منزل کہاں ہے تیری افسانہ

مشتاق مہدی

’’اپنی بکھری ہوئی کتابیں سمیٹو ساتھیو۔۔۔۔۔اور بڑھتے جائو۔ آگے ہی آگے۔ ہمیں بہت دور جاناہے۔چلو۔۔۔۔۔‘‘ــــ
ماہان اُن سب کے بیچ اپنی ست رنگی جھنڈی لہراتا ہوا چیخ رہا تھااور قبیلے کے جوان بوڑھے،مرد عورتیںبچے۔۔۔۔سبھی ہمہ تن گوش تھے۔اُنکے چہروں پر بڑا جوش وخروش تھا۔لیکن کوئی کوئی تو اداس بھی تھا۔اندر ہی اندر بجھا ہوا سا۔۔۔۔۔جیسے یہ لمحہ ہی عذاب ہو۔۔۔۔یہ ساری کہانی ہی فضول اور بے معنی ہو۔جیسے جو کچھ نظر آتا ہے۔وہ ہے ہی نہیں۔۔۔بس آنکھوں کا دھوکہ ہے ۔ایک فریب ۔۔۔
’’ہٹاو۔۔۔ہٹاویہ دُھند آنکھوں پر سے۔۔۔‘‘ماہان نے اونچی آواز میںاچانک ہی کہا۔کوئی جان نہ سکاکہ وہ کس سے مخاطب ہوا تھا۔اپنے آپ سے یا ہوا کی سرگوشیوں سے۔۔۔۔
یکبارگی ایسا ہوا کہ سیاہ گھنے بادلوں میں سے تیر کی مانند چمکتا ہواسورج باہر نکل آیا ۔دوسرے ہی لمحے دور دور تک زمین روشن ہوگئی۔سرسبز لہلہاتے ہوئے کھیت بھلے لگنے لگے۔آنکھوں کو ایک فرحت بخشنے لگے۔
ماہان نے دور تک نظریں دوڑائیں۔رنگ برنگی جھنڈیاں لہراتے ہوئے بستی کے لوگوںکو بڑی اپنائیت اور پیار سے دیکھا۔اُس کی آنکھوں میںننھے آنسو جھلملانے لگے۔لمحہ بھر بعد ہی اُسکے ہونٹ حرکت میں آگئے۔
’’تم۔۔۔تم سب میری زمین ہو۔میری زمین کی فصلیں ہو۔تمہاری خوشی ہی میری خوشی ہے ۔تمہارے خواب میرے اپنے خواب ہیں۔۔۔۔۔تم لوگ نہیں جانتے ہو تم سب میرے لئے کیا ہو۔ کتنے قیمتی ہو ۔سنو۔۔۔۔راستوں کے پتھر توڑنے ہیں تو ہمیں ہی۔۔۔لیکن ایک دوسرے کا سہارا بن کراور جہاں ہم ٹھہرے ہیں۔وہ ہماری منزل نہیں۔ہمیں آگے جانا ہے بہت آگے۔۔۔‘‘
’’ مگر کہاں ۔؟ ‘‘ایک بوڑھے نے اپنی جھنڈی لہرائی۔
ماہان نے اپنا ست رنگی جھنڈا اوپرآسمان کی طرف لہراکر کہا۔
’’ اُس پار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ وہاں کیا ہے ۔؟‘‘
’’وہ سب کچھ جو ہم چاہتے ہیں۔کامیابی خوشی مسَرت اطمینان روشنی۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’روشنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ بوڑھے نے ایک قہقہہ لگادیا۔ ’’ ہم بہت فریب کھاچکے ہیں ۔اب کے اور فریب۔۔۔نہیں نہیں۔کہانی یہیںپر ختم کرو ماہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔براہ کرم ہمیں واپس جانے دو۔اور نہ بھٹکائو۔‘‘
ماہان نے ایک خشم آلودنظر اُس پر ڈال دی۔بوڑھے نے کچھ کہنا چاہا لیکن ہمت نہ ہوئی۔
اچانک ہی بوڑھے کے ساتھی نے درد بھری آواز میں کہا۔
’’ ہماری تو عمریں گذر گئیں۔بس یہی لفظ سنتے ہوئے ۔۔۔چلتے رہو۔۔ چلتے رہو۔۔۔انتظار کرو۔۔۔اور صبرکرو۔لیکن ہم جانتے ہیں۔خالی لفظوں سے یہ پیٹ بھرتا نہیں ہے اور نہ کوئی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ہمیں اور نہ بہکاو ماہان۔۔۔۔۔! ‘‘
’’ سنو۔۔۔۔۔دیکھو تم۔۔۔‘‘ ماہان نے کچھ کہنا چاہا۔لیکن اُسکے عقب میںاچانک ہی ایک شور وغُل اٹھا۔
جس نے اُس کی آواز کو دبادیا۔
اُس نے مڑکے دیکھا۔لوگوں کے بیچ ایک کھلبلی سی مچ گئی تھی۔وہ سب بے چین اور منتشر نظر آرہے تھے۔ایک آوازکہیں نزدیک سے بلند ہوئی۔
’’ ہے چھوڑو یہ راگ پرانا۔آئو ساتھیو لوٹ چلیں۔۔۔‘‘
دوسرے ہی لمحے وہ سب واپسی کے لئے مڑ گئے۔ماہان حیرت اور اداسی کے ساتھ انہیں خاموش دیکھتا رہا۔ابھی وہ سو ڈیڑھ سومیٹر سے زیادہ دور نہ ہوئے تھے کہ آسمان کوکالے گھنے باولوں کی دبیز چادر نے اچانک گھیر لیا۔سورج کسی کھائی میں چھپ سا گیا۔اورگہرا اندھیرا چھا گیا ۔جو بڑھتے بڑھتے دور تک پھیل گیا۔لوگ سراسیمہ نظروں سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ایک عمر رسیدہ بزرگ جو کچھ بیزار اور متنفر نظر آرہا تھا ۔ایک ٹیلے پر بیٹھ کر قدرے اونچی آواز میں بولا۔
’’ بیوقوفو۔۔۔بہت برا ہوا۔۔۔وہ کوئی عام آدمی نہیں ۔ہم سب کی بھلائی چاہنے والا ہمارا راہبرہے۔۔۔۔۔اِس اندھیرے کو دیکھتے ہو تم۔‘‘
’’ ہم نے کیا کیا۔؟ ‘‘ کئی آوازیں گونجیں۔
’’ اچھا نہیں کیا اس کے ساتھ۔۔۔۔‘‘بزرگ نے تلخی کے ساتھ کہا ۔ ’’ کھُلے میدان میں اُسے تنہا چھوڑکر چل دئے۔کیا ہم نے یہ ٹھیک کیا۔۔۔۔۔خدا معاف کرے ہمیں۔۔۔۔چلو سب معافی مانگ لیتےہیں ۔‘‘
اُن کے ذہن منتشر تھے۔اندر ہی اندر حیران و پریشان بھی تھے۔کوئی بھی آوازانہیں ہانک لیتی تھی۔اس بار عمر رسیدہ بزرگ کی آواز نے انہیں باندھ لیا۔کچھ دیر بعد وہ سب ماہان کی طرف لوٹنے لگے۔ماہان سر جھکائے بیٹھا کسی سوچ میں ڈوبا سا تھا۔قدموں کی آہٹ اور آوازیں قریب سنائی دیںتو سر اُٹھا کے دیکھا۔زن ومرد بوڑھے بچے سب اُس کے آس پاس شرمندہ سے کھڑے تھے۔ اُس کی آنکھوں میں فطری شفقت ابھر آئی۔لہجہ اونچا کر کے بولا۔
’’یقین بہت بڑی چیز ہے جو ہر کامیابی کے لئے پہلا زینہ ہے۔ایک بات بتائو مجھے۔۔۔۔۔تم آگے جانے سے کیوں کترا رہے ہو۔؟ ‘‘
’’ بات یہ ہے اگلے پڑائو پر۔۔۔۔۔‘‘
بولتے بولتے وہ شخص رک گیا۔
ماہان نے حوصلہ بڑھایا۔۔۔۔۔۔۔
’’ ہاں ہاں ۔۔۔۔۔۔کہو اگلے پڑائو پر کیا ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’ اگلے پڑائو پرسیاہ کالے دیووُں کی ایک بھاری جماعت ہے۔اور بھی کئی چُھپی مخلوقات ہیں۔جو بہت طاقت ور ہیں۔بے رحم ہیں۔ہمیں خوف اورخدشہ ہے ۔ڈر ہے کہ ہم اُن سے جیت نہیں پائیں گے ۔اِس لئے۔۔۔۔۔‘‘
’’ آگے بڑھنے سے رک جائیں۔‘‘ ماہان نے تیز اور تلخ لہجے میں کہا ۔ ’’بزدلوں کی طرح واپسی کا سفر اختیار کریں۔شکست ماتھے پر لکھیں۔حیف ہے تم پر۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ ماہان۔۔۔۔! ‘‘ ایک غصہ بھری آواز ابھری۔
’’ کیا ہے کہو۔۔۔‘‘
ٹھیک سامنے اُسکے سرخ رنگی داڑھی والا درمیانی عمر کا شخص بول پڑا۔
’’ سمجھنے کی کوشش کرو ماہان۔۔۔۔۔خودکشی عقلمندی نہیں ہے۔‘‘
’’ اور بزدلی بھی عقل مندی نہیں ہے ۔سمجھے تم۔۔۔۔۔‘‘ماہان نے گھور کر اُسے دیکھا۔جواب میں اُس نے کچھ نہ کہا۔اپنی نظریں جکا لیں۔
کچھ دیرخاموشی کے بعد وہ بولا۔
’’ یقین رکھو پروردگار عالم ہمارے ساتھ ہے ۔اور آگے بڑھنا۔۔۔آگے بڑھتے رہنااُسی کا حکم ہے۔اب جس کا جی چاہے میرا ساتھ دے۔میرے سنگ چلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو جاوُںگا ہی‘‘کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
بستی کے لوگ پھر کسی شش پنج میں پڑگئے۔۔۔لیکن ماہان کوئی آواز، کوئی عذر سنے بغیر ہی تیر کی مانند نکل گیا۔
چند لمحے بعد آسمان پرچھائی ہوئی ابر کی کالی چادریں ہٹتی سی نظر آگئیں۔آسمان صافہوگیااور سورج پھر چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ بستی کے لوگوں کے ہونٹوں پر ایک مسرت آمیز مسکراہٹ ابھری۔قدم خود بہ خود اُس کے پیچھے نکل گئے ۔
���
ملہ باغ،سرینگرکشمیر