نسلِ نو پر صرف تنقید ہی کیوں؟

ارم فاطمہ

موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو جہاں ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی کے خدوخال بہت حد تک بدل چکے ہیں وہیں نوجوان نسل کی سوچ اوران کا زندگی گذارنے کا نظریہ بھی کافی حد تک بدل چکا ہے۔ انہیں اپنی روایات کا پاس نہ رکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ یہ ضروری تونہیں کہ جو والدین اور دوسرے لوگوں کی جوسوچ ہواور زندگی گذارنے کا نظریہ ہو ،وہی سوچ ، وہی نظریہ نوجوان نسل کا بھی ہو۔ انہیں بھی سننا چاہیے،ان کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ ان کی سوچ، ان کی رائے جانے بغیر ان سے توقعات وابستہ کرنا اور پورا نہ ہونے پر اُن پر تنقید کرنا کیسےصحیح ہوسکتا ہے۔
آج کل کی معاشرتی زندگی میں نوجوان نسل جہاں روزمرہ کے مسائل سے دوچار ہے ،وہیں اپنوں کے رویے بھی ان کے لیے تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف ان کی زندگی پر پڑرہا ہے بلکہ معاشرہ بھی متاثر ہورہاہے۔بات یہ نہیں ہے کہ آج کی نسل اپنے بڑوں کی بات نہیں مانتی، ان سے لاتعلق ہوتی جارہی ہےیاانہیں ،اُن کی فکر نہیں ، یہ بڑے ہی ہیں جو انہیں اپنی رائے کے اظہار کا موقعہ نہیں دیتے ، ان کی سنتے نہیں ہیں۔
جن باتوں اور رویوں کو ہمارے بڑے اہم سمجھ کر اپنی زندگی پر طاری کر لیتے ہیں، انہیں ہر وقت موضوع سخن بنائے رکھتے ہیں، ان سے پریشان رہتے ہیں اور زندگی کے ان ہی پہلوؤں پر سوچتے رہتے ہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں کیا رائے قائم، کیاعیب جوئی کی۔ لیکن نسل نو کے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ ان باتوں ، سوچ سے باہر نکلیں۔ اپنے رویے بہتر کریں،کسی کے لیے بُرا نہ سوچیں، حتی الامکان عیب جوئی کرنے سے بچیں،اُن کی یہی سوچ تو ہے جو وہ کبھی سوشل میڈیا پر نئے رجحانات کی بات کرتے ہیں۔
کم و پیش ہر نوجوان اپنی معلومات میں اضافہ کرتا اور دوسروں سے اپنے خیالات شیئر کرتا نظرآرہا ہوتا ہے۔ سب کا ذہنی رجحان مختلف ہوتا ہے۔ کسی کو بزنس کے نئے آئیڈیازمیں دلچسپی ہے تو کسی کو انگلش لٹریچرپسند ہے یہ سب دیکھ کر اُن کی گفتگو سن کر اندازہ ہوتا ہےکہ ان کی دنیا اورہے، بڑوں کی دنیا توصرف لوگوں کے ان رویوں کی بدصورت تصویروں سے بھری پڑی ہے جو ہمیں نہ صرف جسمانی طور پر کمزور کردیتے ہیں بلکہ اخلاقی طور پر کہیں نہ کہیں ان کے جیسے ہوجاتے ہیں۔ لیکن نوجوان نسل میں یہ رویے دیکھنے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
ان کی مثبت سوچ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیا۔ آج کی نوجوان نسل پر تنقید کرکے انہیں ذہنی دباؤ کا شکاربنارہے ہیں۔ مثلاًوہ تعلیمی میدان میں کامیاب نہیں ہیں اور اگر تعلیم مکمل ہوگئی ہے تو بے روز گار ہیں، کسی بلند مقام پر کیوں نہیں ہیں۔ تنقید اگر اصلاح کے نقطہ نظر سے ہو تو تنقید میں ہمدردی ہوتی ہے لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ لوگ تنقید میں اعتدال و توازن برقرار نہیں رکھ پاتے، یہ انداز ، یہ سوچ ختم ہونی چاہیے۔
کم از کم ان کو سراہنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے کہ ان کی مدد کریں۔ تنقید کا مقصد کسی دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں ہونا چاہیے بلکہ تعمیری طور پر علم سیکھنا اور اسکو آگے بڑھانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ نوجوان نسل کو پالش کرنا اور کام کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے، تاکہ اُن کی عملی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔
پہلے والدین بچوں کے لیے پروفیشن کا انتخاب کرتے تھے۔ ان کا تجربہ اور رہنمائی اُن کے لئے مشعل راہ ہوتی تھی، مگر جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور وقت کے تقاضے بدلتے گئے، ویسے ویسے نسل نو کی سوچ بھی بدلتی گئی۔
آج کی نسل جدید رجحانات سے آشنا ہے اور وہ اسی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں، جس میں ان کی دلچسپی ہوتی ہے، جو ان کے مستقبل کے لئے بہترین ثابت ہو سکتی ہے اسی لیے وہ متعلقہ شعبے میں اپنی مہارت کو بڑھانے کے لئے آن لائن کورسز بھی کر تے نظر آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نئی ویب سائٹس تلاش کرکے آمدنی کے ذرائع ڈھونڈ رہے ہیں۔
آج کے نوجوان میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ انہیں کسی نہ کسی میدان میں محنت کرکے اپنے قدم جمانےہوں گے۔ بیش تر نوجوان اپنے آپ کو بے مصرف اور بے کار مشاغل میں ضائع کرنے کی بجائے اسے تعمیری مشاغل پر لگا رہے ہیں، چاہے وہ کمپیوٹر پروگرامنگ ہویا کوئی ٹیکنیکل ٹریئنگ۔ بلا شبہ یہی نوجوان ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، جنہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔