نوجوانوں میں احساسِ محرومی کارجحان

یہ بات اب زبان زدِ عام ہے کہ ہماری نوجوان نسل احساسِ محرومی میں مبتلا ہوکر فرسٹریشن کا شکار ہوگئی ہے اورمعاشرے میں معاشی عدم توازن نے نوجوان کا ذہن باغیانہ بنادیا ہے۔ غریب طبقے کے نوجوان امیر طبقے کے نوجوانوں کی عیش و عشرت کی زندگی دیکھ کر حسد کی بھٹی میں دہکنے لگتے ہیں اور یہ محرومی ان کو بغاوت پر اُکساتی ہے۔ جو اُنہیں نہیں مل رہا ہے، اُسے وہ چھین لینے کے چکر میں غلط راستوں پر نکل جاتے ہیں۔ بعض نوجوان راہ فرار کے لیے منشیات کا استعمال کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کے اندر کا غصّہ ٹھنڈا ہو رہا ہے یعنی وہ اپنے آپ کو جسمانی اذیت دے کر اپنی ذہنی اذیت کوکم کر دیتے ہیں۔بغور دیکھا جائےتو نوجوان کسی بھی ملک و معاشرہ کی معاشی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقّی میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے،کسی بھی معاملے اُن کی رائے کو مسترد کر دیا جائے تو اُن میں بغاوت کا جذبہ اُبھرنا قدرتی امر ہے۔ اُن ہی کے بارے میں فیصلے کیے جائیں اور اُنہیں ان فیصلوں میں شامل نہ کیا جائے تو پھر نوجوان کی اَنّا کو تو وٹھیس پہنچے گی ہی۔ ایسے میں وہ اپنے لئے صحیح راستہ متعین نہیں کر پاتا اور ایسے عوامل کا مرتکب ہو جاتا ہے جو اُسے تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں۔ چنانچہ جرائم ِمافیا گروہ تو ایسے نوجوانوں کی تاک میں ہوتے ہیں ،جو اُنہیں بآسانی جرائم کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک زمانہ تھا ،جب اسکولوں، کالجوں میں کھیل کے میدان ہوتے تھے، جہاں کھیلوں کے مقابلے منعقد کئے جاتے تھے۔ اس میں ہر طبقے کے بچّے شامل ہوتے تھے۔ ان کھیلوں کے ذریعے صبر و برداشت، حوصلے، مقابلہ کرنے کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں غیرنصابی سرگرمیاں جیسے بیت بازی، تقریری مقابلے، مضمون نویسی وغیرہ ہوا کرتے تھے۔مگر نہ معلوم کیوں یہ سب سرگرمیاں ختم کردی گئیں،جن کے ذریعے نوجوان اپنا مدعا و مقصد بیان کرتے رہتے تھے۔در حقیقت نوجوانوں کے بگڑنے یا باغی ہونے کے پیچھے کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ بے شمار وجوہ ہیں۔ سب سے پہلے تو خاندانی ماحول ہے، اگر والدین بچوںسے غفلت برتیں یا حد سے زیادہ محبت کریں تو اس سے بھی بچّے ہٹ دھرم اور ضدّی ہوجاتے ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ ماحول سے بے زار اور باغی ہونے لگتے ہیں۔ دُوسری چیز’’ اکیڈمک پریشر‘‘ ہے۔والدین کو بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو جانچے بنااُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اے گریڈ لائیں لیکن جب ن کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو والدین اُن پر طنز کرتے اور ایسا رویہ اپناتے ہیں جو بچوں کو باغی کر دیتے ہیں۔کچھ نوجوان اِسی سبب خودکشی بھی کرلیتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ جب نوجوان پڑھ لکھ کر ڈگری ہاتھ میںلیتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں کئی خواب ہوتے ہیں۔ پہلا خواب تو ملازمت کا حصول ہوتا ہے، جس کے لیے وہ جگہ جگہ انٹرویو دیتے ہیں، مگر جس کے پاس سفارش اور رشوت دینے کے لیے رقم نہ ہو تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں، جس کے باعث وہ فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں،ان کے اندر انتقام اور نفرت کا جذبہ جنم لیتا ہے اور وہ اپنے معاشرتی نظام سے باغی ہو جاتے ہیں۔ بغاوت کے پیش نظر معاشرے سے انتقام لینے کے لئے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں،جن سے معاشرہ بُری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ شائد اسی وجہ سے دن بہ دن جرائم بڑھ رہے ہیں۔ایک اور باغیانہ رُجحان کا بنیادی عنصر’’ جنریشن گیپ‘‘ ہے۔بزرگ، نوجوان سے شاکی اور نوجوان بغاوت پر آمادہ رہتے ہیں۔ یہ وہ ذہنی فاصلہ ہے ،جہاں دونوں ایک ہی چیز کو مختلف زاویۂ نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہر نئی نسل پچھلی نسل سے آگے ہوتی ہے، نظریات میں ،فیشن میں، تعلیم وغیرہ میں۔ہم بھی اپنے بزرگوں کے لحاظ سے مختلف تھے۔ ہماری بعض باتیں اُنہیں پسند نہیں تھیں، پھر ہم سے جو اگلی نسلیں آئیں تو اُن کی بہت سی باتیں ہم پسند نہیں کرتے۔ معاشرے میں جو ہمہ گیر تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں، ہمیں ان سے جُڑ کر دیکھنا چاہیے۔ حد سے زیادہ نکتہ چینی اور تنقید بھی نوجوانوں کو متنفّر کر دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ہم نوجوانوں کے مسائل کو نہیں سمجھیں گے، اُن کا غصّہ بڑھتا چلا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ کونسلنگ سینٹربنائیں جہاں نوجوان اپنا اظہار کرسکیں۔ ایسے پروگرام بنائیں جس میں شامل ہو کر وہ اپنے ہنر کو سامنے لائیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اولاد کو وَقت دیں، ان کے مسائل کو سُنیں، سمجھیں اور حل کریں۔ اس کے لئے مشترکہ طور پر سماجی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی لحاظ سے ازسرِ نو اصلاح کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہم نوجوانوں کے احساسات و جذبات کو مثبت سوچ دے سکیں گے۔
����������������