معیشت اور اُس کے قواعد  | امیر ملکوں کا غریب ممالک پر شکنجہ تواریخی حقائق

شفیق احمد آئمی
اللہ تعالیٰ نے اِس زمین کو انسانوں کے رہنے کے لئے بنایا اور اُس میں زندگی گزارنے کے تمام لوازمات پیدا کئے۔اللہ تعالیٰ نے پوری زمین انسانوں کے لئے بنائی اور اُس میں ملک اور سرحدیں نہیں بنائیں۔ بعد میں انسان الگ الگ علاقوں میں آباد ہوئے تو انہوں نے اپنے اپنے ملک بنا لئے اور اُن کی سرحدیں بنالیں۔ ملک بنانے کے بعد اُس ملک کے انسانوں نے یہ سوچا کہ ہمارا ملک دوسرے ممالک سے ممتاز اور امیر رہے اور دوسرے ممالک غریب رہیں تاکہ اُس کے محتاج رہیں۔اِس کے لئے معاشی نظام بنایا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ملک کی الگ الگ معیشت بن گئی۔ ہم معیشت (economics) اور اسکے مختلف Terms کو آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ تاکہ ہمیں یہ سمجھ میں آئے کہ کس طرح امیر ممالک والے غریب ممالک کا استحصال کرتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ امیر ممالک اور امیر اور غریب ممالک اور غریب ہوتے جاتے ہیں۔انسانوں کی ارتقائی سوچ نے جہاں وقت کے ساتھ ترقی کی وہاں پر وقت کے ساتھ مختلف ایجادات، تجارت زندگی گزارنے کے اصول وغیرہ نے بھی ترقی اور ارتقائی مراحل طے کئے۔دنیا میں پہلے انسانوں کی زندگی خاندانوں تک محدود تھی اور پھر وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ انسان خاندان سے نکل کر قبیلے، گاؤں، قصبے، شہر ملک اور آج کا دور گلوبلائزیشن تک ترقی کے مختلف مراحل طے کئے۔اِس مضمون میں ان شاء اللہ ہم کاغذی کرنسی کی حقیقت،؟ monetary and fiscal policy کیا ہوتی ہے؟ ڈالر کیسے بڑھتا ہے؟ بینک کی کیا حقیقت ہے؟ demand and supply کیا ہے؟ Budget and trade deficit سے کیا مراد ہے؟ IMF ہمارے اوپر اتنے شرائط کیوں لاگو کرتا ہے؟ کے بارے میں جاننے کی کوشش کرہیںگے۔راقم الحروف کوئی ’’ماہر معاشیات‘‘ نہیں ہے۔ پھر بھی جو ’’ماہر معاشیات‘‘ نے لکھے ہیں اُن کے چند اقتباسات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ آسان سے آسان الفاظ میں پیش کیا جائے۔
پہلے زمانے میں تجارت اشیاء کے تبادلے سے ہوتی تھی اور یہ محدود اور ذاتی نوعیت کی تھی جو بعد میں وسیع پیمانے پر ممالک کے درمیان پھیلی۔ اسکو barter system کہا گیا، بعد میں سکوں کا رواج عام ہوا وغیرہ اور پھر اسکے ساتھ ہی دنیا ترقی کرتی رہی اور اشیاء کا تبادلہ بڑے پیمانے پر ہونے لگا اس دور کو merchantism کہا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے کسی کو گندم دیا اور دوسرے سے چاول لے لیا وغیرہ۔ یعنی وہی barter system بڑے پیمانے پر پھیل گیا اور ساتھ میں اشیاء کے تبادلے کے علاؤہ سونے چاندی کے سکوں کا تبادلہ بھی بڑے پیمانے پر ہونے لگا۔ اسکے بعد سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں صنعتی ترقی کے ساتھ دنیا نے بہت ترقی کی۔ صنعتی ترقی کی بنیاد مشین کی ایجاد سے ہوئی وہ کام جو 20 یا 30 مزدور مل کر سکتے تھے، مشین کی ایجاد سے وہ کام منٹوں میں ہونے لگا۔ اس دور کو industrialization ’’انڈسٹریلزایشن دور‘‘ یا ’’صنعتی دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دور کے ساتھ ’’کیپیٹلزم‘‘ capitalismکا دور بھی شروع ہو گیا۔
’’کیپٹلزم‘‘ capitalismسے پہلے جاگیرداری نظام تھا جس کو feudalism کہا جاتا ہے اس کا پورا خاتمہ تو نہیں ہوا مگر یورپ میں اسکے خلاف انقلاب آیا لوگ fedulism سے تنگ آچکے تھے اور اس طرح سرمایہ داروں نے لوگوں کو ایک نئی سوچ میں جکڑ لیا۔ ’’کیپٹلزم‘‘ capitalism کا معاشی نظام ایڈم سمیت نے دیا اور مختلف سرمایہ دار ممالک نے اس نظام کو اپنایا۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جس کے ذریعہ سے نہ صرف سرمایہ داروں کے سرمائے کو قانونی حیثیت دی جاتی ہے بلکہ باقی لوگوں کو ایک نئی معاشی غلامی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے اور اس طرح سرمایہ داری نظام جس کو ہم ’’کیپیٹلزم‘‘ کہتے ہیں ایک نئی شکل میں وجود میں آگیا۔
مشین کی ایجاد نے جہاں انسانوں کے کام آسان کئے وہیں سرمایہ داروں نے مزدور کا استحصال بھی شروع کردیا۔ مزدور سے 15 یا 18 گھنٹے کام لیا جانے لگا اور اسکے بدلے مزدروں کو بہت کم آمدنی ملتی تھی۔ یہیں سے یورپ میں سوشلسٹ انقلاب اور مزدوروں کے حقوق سے متعلق آوازیں اٹھنا شروع ہوئی یہ وہی حقوق تھے جو اسلام نے انسانیت کو 14 سو سال پہلے دیئے تھے۔اس طرح سوشلسٹ معاشی نظام وجود میں آگیا جس کا بانی کارل مارکس تھا جس پر روس میں انقلاب برپا ہوگیا۔ سوشلسٹ انقلاب اور مزدوروں کی یونین کو دیکھ کر سرمایہ داروں نے وقتی طور پر مزدوروں کو ان کے حقوق کے نام پر یورپ امریکہ وغیرہ میں ’’لالی پاپ‘‘ دے دیا۔
چونکہ کاروبار اشیاء کے تبادلے یا سونے پر تھا تو مختلف بینک وجود میں آگئے۔ قاعدہ یہ تھا کہ آپ ان کے بینکوں میں سونا جمع کرتے تو وہ آپکو اس سونے کے بدلے ایک رسید جاری کریں گے۔ آپ اس رسید کو کاروبار کے تبادلے کے لیے استعمال کرسکیں گے اور بعد میں وہ رسید آپ اسی بینک یا دوسرے رجسٹرڈ بینک میں جمع کر کے اپنا سونا واپس لے سکیں گے۔ اس سے کاروبار کرنے میں آسانی ہوئی مگر بینکوں نے دھوکا دینا شروع کردیا۔ مثلاً ایک تولہ سونے کے بدلے ایک رسید جاری کرنا چاہیئے تھا مگر بینکوں نے دس یا بیس رسیدیں جاری کرنا شروع کردیں اور اس طرح بینکوں نے اپنا لوٹ کھسوٹ کا کاروبار شروع کیا۔ بعد میں جب لوگوں نے واپس اپنا سونا مانگنا شروع کیا تو بینکوں کے پاس اتنا سونا نہیں تھا یا بینکوں نے دینا نہیں چاہا اور اس طرح بینکوں نے خود کو دیوالیہ ڈیکلیئر کر کے فرار ہونے کا راستہ اپنانےلگے ۔
1944 میں جب دوسری جنگ عظیم کا اختتام ہوا تو 44 ممالک نے امریکہ کی سربراہی میں کاروبار کی لین دین کا ایک طریقہ واضح کیا کہ جن ممالک کے پاس سونا زیادہ ہوگا ان ممالک کا پیسہ بھی اچھا ہوگا۔ یعنی ’’کاغذی کرنسی‘‘ کے پیچھے سونا تھا جتنا جس ملک کے پاس سونا زیادہ ہوگا اتنی ان کی ’’کاغذی کرنسی‘‘ کی قیمت زیادہ ہوگی۔ اس طرح اگر دو ممالک کاروبار کرینگے تو سونے کا تبادلہ ہوگا۔ مگر اتنا زیادہ سونا ممالک کے درمیان آنا جانا وغیرہ سے مسائل پیدا ہونگے (مسائل وغیرہ کچھ نہیں تھے مگر عالمی سامراجی سرمایہ دار اپنے لئے بہانے ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ جو 44 ممالک شامل تھے ان میں اکثر امریکہ سامراج کے حامی اور کٹھ پْتلی تھے۔) اسی طرح یہ قانون پاس ہوا کہ ممالک آپس میں کاروبار کی ایکسچینج کے لئے ’’ڈالر‘‘ کا استمال کرنیگے اور اس ڈالر کے بدلے دوسرا ملک اپنا سونا امریکی ریزرو بینک میں جمع کرے گا اور جب چاہے اپنا سونا اپنے ملک میں واپس ٹرانسپورٹ کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکا کی ریزرو بینک کا کام میڈیم آف ایکسچینج تھا۔ یعنی ایک ایسی بینک جس کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک اپنا سونا جمع کر کے کاروبار کر سکتے ہیں اور دوسرے ممالک کو سونے دینے کی بجائے وہ امریکا ریزرو بینک میں جمع کرے وہ اس ملک کو ’’ڈالر‘‘ ایشو کرے گا اور جب چاہے امریکی بینک کو ڈالر دے کر اپنا سونا واپس مانگ سکتا ہے۔
یہ1971 تک چلتا رہا اس دوران ویتنام جنگ شروع ہوئی جس میں امریکہ کو بھاری رقم کی ضرورت تھی۔ امریکہ نے بے لگام ’’ڈالر‘‘ چھاپنا شروع کردیا۔ دوسرے ممالک نے جب یہ دیکھا کہ امریکا کے پاس ذاتی طور پر اتنا سونا نہیں ہے جتنا یہ ’’کاغذی کرنسی‘‘ چھاپ رہا ہے تو انھوں نے اپنے سونے کی ڈیمانڈ شروع کردی۔ امریکہ نے جب ان حالات کو دیکھا کہ اس طرح تو ہمارا پورا ملک دیوالیہ ہو جائے گا کیونکہ لگ بھگ تمام ممالک سونا مانگ رہے تھے۔ جس کا مطلب سونے کا امریکا سے جانا۔ یعنی امریکا کے پاس سونے کی کمی کی وجہ سے ڈالر کی ریٹ میں ریکارڈ کمی جو کہ بہت بڑا نقصان تھا۔ امریکا نےخود کو بچانے کے لیے ڈالر یا پیسوں کے پیچھے سونے وغیرہ کا 1971 میں وقتی (temporary) طور پر خاتمہ کیا۔ لیکن آج تک دوبارہ ’’کاغذی کرنسی‘‘ کے پیچھے کسی زَر یا سونے کا ہونا دوبارہ لاگو نہیں ہوا، جس کی وجہ سے تمام دنیا کی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس طرح آج کل جتنی بھی ’’کاغذی کرنسی‘‘ ہے، اس کے پیچھے صرف ایک یقین اور گورنمنٹ کے آرڈر کے علاؤہ کچھ نہیں۔ یعنی یہ صرف کاغذ ہے جس کو گورنمنٹ نے اہمیت دی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کل کے بینک کیسے کام کرتے ہیں؟ دراصل بینک پیسوں کے لین دین کا ایک ذریعہ ہے جہاں ہم پیسے رکھنے کے ساتھ ساتھ ادھار بھی لے سکتے ہیں۔ ’’کیپیٹلزم‘‘ میں بینک سود پر نہ صرف کاروبار کرتا ہے بلکہ ادھار بھی سود پر ہی دیتا ہے۔ ملک کے اندر ایک ’’سینٹرل بینک‘‘ ہوتا ہے جس کے ساتھ باقی تمام بینک اٹیچ یا کنکٹ connect ہوتے ہیں۔ ’’سنٹرل بینک‘‘ یا ملک کے ’’اسٹیٹ بینک‘‘ کو سمجھنے سے پہلے ایک ملک کی معیشت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ملک کے اندر دو قسم کی معاشی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ ایک کو fiscal اور دوسرے کو monetary policy کہتے ہیں۔ fiscal policy پر گورنمنٹ کا کنٹرول ہوتا ہے جیسے ٹیکس لگانا وغیرہ جبکہ monetary policy پر’’ سنٹرل بینک‘‘ جس کو ملک میں ’’اسٹیٹ بینک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کنڑول کرتا ہے۔ monetary policy میں بنیادی چیز پیسوں کا بہاؤ (flow) کو مارکیٹ کے اندر بیلنس رکھنا اور اسکے مطابق انفلیشن ریٹ (مختصر الفاظ میں اشیاء کی قیمتوں کا اوپر نیچے ہونے کو’’ انفلیشن‘‘ کہا جاتا ہے) اور سود کی قیمت کا مختص کرنا مثلآ اگر پیسوں کا بہاؤ مارکیٹ میں زیادہ ہو جائے یعنی حکومت وقت ملک میں موجود وسائل سے زیادہ پیسے print کرے جس کی وجہ سے پیسوں کا بہاؤ مارکیٹ کے اندر زیادہ ہوجائے گا اور پیسوں کی قدر میں کمی آجائے گی اور اشیاء کی قیمتیں اوپر چلی جائیں گی۔ اسکو ’’انفلیشن‘‘ کہتے ہیں اور اسکو معشیت (economics) میں (demand and supply theory کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کہ جب ایک چیز کی مانگ demand میں اضافہ ہو جاتا ہے تو اسکی قیمت value بڑھ جاتی ہے، اِسی طرح اگر مارکیٹ میں ایک چیز کی بہاؤ supply یا مقدر زیادہ ہو جائے تو اسکی قدر value میں کمی آجاتی ہے)۔ (مضمون جاری ہے۔۔۔۔۔بقیہ اگلی بدھوار کو)
[email protected]