معاشرت | جنسی تشددمیں یورپ سرِ فہرست

ارشد احمد بیگ

بعض نام نہاد دانشوروں کے نزدیک حجاب اختیار کرنا جبر کی ایک شکل ہی ہے، بُرقع اور پردے سے ان کی چِڑ اس درجے کی ہے وہ اسے سوچ پر پہرہ قرار دیتے ہیں، ان عقل مندوں کی دلیل یہ ہے کہ جس چیز کو جتنا چھپاؤ گے، اتنی ہی کَشِش بڑھے گی اور اسے پالینے کی جْستجو میں اضافہ ہوگا۔ عورت کاجسم اورحسن تو دکھلانے ہی کے لیے ہے اور وہ اگر ایسا کرے تو اس میں کیا قباحت ہے بلکہ اس طرح مردوں کی بد نیّتی عمل میں نہیں ڈھلے گی اور کَشِش کا قانون بھی یہی ہے۔ اس بودی دلیل کے حشر کو نشر کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، حقیقی دنیا کے اعداد وشمار کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی معتبر ادارے کی رپورٹ پڑھ لیجیے، عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ کے ادارے، عالمی صحت اور مختلف این جی اوز کے اعداد وشمار دیکھ لیں، ’’ریپ‘‘ کی ان کی اپنی تعریف کے مطابق خود ان معاشروں میں اخلاقی پستی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، اجتماعی زیادتی، بے حرمتی، جنسی تشدّد کے واقعات میں سرِفہرست ممالک میں یورپ، ساؤتھ افریقا، نارتھ امریکا، ساؤتھ امریکا اور سنٹرل امریکا ہی ہے۔ ہر سال، ہر روز اور ہر گھنٹہ میں کتنی لاکھ اور کتنی ہزار عورتیں دَرندگی کی بھینٹ چڑھیں یہ سب کچھ معلوم کرنا آپ کے ایک بٹن کی دسترس میں ہے، سرکاری اعداد وشمار بھی مل جائیں گے اور بغیر رجسٹرڈ واقعات کی تعداد بھی جاننا کوئی مشکل نہیں، اپنی رضا مندی کے ساتھ ہونے والی ’’بے حرمتی‘‘ کو تو چھوڑ دیں اور اربوں ڈالر کی سیکس انڈسٹری کو بھی ایک طرف رکھ دیں تب بھی یہ اعداد وشمار ہر ذی شعور کے لیے نوشتۂ دیوار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر عریانی فطرت ہے اور جسم کی نمائش میں عافیت اور سکون ہے تو وہ معاشرہ درندوں کا معاشرہ کیوں بن رہا ہے؟ ان پریشان کُن اعداد و شمار پر وہاں کے تِھنک ٹینکس اور مذہبی رہنما کیوں چیخ رہے ہیں؟ جیسے جیسے عریانی اور فحاشی بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے ہی ہوس کی دنیا آباد ہوتی جارہی ہے، آخر کیوں؟ سدباب کے لیے آئے دن ایک نیا قانون بن رہا ہے مگر جنسی جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، آخر وجہ کیا ہے؟ خواتین کی بے حرمتی کے حوالوں سے اصطلاحات بھی آپ کی، ان کی تعریف وتشریح بھی آپ کی، جانچنے کے معیارات اور پیمانے بھی آپ کے، ادارے اور رپورٹیں بھی آپ کی، تحقیق اور اعداد و شمار بھی آپ کے۔ لیکن نتائج اخذ کرتے ہوئے یہ دانشور حضرات آخر جانبدار کیوں ہوجاتے ہیں؟ ان کی تان آخر تنقیدِ حجاب پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟ یہ بھی تو سوچیں کہ ’’ریپ‘‘ میں دنیا کے سرِ فہرست دس ممالک میں کوئی مسلمان ملک کیوں نہیں ہے؟ یہ سوال بھی تو اپنی جگہ اہم ہے کہ سعودی عربیہ، سوڈان، افغانستان، ایران اور ملایشیا کے اعداد وشمار سب سے کم کیوں ہیں؟ کیا اس لیے کہ وہاں جنسی آزادی نہیں ہے؟ کیا اس لیے کہ وہاں کا معاشرہ عریاں معاشرہ نہیں ہے؟ اور کیا اس لیے کہ وہاں پر خواتین حجاب اختیار کرتی ہیں؟ کیا اس لیے کہ وہاں سماجی اقدار میں حیا کو اعلیٰ مقام حاصل ہے؟ کیا اس لیے کہ ان معاشروں میں پردے اور برقعے کا رواج ہے؟کیا کہتے ہیں اہل نظر و اہل دانش! کچھ تو کہیے، کچھ تو بتائیے!