میری بات | قول و فعل کے تضاد سے معاشرہ تباہ ہوگیا

شیبا کوثر

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کوئی محترم شخص کچھ بولتا تھا تواُس کی بات میں ایسی تاثیرہوتی کہ سننے والا اس کی باتوں کو اپنی شخصیت میں اُتارنے کی بھر پور کوشش کرتا تھا، وہ محترم اشخاص چاہے کسی کے والدین ہوتے یا خاندان کا کوئی بزرگ۔اُستاد ہوتا ، مذہبی رہنما ہوتایا کوئی سیاسی شخصیت۔سُننے والا اس کی بات کو اپنے پلو میں باندھ کے رکھتااور بعد میں اس پر عمل بھی کرتا تھا۔ہمیں خود اپنا بچپن یاد ہے کہ جب ہمیں اسکول کا کوئی اُستاد کوئی بات بتاتے تھے ،کوئی نصیحت کرتے تھے یا کسی کام سے روکتے تھے تو ہم ہر ممکن اُن کی باتوں پر عمل کرتے تھے کیونکہ جب ہم نہ صرف استاد بلکہ اپنے خاندان کے بزرگوں پر نظر ڈالتے تو اساتذہ اور اُن کے گفتار و عمل میں کوئی تضاد نہیں ملتا تھا ،مگر آج کے حالات بالکل بدلے بدلے نظر آرہے ہیںبلکہ یوں کہیں کہ حالات بالکل بدل چکے ہیں اور ہر معاملہ اُلٹ پلٹ ہوچکا ہے۔جس کے نتیجے میں ہر سطح پر ہر میدان نمایاں فرق آگئی ہے۔نہ کسی بات سُنی جاتی ہے اور نہ کسی کی بات پر عمل کیا جاتا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ایک استاد کلاس میںدرس دیتے ہوئے یا بچوں کوسمجھاتے ہوئے جو کچھ کہتے رہتے ہیں تو بچے کے ذہن پراستاد کی باتوںکا ضرور اثر پڑتا ہے اور بچہ اپنے اُستاد کی باتوں کو سچ سمجھ کر ان پر یقین بھی کر لیتا ہے مگر جب عملی میدان میں وہ اُستاد کو اس کے بر خلاف کرتے ہوئےدیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں ، کئی بچے اپنے والدین سے اس بارے میں پڑے شکوک کو دور کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔اکثر گھروں میں ایسا ہوتا رہتا ہے ، خاص طور پرجن گھروںمیں کم عمر بچے ہوتے ہیں ،وہ بلا جھجھک اپنے والدین سے اس طرح کے سوالات کر بیٹھتے ہیں جو انہیں استاد کی باتوں نے پیدا کئے ہوتے ہیں ۔چنانچہ جب والدین انکے سوالات کا جوابات دیتے ہیں تو وہ اُستاد کی باتوںکے برعکس ہوتے ہیں اورنتیجتاً بچےپھر مخمصے میں پڑجاتے ہیںاور وہ استاد کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے ،یہی صورت حال اپنے خاندان کے بزرگوں ،دینی اور سیاسی شخصیتوں کی باتوں میں بھی نظر آتی ہے،وہ جو کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن کرتےکچھ اور ہیں۔لیکن آج کل ہر جگہ ،ہر سطح پر ہر معاملے یا مسئلے پر یہ تضاد کیوں ؟جو کوئی بھی جو کچھ کہتا رہتا ہے وہ خود اس پر عمل پیرا نہیں رہتا ،اور جو کچھ نہیں کیا جانا چاہئے تھا وہی کچھ کرتا رہتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کا انسان حق پرستی اور دینداری سے کوسوں دور ہوچکا ہے اور ہر کوئی ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اور وہ بڑی بیماری ہے مادہ پرستی، جو پورے معاشرے کے لئے ناسور بن گئی ہے، جس کی تمام ظاہری و باطنی شکلیں ہر سُو دکھائی دے رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ مادیت جب انسانی دلوں میں سرا یت کر جاتی ہے تو مال و دولت اور اعزاز و مفادات کی پر شتش مجبوری بن جاتی ہے،جوکہ نہایت خطر ناک ثابت ہوتی ہے ۔ یہی وہ بیماری ہے جس نے انسان کو ہر شعبہ میں اضطراب اور بےچینی کا وارث بنا دیا ہے۔اسی بیماری نےہر دل میں بغض و عداوت کے بیج ڈال دئے ہیں اور ختم نہ ہونے والی تباہ کن جنگوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اس کے باوجود بھی لوگ اس بیماری کے خطر ات کی طرف دھیان نہیں دیتے اور نہ ہی اس سے گلو خلاصی کی ہمّت کر پاتے ہیں ۔
مادیت پرستی کی وجہ سے ہی ہر انسان خود غرض ہو گیا ہے۔ کسی کو سچائی سے کوئی مطلب نہیں رہا ہے ،چاہے اس کی وجہ سے دوسروں کی نظروں میں اس کی شخصیت بھی مجر و ح ہو کر رہ گئی ہو،وہ جھوٹ کی خُو میں بدمست ہوچکا ہے۔اس بیماری کے کارن کل تک جس کسی انسان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اس کی زندگی کسی کے لئے آئیڈیل بن گئی تھی ،وہ انسان وقت کی رفتار کے ساتھ بالکل بدل گیاہے اوردوسرا انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس انسان کی شخصیت وہ تو نہیں، جو وہ سمجھتا تھا بلکہ یہ انسان تو محض مفاد پرستی کا پُتلاہے پھر اس انسان کی شخصیت کا جا دو اس کے سر سے اُتر جاتا ہے اور اس کے کہے گئے الفاظ خود بخود اپنا معنی ٰ بھی کھو دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس مرض کا علاج کیوں نہ ہوتا ،اس کی کیا سبیل کی جائے کہ انسان کے اندر انسانیت ترقی کرنے لگے اور انسان کی معنو ی زندگی کا عروج ہو ۔کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ،جس سے غفلت کی دبیز چادر کو ہٹا یا جا سکے تاکہ انسان کا دل سچ پر آمادہ ہو ،انسان انسانیت کو اپنا پیمانہ بنانے لگے اور ایسا معلوم ہو کہ سچ کا روشن پہلو وہی ہے جو تمام انسانیت کے لئے ایک نعمت ہے ۔
واضح طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ کیا کوئی ایسا راستہ نہیں ہے، جس پر چل کر انسانیت اپنے دور طفلیت سے ترقی کر کے دور تجربہ وآزما ئش اور دور عقل فہم میں داخل ہو سکے ؟
جی ہاں !اگر ہم تھوڑا سا غور و فکرکرلیں اور اپنے اندر کی آواز کو سننے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ عقل و فہم کے گھوڑے دوڑ ا ئیں تو معلوم ہوگا اس کا علاج موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خارجی حرکات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ اپنے اندرون کا بھی بغور جائزہ لیتے رہیں اور باطنی آنکھ کو بیدار اور با ہوش رکھیں اور اند رونی وجود کو ہوشیار اور چوکس رکھیں ۔اگر ہم اپنے اس باطن کو بیدار کر دیں اور باطن کو ظاہر اور ظاہر کو باطن سے ملا دیں تو ہم نے گویا مقصد ِوجود کو پا لیا اور اپنے قلب کو سکون دینے میں کامیاب ہو گئے ۔جو زندگی کے لئے بہت ضروری اور اہم ہے ۔اس کے بغیر ہم دولت کا انبار تو لگا سکتے ہیں لیکن حقیقی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی بڑی بڑی شخصیت جسے عام انسان ایک کامیاب ترین انسان سمجھتا ہے ،وہ بھی اندر سے ٹوٹا ہوا اور بکھرا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی کبھی ایسی خبریں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ بھلا ایسا کامیاب انسان بھی صحیح معنوں میں زندگی کے سکھ اور چین سے کتنا دور ہے ۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد سے بچیں، اور حق پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ زبان سے جو کچھ بولیں، سوچ سمجھ کر بولیں اور جو بولیں اس کو اپنے کردار میں شامل کرنے کی کوشش کریں ورنہ ہماری شخصیت کا کوئی وزن باقی نہ رہ پائےگا اور ہم دوسروں کے تشنہ لبی کا بھی آسانی سے نشانہ بنتے رہیںگے ۔یہ ایک بڑی سماجی بیماری ہے، اسی بیماری کی وجہ کر آج کا معاشرہ کرب میں مبتلا ہے ۔کوئی کسی کی باتوں پر یقین کرنے کو آمادہ نہیں ہے، ہر کوئی شکو ک کے دائرے میں ہے کیوں کہ لوگ ایک دوسرے کے کردار پر نظر رکھتے ہیں اور اس کی فکر میں رہتے ہیں کہ اس کی اصل زندگی میں کیا ہے۔ کہیں یہ اپنی زبان دراز ی سے ہمیں بے وقو ف تو نہیں بنا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب اصل زندگی سامنے آتی ہے تو اس کا شک یقین میں بدل جاتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کسی کی بات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتا جب تک مشاہد ہ نہیں کر لیتا جو سچ مچ ایک کٹھن کام ہے ۔
اگر ہمیں صحیح معنوں میں ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر کرنی ہے جو سکون و ترقی کیلئے بیحد ضروری ہے تو ہمیں ہر حال میں اس بات کی کوشش کرنی ہی پڑے گی کہ جو بات بھی ہم زبان سے کہہ رہے ہیں، خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں ورنہ سماج کو انتشار سے بچانا ممکن نہیں، جس کی زد میں ہر خاص و عام آرہا ہے ۔
آج ہر شخص ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے ۔زندگی سے چین و سکون غارت ہو گیا ہے، ذہنی انتشار کی وجہ سے آج معاشرے میں طرح طرح کی جسمانی بیماری اور ذہنی دباؤ کا لوگ شکار ہو رہے ہیں ،خاندانی نظام بکھراوُ کا شکار ہے۔ ہمدردی اور محبّت جیسی چیزیں عنقاء ہو کر رہ گئ ہیں۔ والدین تنہائی کے شکار ہو رہے ہیں، بچے محبّت کیلئے ترس رہے ہیں گویا قیامت کا منظر ہے ۔اس لئے ضروری یہ ہے کہ ہر شخص اپنا محا سبہ کرے ،اور صرف گفتار کا غازی نہ بنتا پھرے بلکہ ساتھ ساتھ عملی کردار بھی پیش کرنے کی کوشش کرے ورنہ بہتر یہی ہے کہ چپ چاپ اپنی دنیا میں مگن رہے ۔کیونکہ آپ کے بولنے کا سماج پر کوئی اثر ہونے والا نہیں۔ آپ اپنی ڈفلی بجا تے رہئے گا اور لوگ اپنے دھندے میں لگے رہیں گے ۔
[email protected]