نادان مُرغا

ملک منظور

 

ایک گاؤں میں ایک زمیندار نے دیسی مرغیوں کا فارم کھولا ۔اس نے زمین کے ایک بڑے ٹکڑے کے ارد گرد دیوار لگائی۔ دیوار کے اندر ایک باغیچہ تیار کیا ۔باغیچے میں چھوٹے چھوٹے پودے لگائے ۔ایک کونے میں پانی کا تالاب بنایا ۔باغیچے کے مرکز میں مرغے اور مرغیوں کے لئےجالی دار خانے بنائے ۔ مالک روزانہ ان کو دانے کھلاتا تھا اور ان کی صحت صفائی کا بھر پور خیال رکھتا تھا۔سارے مرغےاور مرغیاں ہمیشہ مالک کے باغیچے میں ہی اکٹھے دانا چگتے تھے۔مرغیاں وقت پر آکر انڈے بھی دیتی تھیں ۔زمیندار کچھ انڈے بیچتا تھا اور کچھ مرغیوں کے سینے کے لئے رکھتا تھا ۔اکیس دن کے بعد ان‌انڈوں سے چوزے نکلتے تھے ۔چوزے دھیرے دھیرے بڑھے ہوجاتے تھے ۔مرغیاں اپنے چوزوں کو زندگی کے‌طور طریقے سکھاتی تھیں ۔ چوزوں کے سر پرہمیشہ کوئوں اور چیلوں کا خطرہ منڈلاتا رہتا تھا، اسلئے زمیندار ان کو جالی دار خانوں میں بند رکھتا تھا تاکہ کوئی چیل یا کوا ان کا شکار نہ کر پائے۔مرغیاں ان پنجروں کے اردگرد گھومتی تھیں ۔چوزے چوں چوں کرتے تھے ۔مرغیوں کو معلوم تھا کہ پنجروں میں بچے محفوظ ہیں لہذا وہ غصہ نہیں کرتی تھیں۔ مرغوں کے سارے پریوار ایک ہی آنگن میں رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دیوار کے باہر لومڑی ،کتے اور ٹھگ آن کا چیر پھاڑ کرنے کی تاک میں گھوم رہے ہیں ۔ان کے کئی رشتے دار ان کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔
دھیرے دھیرے بچے بڑے ہوگئے ۔مالک نے‌ان‌کو پنجرے سے‌آزاد کیا ۔مرغیوں کی طرح اکثر چوزے آنگن میں ہی زمین کھرچنے لگے ۔ایک چھوٹا مرغا پھدک کر دیوار پر چڑھ گیا ۔دیوار کے باہر کی دنیا اس کو اچھی لگنے لگی۔ وہ روزانہ اس دیوار پر چڑھنے لگا ۔گھر کے بڑے کبھی بھی دیوار پر نہیں چڑھتے تھے۔وہ ہمیشہ اپنے حصار میں ہی رہتے تھے۔لیکن چھوٹا مرغا اپنے مالک کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کرنے لگا ۔کئی دن‌گزر گئے۔ مرغا بڑا‌ ہوگیا۔ اس نے اپنے خاندان کی پرم پرا کو توڑ کر من‌ مانی کی اور ایک دن جونہی اس نے دیوار سے باہر چھلانگ ماری تو تاک میں بیٹھی ایک لومڑی نے اس کو دبوچ لیا ۔مرغا بہت چلایا لیکن اس کی مدد کے لئے آس پاس کوئی نہیں تھا ۔
دیوار کے اندر مرغے اور مرغیوں کے کان کھڑے ہوگئے انہوں نے شور تو اٹھایا لیکن وہ شور آہ ! ماتم کا تھا۔
بچو اسی لئے احتیاط لازمی ہے۔

���
کولگام، کشمیر، موبائل نمبر؛9906598163