نور و تجلّی:جہل و ظلمات کا تریاق تجلیات ادراک

ڈاکٹر عریف جامعی
  کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
  مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
جنت بریں سے زمین کی طرف انتقال کے ساتھ ہی ’’روح ارضی آدم کا استقبال‘‘ کرکے اسے اپنی چشم بصارت سے کام لیکر اپنے پورے ماحول کا جائزہ لینے کا مشورہ دیتی ہے۔ واضح رہے کہ عالم رنگ و بو میں چشم بصیرت اس وقت صحیح انداز میں کام کرسکتی ہے جب بصارت کے لئے ضروری تمام مادی ذرائع کا استعمال کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم مادی میں مجرد بصیرت کام نہیں کرسکتی۔ بصیرت اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتی ہے جب انسان بصارت کا استعمال کرکے حاصل ہونے والی معلومات کی تحلیل اور تجزیہ کرنے کے قابل ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ یہ معلومات انسانی حواس تک روشنی یعنی نور کے ذریعے ہی منتقل ہوسکتی ہے اور کرۂ ارض کے لئے نور یعنی روشنی کا بڑا ذریعہ آفتاب ہے۔یعنی آفتاب انسان کے لئے کائنات کو دیکھنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اس طرح یہ ایک ایسا آلہ ہے جو ایک طرف اپنی تپش (توانائی) سے نباتات کی نشوونما کا سامنان کرتا ہے اور دوسری طرف اپنے نور سے ہر شئے کو منور کرتا ہے۔
یہاں پر اس بات کا واضح رہنا ضروری ہے کہ یہ روشنی کی ظاہری یا مادی جہت ہے جو مادی قوانین کی رہین منت ہے۔ روشنی کی یہی جہت ہر مخلوق کی طرح انسان کی بصارت کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اشیاء کو دیکھ سکے۔ علم بصریات (اوپٹکس) میں بطلیموس (ٹالمی) اور اِقلیدس (یوکلڈ) کے برعکس اس بات کا پہلی بار اظہار ابن الہیثم نے ’’کتاب المناظر‘‘ میں کیا۔ یعنی انہوں نے اس بات کو محسوس کرکے اس کا اظہار کیا کہ روشنی آنکھ سے منعکس نہیں ہوتی بلکہ یہ آنکھ کی طرف منعطف ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں آنکھ اشیاء کو دیکھ پاتی ہے۔ اس طرح نور کی یہ مرئی یا مادی جہت کائنات میں چھپے مادی حقائق کو آشکار کرتی ہے۔ یعنی اگر یہ نور نہ ہوتا تو ان حقائق پر پردہ پڑا رہتا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں کائنات میں ظلمات (اندھیروں) کا دور دورہ رہتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ انسانی معاشرہ کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوتا اور انسان بھی اسی قسم کی زندگی گزارتا، جس طرح باقی مخلوقات زندگی گزارتی آئی ہیں۔تاہم نور کی ایک غیر مادی یا غیر مرئی جہت بھی ہے جو دلوں کو روشن کرتی ہے اور فہم و فراست اور عقل و شعور کو جلا بخشتی ہے۔ اس طرح سے نور کی یہ جہت انسان کے لئے بصارت کے بجائے بصیرت کے در وا کرتی ہے۔ مادی دنیا (عالم صغیر) کے لئے جس طرح آفتاب نور کی ضو فشانی کرتا ہے، بالکل اسی طرح انسان کی نفسیاتی اور روحانی دنیا (عالم کبیر) کے لئے روشن دل تنویر و تجلّی کا سامان کرتا ہے۔ تاہم جس طرح آنکھیں بند کرنے والے شخص کے حصے میں نصف النہار کے وقت بھی تاریکی کے بغیر کچھ نہیں آتا، بالکل اسی طرح دل کے دریچوں کو نور کے لئے بند کرنے والا شخص بھی اپنی شخصیت کو ظلمات یعنی اندھیروں کی نذر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے لئے علم نافع کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں اور وہ اندھیروں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کا فرمان ہے: ’’بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘ (الحج، ۴۶)
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مادی سطح پر چیزوں کو دیکھنے کے لئے جہاں بصارت کا صحیح و سالم ہونا لازمی ہے، وہیں اس چیز پرجس کا مشاہدہ مقصود ہوتا ہے، روشنی پڑنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس چیز کا مشاہد کی آنکھوں کے سامنے ہونا بھی مشاہدے کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ ان ضروریات میں سے کسی ایک ضروری چیز کی عدم موجودگی مشاہدے کے امکانات کو ختم کرتی ہے۔ نتیجتاً مشاہدے سے ممکنہ علم کے دروازے مسدود ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم الیقین کو عین الیقین کے درجے تک پہنچانے کے لئے نور یا روشنی کی موجودگی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہم استنباط کے ذریعے بھی علم حاصل کرتے ہیں، لیکن معلوم سے نامعلوم کے بارے میں علم حاصل کرنے کا یہ سفر بھی نور کا رہین منت ہے۔ علم الیقین کے لئے مخبر کی خبر کا دارومدار بھی نور ہی پر ہے۔تاہم علم کے اعلی ترین درجے یعنی حق الیقین تک پہنچنے کے لئے بصارت کے حدود سے آگے غیر مادی دنیا کے حقائق کا مشاہدہ بصارت کے بجائے چشم بصیرت سے کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں انسان کو علم کے غیر مادی ذرائع میں سے پہلا ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذریعہ، جسے فراست کہتے ہیں، خواس خمسہ سے ماوراء ہے، لیکن غیر مادی ذرائع میں سے پہلا ذریعہ ہے۔ عام فہم زبان میں اس ذریعے کو ’’تاڑ جانا‘‘کہتے ہیں۔ کوئی منفی رائے قائم کیے بغیر اسے بھانپ لینا، جان لینا یا کسی خارجی مدد کے بغیر قیاس کرکے صحیح نتیجے پر پہنچنا کہہ سکتے ہیں۔ یہ ذریعہ ہر انسان کو علم کی مہارت اور کثرت تجربہ سے کم یا وافر مقدار میں حاصل ہوتا ہے۔ تاہم ایک مؤمن کے لئے یہ ذریعہ تزکیہ اور طہارت کے بعد ایک خاص صورت اختیار کرلیتا ہے۔ مؤمن پر اللہ کی خاص عنایت کو ایک حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے: ’’اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنوراللہ، مؤمن کی فراست سے ڈرو، بیشک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ (الترمذی) صاف ظاہر ہے کہ ایسا علم خدا کی خصوصی عنایت کے بغیر ممکن نہیں۔ مؤمن کو یہ عنایت غیر مادی روشنی یعنی نور کی صورت میں حاصل ہوتی ہےجو اس کے لئے الجھے ہوئے مسائل کو سلجھا دیتی ہے۔
علم کے دوسرے غیر مادی ذریعے یعنی حدس میں بھی نور کی کسی نہ کسی طرح کارفرمائی ضرور ہوتی ہے۔ یہاں جس بات کا دریافت کرنا مطلوب ہوتا ہے، وہ مع دلیل و ثبوت یک دم (فلیش آف لائٹ یا تجلّی کی طرح) ذہن میں آجانی ہے۔ حدس کے ابتدائی مقدمات ذہن اور عقل ہوتے ہیں۔ انہی میں غور و فکر اور تلاش و ترتیب سے انسان نہایت تیزی کے ساتھ نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ خود نتائج اخذ کرنے والے کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس نتیجہ کے حاصل کرنے میں اس نے کوئی دماغی عمل کیا ہے یا نہیں۔ یہ چیز بھی اکثر کامل العقل اور صائب الرائے انسانوں کو فطرتاً عطا ہوتی ہے۔ حدس علم کے مقابلے میں نفوس کاملہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
حدس کے بعد کشف کا درجہ آتا ہے۔ انسان کے نیک اعمال اور حسن اخلاق کے باعث مادیت کے ظلمانی پردے چاک ہوجاتے ہیں اور مادی اشیاء روحانی عالم میں مشاہدہ کے طور پر نظر آنے لگتی ہیں۔ زیادہ تر ان کا حصول رؤیا اور خواب میں ہوتا ہے، تاہم ایک حالت سونے اور جاگنے کے درمیان بھی ہوتی ہے، جس میں صاحب کشف کے حواس سونے والے کی طرح بیکار ہوجاتے ہیں اور رؤیا کی حالت بیدار ہوجاتی ہے اور حواس کا تعطل بے شک اختیار نہیں ہوتا، اگرچہ اس کو حاصل کرنا کسبی اور اختیاری امر ہے۔ کشف کرنے والا شخص کھلی یا بند آنکھوں سے کشف کرنے پر قادر ہوتا ہے، تاہم یہ کشف کرنے والے کے مراتب و مقامات پر منحصر ہے۔ کشف کی سو سے زائد اقسام ہیں، کشف کرنے والے کا مادی جسم دنیا میں اپنی جگہ پر متمکن ہوتا ہے، جبکہ تخیل کی پرواز اس کو کسی بھی جگہ لے جا سکتی ہے۔ کشف کے لغوی معنی ’’کھولنے‘‘ اور ’’پردہ اٹھانے‘‘ کو دیکھتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشف بھی اسی کے دل و دماغ کو ہوتا ہے جو تجلّئ الہٰی سے منور ہوچکا ہوتا ہے۔
غیر مادی ذرائع علم کا چوتھا ذریعہ الہام ہے۔ الہام سمجھا دینے اور دل میں کوئی بات القاء کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ الہام کے اصل معنی نگلنے کے ہیں۔ چونکہ الہام میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے دل میں ایک بات اتاری جاتی ہے، اس وجہ اس کا نام الہام ہوا۔ لیکن یہ لفظ ایسی بات کے القاء کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے جو اللہ تعالیٰ یا ملا اعلیٰ کی جانب سے کسی کے دل میں ڈالی جاتی ہے ۔ الہام میں مرد اورعورت کی تخصیص نہیں۔ موسی علیہ السلام کی والدہ کو موسی علیہ السلام کی حفاظت اور سلامتی کے متعلق الہام خداوندی ہوا تھا، جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ اسی طرح عیسی علیہ السلام کے حواریوں کو بھی الہام ہوتا تھا۔ الہام سوتے اور جاگتے دونوں حالتوں میں ہو سکتا ہے۔ لیکن صرف خدا کے برگزیدہ بندوں کو ہی ہوتا ہے۔ اس لئے صفائی قلب، اعمال حسنہ اور یقین کی درستی کے ساتھ تائید و توفیق الہٰی ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ الہام بھی نور کے ساتھ ہی منسلک ہے۔ الہام اسی دل پر اترتا ہے جو زکیٰ اور صفا کی صفات سے متصف ہوا ہو۔
وحئ الہٰی غیر مادی ذرائع علم کا اعلی ترین درجہ ہے، جو فقط انبیاء کرام علیہم السلام کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ ذریعہ کسی طور پر بھی کسبی نہیں ہے، بلکہ یہ سر تا سر  وہبی اور لدنی ذریعۂ علم ہے۔ اس میں وحئ الہٰی کا مہبط اسی شخصیت کا دل بنتا ہے جسے رب تعالیٰ چنتا ہے۔ غیر مادی روشنی یعنی نور کی اعلی ترین شکل ہونے کی وجہ سے اس (وحی) کا نزول نوری مخلوق یعنی فرشتے کے ذریعے ہوتا ہے۔ اسی لطیف ذریعے سے تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے ربانی منصوبے کا صحیح ترین علم انسانیت کے پاس پہنچتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس تخلیق کا تعارف وحی کے ذریعے مل کر ہی ذات خداوندی، جس کا مشاہدہ اس دنیا میں ممکن نہیں، کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا موسیٰ کی التجائے ’’ارنی، اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے‘‘کا جواب ’’لن ترٰنی، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے‘‘ کی صورت میں آتا ہے اور سیدنا موسیٰ کو تجلئ رب پر قناعت کرنا پڑتی ہے، (الاعراف، ۱۴۳) دوسری طرف تورات (المائدہ، ۴۴) اور انجیل (المائدہ، ۴۶) کو نور کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسی نور کی تکمیل یعنی قرآن کو ’’نور مبین‘‘ (النسا، ۱۷۴) کہا گیا ہے۔ اور اس حتمی نور کو عالمگیریت اور ابدیت بخشنے والے پیغمبر یعنی رسالتمآب ؐ کو ’’سراج منیر‘‘ (روشن چراغ؛ الاحزاب، ۴۶) کہا گیا۔
ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائے حق یعنی اسلام پر لبیک کہنے والا شخص اپنے آپ کو نور پر استوار کرتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’جس کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کے لئے کھول دیا، پس وہ اپنے پروردگار کی طرفسے ایک نور پر ہے۔‘‘ (الزمر، ۲۲) انہی نفوس قدسیہ کو رب تعالیٰ ’’ظلمات‘‘ (اندھیروں) سے نکالتا ہے اور ’’نور‘‘ (اجالے) میں داخل کرتا ہے۔ (البقرہ،  ۲۵۷) یہ لوگ اپنی استعداد میں کچھ اس طرح اضافہ کرتے ہیں کہ ’’لوگوں کے درمیان نور کی بنیاد پر چلتے ہیں۔‘‘ (الانعام، ۱۲۲) یہی لوگ پوری تخلیق (آفاق) میں اللہ کا ’’نور ہدایت ‘‘محسوس کرتے ہیں اور ’’نور ایمان‘‘ کے ساتھ مل یہ ’’نور علیٰ نور‘‘ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ (النور، ۳۵) اس نور کی تکمیل کی دعا یہ اس دن کے لئے، جب زمین خدا کے نور سے چمکے گی (الزمر، ۶۹)، کچھ اس طرح کرتے ہیں: ’’اے ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا فرما۔‘‘ (التحریم، ۸) اس نور کی بدولت جو ان کے ’’سامنے اور دائیں دوڑ رہا ہوگا (التحریم، ۸) یہ لوگ اپنے رب کا دیدار کچھ اس طرح کریں گے کہ ان کے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے (القیٰمہ، ۲۲) اور اپنے پروردگار کو اس طرح (بغیر کسی مشکل کے) دیکھ رہے ہوں گے جس طرح (بلا کیف ولا تشبیہ) دوپہر کے وقت آفتاب کو اور چودھویں کے چاند کو دیکھا جاتا ہے۔ (متفق علیہ) بقول اصغر گونڈوی:
دعوئ دید غلط دعوئ  عرفاں  بھی  غلط   کچھ تجلّی کے سوا چشم بصیرت میں نہیں
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ 9858471965