’نسلِ نو ‘میں بگاڑ کاخاتمہ کیسے ہوگا؟ ہمارا معاشرہ

رضوانہ وسیم

آج کل ہر جگہ ایک ہی موضوع زیرِ بحث ہے کہ نوجوانوں نے بے راہ روی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ معاشرے میں اِنتشار بدامنی بے چینی ہر چیز کی ذمہ دارنسلِ نو ہےلیکن کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیے۔ ہمیں نوجوانوں پر الزام عائد کرنے سے پہلےوالدین کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ،جب ہم حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں گے تو یقیناََ بہت کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ہم سب جانتے ہیں کہ بچہ پیدائشی طور پر نہ اچھا ہوتا ہے نہ بُرا، تربیت ہی اُسے بگاڑتی یا سنوارتی ہے۔ میں اپنی بات کرتی ہوں میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اُصولوں اور ضابطوں کے تحت زندگی گزارتے دیکھا اور یہی چیز اُنہوں نے ہم بچوں میں بھی منتقل کی۔گھر میں اگر ایک کمانے والا اور دس کھانے والے ہوتے تھے، تب بھی احسن طریقے سے گزارا ہو جاتا تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سےسب افراد کی دل چسپی مشترک ہوتی تھی۔ بچے اپنے تمام رشتوں سے فیض یاب ہوتے تھے۔

دورِ حاضر میں پیسے کی دوڑ اور آسائشوں کی طلب نے ہر انسان کو پرائیویسی کی لت میں مبتلا کردیا ۔جوائنٹ فیملی سسٹم آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔ لوگوں میں برداشت اور محبت کامادہ کم ہوتا چلا گیا، اب صرف میں اور میری اولاد کا رواج ہونے لگا۔ معاشرے میں مغربی دنیا کے طور طریقے شامل ہونے لگے جس کی وجہ سے زندگی بے ترتیبی کا شکار ہونے لگی۔ اگر ہم اپنا جائزہ لیں گےتو کیا ہم والدین بذاتِ خود اِن تمام چیزوں کے سحر سے نکلنے کو تیار ہیں؟یقیناً ہمارے لیے بھی یہ بہت مشکل کام ہے۔ جس زمانے میں نیا نیا وی سی آر آیا تھااور جس گھر میں وی سی آر ہوتا تھا،وہاں خاندان بھر کے لوگ ڈیرے ڈال لیتے تھے اور لگاتار فلمیں چلتی تھیں۔ پوری پوری رات جاگ کر اپنی صحت بھی تباہ کرتے رہے اور یہ بات بھول گئے تھے کہ ان کے ساتھ معصوم بچے اور نوجوان بھی ہیں۔ انہیں اس بات سےبالکل سروکار نہ تھا کہ بچوں پر ان چیزوں کا کیا اثر پڑےگا؟

والدین جو کام خود کر رہے ہوں، اس سے بچوں کو کیسے روک سکتے ہیں، لہٰذا بگاڑ یہیں سے شروع ہوگیا، اس کے بعد سونے پر سُہاگہ موبائل کا استعمال اتنی تیزی سے عام ہوا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب موبائل ہماری زندگی کا لازمی جُزو بن گیا؟ اس کی وجہ سے زندگی اور بھی مصروف ہو گئی۔ اولاد اور والدین دونوں نے اس جادوئی کھلونے سے خوب فیض حاصل کیا لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ والدین تو سمجھ دار تھے ،اچھی بُری بات میں تمیز کرسکتے تھے، لیکن بچوں کو اتنی سمجھ کہاں تھی، ان کو تو جو بھی چیز دلچسپ اور متاثر کن لگتی ،وہ اسے فوراً اپنا لیتے۔ والدین خود ویڈیوز دیکھنے میں مصروف رہتے ،اوراگر ان کو بھولے بھٹکے کبھی اولاد کی تربیت کا خیال بھی آتا، تو وہ ان کو اِس کام سے کیسے روک سکتے تھے، جو کام وہ خود کر رہے تھے ،اس طرح بچے بے لگام ہوتے چلے گئے ۔پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی جگہ 24گھنٹے اُن کے ہاتھوں میں موبائل رہنے لگا۔اِن حالات میں ہم نوجوانوں کو الزام کیسے دے سکتے ہیں، کیونکہ بگاڑ کا ماحول تو خود ہم نےیعنی والدین نے فراہم کیا اور مسلسل کر رہے ہیں تو پھر نوجوانوں سے شکایت کیسی؟

والدین سے گزارش ہے کہ اگرچہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے، پھر بھی ہمیں کوشش ضرور کرنی چاہیے۔کیوں کہ بچوں کی اچھی تربیت ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے، بہت کم والدین ہوتے ہیں، جن کی کہ بھرپور تربیت کے باوجود اولاد نیک نہیں ہوتی۔ اچھی تربیت بچوں پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے، اس کے لیے والدین کو اپنا دل مارنا پڑے گا۔ ان تمام چیزوں کو اپنی زندگی سے دور کرنا ہوگا، جو ہماری اولاد کے لئے زہر قاتل ہیں۔ اولاد سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس معاملے کو سُدھارنے کی بھر پُورکوشش کریں۔

آج بھی کچھ گھرانے ہمارے لیے مثال ہیں ،جو ٹیکنالوجی کا بہت کم استعمال کرتےہیں ۔ایسے گھرانوں کے بچے پڑھائی لکھائی میں مگن اپنا مستقبل بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے والدین ان کو اپنا وقت دیتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کو اہمیت دیتے ہیں، گو کہ یہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن ان کے بچے پڑھ لکھ کر دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ جس طرح ہماری کامیابیوں کے پیچھے ہمارے والدین کی محبت اور محنت تھی اسی طرح اگر ہم اپنی اولاد کو دنیا میں سرخرو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ بچوں کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔ اچھی بُری عادتیں یہیں سے پروان چڑھتی ہیں لہٰذا نوجوانوں کو لعن طعن کرنے سے بہتر ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کی پرورش پر بھرپور توجہ دیں، تاکہ مستحکم خاندان اور مستحکم معاشرے کو فروغ ملے ۔

ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی نئی چیز منظر عام پر آتی ہے تو بغیر سوچے سمجھے سب اس کے پیچھے چل پڑتےہیں، خصوصاًنوجوان اس کا نقصان یا فائدہ جانے بغیر زندگی کا حصہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اب الیکٹرانک میڈیا کا دورہے تو ہر چیز پلک جھپکتے ہی خاص و عام میں مقبول ہو جاتی ہے۔ انٹرنیٹ پر ڈاؤن لوڈ کی جانے والی مختلف ایپس  نوجوانوں میں منفی رجحان پیدا کر رہا ہے۔ جو کچھ ایپس پر ہورہا ہے، وہ فن و ثقافت اور تفریح کے زمرے میں نہیں آتا۔اکثر نوجوان غیر اخلاقی حدوں کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ نوجوان ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو منوائے، خود کو دوسروں سے الگ ثابت کرے، اگرچہ جدید ٹیکنالوجی ترقی اور نئی فکر کے راستے کھولتی ہے اور دنیا نئی جد توں کو بروئے کار لا کر ترقی کی منازل طےکرتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ نوجوانوں کے پاس درست سمت کا تعین نہیں ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت ایسی نہیں کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں ۔ یہ ہمارے نظام کی خرابی ہے۔

آج کے بیشتر نوجوان خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے ہر قسم کی ویڈیوز بنا رہے ہیں جو زیادہ تر بے مقصد ہیں۔ اگرچہ اُن میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن اگر یہی ویڈیوز بامقصد اور معیاری ہوں تو یہ ان کے کیریئر بنانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں، انہیں دیکھ کر دوسرے نوجوان بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، نوجوان خود کو ہیرو سمجھ رہے ہیں۔ پیسے کمانے کے چکر میں نوجوان خطرناک قسم کی ویڈیوز بھی بناتے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے، جن میں خود کو مشہور کرانے کے شوق میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ صرف نوجوان ہی اس کے گھیرے میں نہیں ہیںبلکہ بچے بھی اس کےگرداب میں پھنستے جارہے ہیں۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ نسلِ نو کو صحیح سمت اور صحیح رخ بتائیں ،تاکہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اچھی تعلیم و تربیت سوچ کے زاویوں کو بدل دیتی ہے،ذہن وسعت پاتا ہے۔ روشنی کی چھوٹی سی کرن بھی گھپ اندھیرے میں تیرگی کے احساس کو کم کر دیتی ہے۔ وقت بہت بدل گیا ہے ، لہٰذا ہمیں اپنے جوانوں سے اگر واقعی محبت ہے اور ہم ان کی بھلائی اور بہتری چاہتے ہیں تو ان کو برا بھلا کہنے کی بجائے ان کی مدد اور رہنمائی کریں، ان سے ہر ممکن تعاون کرکے ان کو خود پر بھروسہ کرنا سکھائیں تاکہ وہ زندگی میں کامیابی سے آگے بڑھ سکیں اس طاقت کو معاشرے کی ترقی کے لیے بچانا ہوگا تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ معاشروں کی صف میں شامل ہو سکیں ۔