے ،ہر وقت حالات اور قسمت کو کوستے رہتے ہیں تو ہم ایک ہی نقطہ پر اڑ جاتے ہیں یا ہماری سوچ منجمد ہو جاتی ہے یا ہم خود کو ایک دائرے میں محدود کر لیتے ہیں، پھر اس سے باہر نہیں نکل پاتے ـ جب تک ہم اپنے اردگرد اُس بے ساختہ لکیر کو عبور نہیں کر پاتے۔ ہم خود کو مظلوم اور بے چارہ ہی تصور کرتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں پاتے اور نتیجہ میں وہی بے بسی مظلومیت ناکامی’ ڈر خوف اور فرسٹریشن ہی ہمارا مقدر بنتی ہے جو ہمیں اپنے جال میں جکڑ لیتی ہے۔ ـ نامساعد حالات میں ہمت ہارنے کی بجائے ہمیں چاہئے کہ ان مسائل کو کھلے دل سے قبول کریں کیونکہ ہمارے پاس کوئی متبادل راہ نہیں ہوتی تو پھر ان کو دیکھنے کا زاویہ بدل لیں، ـ اپنی ہمت اور طاقت کو یکجا رکھیں ،اپنی صلاحیتیں اور قوت ان مسائل کے حل پر لگائیں نہ کہ جلنے اور کڑھنے پر اپنی توانائیاں ضائع کی جائیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات معمولی ہوتی ہے لیکن اس کا حل ہمارے ذہن میں نہیں آتا یا ہماری سوچ اس وقت کام نہیں کرتی، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی سوچ اور علم و معلومات کے مطابق بہتر فیصلہ کرتے ہیں لیکن اس کے نتائج صحیح نہیں آتے یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ـ ایسی صورتحال میں ہمیں کسی تجربہ کار ساتھی سے مشورہ کر لینا چاہئے اور سکون سے بیٹھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہئیے کہ کہاں ہم سے غلطی سرزد ہوئی ہے یا کہاں پر ہم بہتری لا سکتے ہیں۔ ـ پریشان ہو کر غصہ کر کے ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں ـ تھک گئے ہیں تو تھوڑا آرام کر لیں دوبارہ سے حکمتِ عملی تیار کریں پھر پوری قوت سے زور لگا دیں ـ ناکامی کا سامنا ہو گیا، ٹھوکر لگ گئی، گر گئے، اپنا نقصان کر بیٹھے ہیں تو کوئی بات نہیں ،اٹھیں، ہمت اور توانائی کو یکجا کریں منہ ہاتھ دھوئیں، ہاتھ اور کپڑے جھاڑیں اور پھر سے نئے محاظ پر نکل کھڑے ہوں ـ۔
یہی کامیاب زندگی کا راز ہے ـ ،مسائل کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں ـ درپیش مسائل اور حالات کا مقابلہ ہمیں ٹھنڈے دماغ سے کرنا چاہئے تاکہ غلطی کے امکانات کو ممکنہ طور پر کم کیا جا سکے ۔اس کے علاوہ جذبات اور جلد بازی میں ہم غلط فیصلہ کر بیٹھتے ہیں جس کا خمیازہ بہرحال ہمیں بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔ـ غلطیاں کرنا فطری عمل ہے لیکن ان کو دہرانا نہیں چاہئے بلکہ ان تجربات سے سیکھتے ہوئے مستقبل میں بہتر حکمتِ عملی تیار کرنی چاہئے۔ ـ جب تک ہم ہاتھ پاؤں نہیں ماریں گے، تجربات نہیں کریں گے ،ہمیں کیسے علم ہو گا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے ـ۔
آج ہر انسان مختلف محاذوں پر چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ جب تک دم میں دم ہے، قدم قدم پر چیلنج رہیں گے۔ ہمیں اِن چیلنجز سے بہ طریقِ احسن نمٹنے کا طریق سیکھنا ہے۔ کسی بھی بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ پُرسکون ہوں، دل اور دماغ دونوں پر کوئی بوجھ محسوس نہ کریں۔ آپ جس قدر پُرسکون رہیں گے، مشکلات کا سامنا کرنے میں اُتنی ہی آسانی رہے گی۔ یہ سب کچھ بیدار مغز رہنے کی حالت کا حصہ ہے۔ مشکلات سے گھبرانا نہیں ہے بلکہ اُن سے نجات کا طریقہ سوچنا اور اُس پر عمل کرنا ہے۔ کس نے تکلیف پہنچائی ہے اور کون تنقید کرتا ہے یہ سوچنا آپ کا کام نہیں۔ نہ آپ یہ سوچیں کہ کوئی آپ کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے اور نہ ہی یہ سوچیں کہ کون کیسا یا کیسی ہے۔ آپ کی توجہ صرف اپنے کام پر ہونی چاہیے۔ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ بس حاضر دماغی کو گلے سے لگائے رکھنا ہے۔ اگر آپ حق پر ہوں گے، ذہنی صحت کے حامل ہوں گے تو کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ زندگی کا حقیقی لطف پانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ یہ کہ زمانۂ حاضر میں زندگی بسر کیجیے۔ ایک ایک پل کا مزا لیجیے، ناکارہ خیالات اور بے بنیاد اندیشوں سے دور رہیے۔ تو پھر آج اور ابھی طے کیجیے کہ آپ پورے ہوش و حواس کے ساتھ زندگی کا لطف پانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اس معاملے میں کوئی بھی رکاوٹ قبول اور برداشت نہیں کریں گے۔ ایک اور کام کی بات۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جُوں جُوں انسان بڑا (یعنی بوڑھا) ہوتا جاتا ہے، لوگوں سے اُس کا اعتماد اور اعتبار اٹھتا جاتا ہے۔ ڈھلی ہوئی عمر میں وہ چند ہی لوگوں پر بھروسا کرتا ہے۔
رابطہ/ 6005293688