مریخ پر امریکہ کا نیا مشن  | پتھروں کے تمام نمونوں کو 2033تک لانے کا ہدف

جدید دنیا
نداسکینہ صدیقی
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناساخلا میں ہونے والی نئی دریافتیں اور پوشیدہ رازوں پر سے پردہ اُٹھانے کے لیے نت نئی خلائی گاڑی اور ہیلی کا پٹر خلا میں روانہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ناسا کا روور گزشتہ سال مریخ پر بھیجا گیا تھا۔ اس مشن کوسرخ سیارے سے پتھروں کے نمونے زمین پر لانے کے سلسلے کی پہلی کڑی قرار دیا گیا تھا۔

چند ماہ قبل تیسرا خلائی مشن مریخ پر روانہ کیا گیا تھا ۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات کا ایک خلائی مشن مریخ کے مدار میں پہنچا تھا جب کہ اس کے بعد چینی خلائی گاڑی بھی سرخ سیارے کے مدار میں پہنچ گئی تھی،تاہم امریکا کا پر سویرینس نامی یہ خلائی روور اس لیے اہم ہے، کیوں کہ یہ مریخ پر اتارا جانے والا سب سے بڑا امریکی روور ہے، جس کے ساتھ ایک ہیلی کاپٹر بھی ہے۔

ناسا نے مریخ کی سطح پر گاڑی اتارنے کے عمل کو ’’شو‘ ‘کا نام دیا تھا۔مریخ کی سطح کی جانب بڑھتے ہوئے اس مشن کی رفتار بیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے بتدریج کم کی گئی تھی۔ رفتار میں کمی کے لیے پیراشوٹ کے علاوہ ردِ رفتار انجن کا استعمال بھی کیا گیا، جس کے بعد مریخ کی سطح پر اترتے ہوئے اس روور کی رفتار تین کلومیٹر فی گھنٹہ رہ گئی تھی۔مریخ پر یہ چھ پہیوں والی گاڑی مارشین ایکویٹر کے شمال میں جیزیرو کریٹر کے قریب اُتاری گئی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ کیوری یوسٹی روور اب بھی فعال ہے، تاہم وہ گیل گریٹر نامی مقام سے تین ہزار سات سو کلومیٹر دور ہے۔ امریکی مشن نےسب سے پہلے مریخ کی سطح پر

پرسیویرینس نامی روور اتارنے کے بعد اس سیارے پر پانی اور زندگی کی تلاش کا کام شروع کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس مشن میں مریخی چٹانوں اور پتھروں کے نمونے حاصل کر کے اپنے پاس محفوظ کرنا بھی شامل تھا۔ اگلے دس برس میں امریکی اور یورپی مشترکہ مشن یہ نمونے حاصل کریں گے اور انہیں زمین پر پہنچایا جائے گا۔ امریکی روور انجینیٹی نامی ہیلی کاپٹر کا حامل ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر اصل میں ایک تجرباتی آلہ ہے، جس کے ذریعے ناسا کا مقصد مریخ کے کرہ ہوائی میں پرواز اور لینڈنگ سے متعلق معلومات حاصل کرنا ہے۔

اب یہ’’ پرسیویرینس روور ‘‘ مریخ پر اپنےابتدائی مقاصد مکمل کرنے کے قریب ہے ۔ناسا کی اس خلا ئی گاڑی نے مختلف اقسام کے پتھروں کے نمونے اکٹھے کیے ہیں، جنہیں جلد ہی سطح کے ایک مقام پر جمع کیا جائے گا اور مشن کی مدد سے زمین پر لایا جا سکے گا۔ ماہرین کے مطابق 17 ماہ قبل یہ خلائی گاڑی راکٹ سے نکل کر جیزیرو (شہابی گڑھے کے مقام ) پر پہنچی تھی۔پرسیویرینس نے اب تک جو کچھ بھی دیکھا ہے ،اس سے سائنس داں مطمئن ہیں کہ وہ زندگی کی تلاش کے لیے بہترین مقام پر موجود ہے۔

مریخ پر خراب ماحول کی وجہ سے کسی جاندار کی موجودگی کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں ،مگر یہ روور ایسے نمونے کی تلاش میں ہے ،جس سے معلوم ہو سکے کہ اربوں سال قبل جیز یرو ایک تالاب سے بھرا ہوا تھا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا بر کلی سے وابستہ پر سیو یرینس مشن کے سائنس داں ڈیو ڈشسٹر کا کہناہے کہ اگر جیزیرو کی یہ حالت گذشتہ 3.5 ارب برس قبل کسی بھی لمحے زمین پر کہیں بھی موجود ہوتی تو یہ فر ض کرنا ٹھیک ہو گا کہ بیالوجی نے ان پتھروں پر ایسی علامات چھوڑی ہو ں گی جن کا مشاہدہ ہم کرسکتے ہیں۔

اس منصوبے پر ناسا اور یورپی ایجنسی مل کر کام کررہے ہیں ،تا کہ ان پتھروں کے نمونوں کو زمین پر جلد لایا جاسکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیران کن منصوبہ ہو گا، جس میں ایک نیا لینڈنگ سسٹم ،ہیلی کا پٹر،مریخ کے لیے راکٹ اور ایک سیارے سے دوسرے سیارے پر جانے والا خلائی جہاز شامل ہوں گے۔ ماہرین کی کوشش ہے کہ ان نمونوں کو زمین پر 2033 ء تک لے آئیں۔
پرسیویرینس نے اس شہابی گڑھے کی سطح پر کھدائی کی اور کچھ ایسے پتھروں کے نمونے جمع کیے جو آتش فشاں کا حصہ تھے۔ ان نمونوں سے معلوم ہوگا کہ جیزیروں کے تالاب کے پانی سے بھرنے سے قبل وہاں کیا تھا۔خیال ہے کہ پتھر کی ان اقسام سے حاصل کیے گئے ہیں جن کے جا ئزے سے معلوم ہو گا کہ وہ کتنے پرانے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں مریخ پر کسی تاریخ کا تخمینہ بالواسطہ طور پر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ ان نمونوں کو 45 کلو میٹرطویل شہابی گڑھے کے مغربی حصے کے ڈیلٹا پازٹس سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ڈیلٹا ایسے ڈھانچے کو کہتے ہیں جو دریائی ریت سے بنتا ہے جب پانی آگے کی طرف بہہ جاتا ہے۔
ارضیاتی اعتبار سے یہ ایسے نمونے ہوسکتے ہیں جن میں ماضی کے مائیکروبیل جانداروں کی معلومات مل سکے۔تلچھٹ ( رفیق آمیزۂ ذرّات.)قسم کے نمونے ایک ایسی چٹان سے جمع کیے گئے جسے ’’وائلڈ کیٹ رِج‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نہر جیزیرو پر پانی کے بخارات بننے کے بعد یہ مقام اسی مٹی، ریت اور کیچڑ کے ملاپ سے بنا۔ روور کے ابتدائی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ وائلڈ کیٹ رج میں ارگینک (حیاتیاتی)، یعنی کاربن، کے مرکبات شامل ہیں۔ یہ دلچسپ مگر محدود مشاہدہ ہے۔ ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری (جے پی ایل) میں مشن انسٹرومنٹ سائنسدان سنندا شرما کا کہنا ہے کہ تمام جاندار ارگینک مرکبات سے بنتے ہیں، تاہم اہم بات یہ ہے کہ ارگینک مرکبات کیمیائی عمل سے بھی بن سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ اس کا تعلق کسی جاندار سے ہو۔
مثلاً یہ پانی اور پتھر کے ملنے سے بن سکتے ہیں۔ ارگینک مواد ستاروں کے درمیان دھول میں بھی موجود ہوتا ہے۔ گذشتہ چار مہینوں کے دوران پرسیویرینس نے اس 40 میٹر اونچی ڈھلوان پر کام کیا ہے جو ڈیلٹا کے کنارے پر واقع ہے۔ جلد یہ روبوٹ شہابی گڑھے کی ہموار سطح پر پہنچے گا جہاں ٹائٹینیئم کی محفوظ ٹیوبز میں ان پتھروں کے نمونوں کو جمع کر لیا جائے گا، پھر انھیں ایک جگہ سطح پر اکٹھا کر لیا جائے گا۔

جے پی ایل کے پراجیکٹ سسٹمز انجینئر رِک ولچ کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہوگی کہ سطح پر 10 سے 11 ایسی ٹیوبز رکھی جائیں۔ ان نمونوں کو وہاں رکھنے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں اور پھر یہ بڑی احتیاط سے درج کیا جائے گا کہ وہ کس مقام پر رکھی گئی ہیں، تاکہ مستقبل کے مشن میں انھیں ڈھونڈا جاسکے۔ ناسا کے انجینئر اس کی مشقیں کر رہے ہیں کہ ان ٹیوبز کو کیسے باہر لا کر رکھا جائے گا۔ اس وقت یہ ٹیوبز پرسیویرینس کے پیٹ میں ہیں۔ جے پی ایل کی لیب میں اس روور کی کاپی موجود ہیں۔ اس پر تجربے کرنے کے بعد مریخ پر انھیں نقل کیا جاتا ہے۔

ان نمونوں کی ڈیپو پر منتقلی کا منصوبہ حفاظتاً اختیار کیا جا رہا ہے، کیوں کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ روور مشن کے باقی حصے کے دوران خراب ہوجائے۔ اس لیے نمونوں کو ایک مقام پر منتقل کیا جائے گا ،تاکہ انھیں زمین پر لایا جاسکے۔ سائنس دان مزید نمونے بھی جمع کرنا چاہتے ہیں۔ یوں زمین پر منتقلی کے لیے اس بات پر توجہ دی جائے گی کہ روبوٹ مستقبل میں کہاں جاتا ہے۔ حتمی فیصلہ مریخ پر ہونے والے واقعات کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نہ صرف صحیح مقام پر گئے ہیں بلکہ ہم نے صحیح خلائی جہاز کو صحیح سامان کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ مریخ کے قدیم اور دلچسپ ماحول کو دیکھ کراور سمجھ کر حتمی فیصلہ کیا جاسکے ۔

جسم میں آکسیجن کی مقدار معلوم کرنے والی ایپ!
چند منٹوں میں کورونا کی تشخیص کرنے والا ماسک تیار
رفتار ٹیکنالوجی
ویب ڈیسک
سائنس دان اس جدید دور میں ہر کام کو آسان بنانےکے لیے نت نئی چیزیں تیار کر رہے ہیں ۔دمے سے لے کر کوویڈ۔19 تک متعدد کیفیات ایسی ہیں جن میں خون میں آکسیجن کی موجود گی کے متعلق پیمائش کئی مرتبہ کرنی پڑتی ہے۔ فی الحال یہ پیمائشیں پلس آکسی میٹر سے کی جا تی ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات یہ ٹیسٹ کے عمل کو پیچیدہ بناسکتا ہے۔اس عمل کو آسان بنانے کے لیے سائنس دانوں نے ایک اسمارٹ فون ایپ بنائی ہے، جس میں فون کا کیمرا اور فلیش استعمال کرتے ہوئے خون میں موجود آکسیجن کی سطح کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔یونیورسٹی آف واشنگٹن اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے محققین نے دورانِ آزمائش مشاہدہ کیا کہ اسمارٹ فون خون میں موجود 70 فی صد تک آکسیجن کی سطح کی نشان دہی کر سکتا ہے۔
یہ وہ کم مقدار ہے جس کی نشان دہی کے قابل ایک پَلس آکسی میٹر کو ہو ناچاہیے۔نئے طریقہ کار میں صارف کو ویڈیو بنانے سے قبل اپنی انگلی اسمارٹ فون کے کیمرا اور فلیش پر رکھنی ہوتی ہے، جس کے بعد ڈِیپ لرننگ ایلگورتھم فوٹیج کی مدد سے خون میں آکسیجن کی سطح کا پتہ لگاتا ہے۔ایپلی کیشن کی آزمائش کے لیے محققین نے 20 سے 34 سال کے درمیان چھ شرکاء کا انتخاب کیا۔ ہر فرد اپنی ہاتھ کی ایک انگلی میں آکسی میٹر پہنا اور پھر اسی ہاتھ کی دوسری انگلی اسمارٹ فون کے کیمرا اور فلیش پر رکھ دی۔
تحقیق کے مصنف ایڈورڈ وینگ کا کہنا ہے کہ کیمرا ویڈیو ریکارڈ کرتا ہے۔ ہر بار جب آپ کا دل دھڑکتا ہے، تازہ خون اس حصے سے گزرتا ہے جو فلیش کی وجہ سے روشن ہوتا ہے۔ کیمرا یہ ریکارڈ کرتا ہے کہ خون فلیش میں سے نکلنے والی روشنی کو پیمائش کیے گئے تینوں چینلز یعنی سرخ، ہرے اور نیلے میں کتنا جذب کرتا ہے۔ بعد ازاں حاصل ہونے والی انتہائی سطح کی پیشمائشوں کو ڈِپ لرننگ ماڈل میں ڈالا جاتا ہے۔15 منٹ کے دورانیے میں ہر فرد نے آکسیجن اور نائیٹروجن کے مصنوعی ماحول میں سانس لیا ،تاکہ آہستہ آہستہ ان کی آکسیجن کی سطح کم ہوجائے،جس کے بعد اسمارٹ فون نے آکسیجن کی سطح کی درست نشان دہی کی۔سائنس دانوں نے ایک ایسا ماسک تیار کیا ہے جو چند منٹوں میں کورونا وائرس کی تشخص کرسکتا ہے۔ وائرس کی ہوا میں نشان دہی کرکے ماسک پہننے والے کو ان کے فون میں ایک ایپ کے ذریعے مطلع کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس ماسک میں سوائن فلو برڈ فلو کی تشخیص کی بھی صلاحیت ہے۔یہ بیماریاں ہوا میں متاثرہ افراد کے بولنے، کھانسنے یا چھینکنے کی وجہ سے خارج ہونے والے چھینٹوں کی صورت میں پھیلتی ہیں۔ یہ باریک اور نا دِکھائی دینے والے مالیکیول ہوا میں کافی عرصے تک رہتے ہیں اور اس ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے لوگ بیمار پڑتے ہیں۔
چین میں محققین نے اس ماسک کی آزمائش ایک بند چیمبر میں کی جہاں ماسک پر وائرس پروٹینز کا مائع اسپرے کیا گیا۔سینسر نے صرف 0.3 مائیکرو لیٹر مائع چھڑکنے پر ہی وائر کے حوالے سے متنبہ کر دیا۔ یہ مقدار چھینک سے بننے والے چھینٹوں سے 70 سے 560 گُنا کم جب کہ کھانسنے یا بات کرنے کے سبب اس سے بھی کم قطرے بنتے ہیں۔ ماسک میں لگے سینسر میں ایپٹامرز موجود ہیں۔ یہ ایک قسم کا سائنتھیٹک مالیکیول ہوتا ہے جو پیتھوجنز میں موجود پروٹینز کی نشان دہی کرسکتا ہے۔
سائنس دانوں نے جن ماسک کی آزمائش کی ان میں موجود ایپٹامرز کووڈ-19، سوائن فلو اور برڈ فلو کی تشخیص کر سکتے ہیں۔ تحقیق کے ایک مصنف ڈاکٹر یِن فینگ، جن کا تعلق شینگھائی ٹونگجی یونیورسٹی سے ہے، کا کہنا ہےکہ گزشتہ مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ فیس ماسک بیمارے کے پھیلنے کے امکانات کو کم کردیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسے ماسک بنانا چاہتے تھے جو ہوا میں موجود وائرس کی موجودگی سے متنبہ کرے اور ماسک پہننے والے کو خبردار کرے۔

متعدد کائناتوں کا خیال !
کیامتوازی کائنات کا نظریہ درست ہے؟
علمی نظریات

حذیفہ احمد
ماہرین فلکیات کا دعویٰ ہے کہ خلاء میں متعدد کائناتیں (Multiverse) ہیں، جن میں ہماری کائنات بھی شامل ہے۔ متعدد کائناتیں بعض علمی نظر یات کا نتیجہ ہیں جن میں بالآخر ان متعدد کائناتوں کا وجود لازمی ہے، یہ نتیجہ علم کو نیات میں کوانٹم نظر یہ میں بنیادی ریاضی کو واضح کرنے کی کوششوں کے نتیجہ میں سامنے آتا ہے۔
ماہرین کے مطابق مختلف کائناتوں کو بعض اوقات متوازی کائناتیں بھی کہا جاتا ہے اور ہر کائنات کی اندرونی ساخت اور ان کے آپس میں تعلق کا انحصار مختلف نظریات پر ہے ،متعدد کائناتوں کا قیاس کونیات، طبیعیات، فلکیات، فلسفہ اور سائنس فکشن میں بھی ملتا ہے۔ اس سیاق میں متوازی کائناتوں کو مختلف ناموں سے بھی یاد کیا جا تا ہے جیسے متبادل کائناتیں ،کوانٹم کائناتیں اورمتوازی دنیائیں وغیرہ۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ہماری ٹیلی اسکوپ 14 ارب نوری سال تک بآسانی دیکھ سکتی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس کے آگے کیا ہے ؟سائنسدانوں کی تحقیق سے ہم یہ جانتے ہیں کہ کائنات ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آئی ہے ،مگر اس سے پہلے کیا تھا ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب مختلف دور میں کئی ماہرین ،فلسفیوں اور مفکروں نے دینے کی کوشش کی ہے ۔1954ء میں پرنسٹن یونیورسٹی کے طالب علم Hugh Everett نے ایک بنیادی خیال پیش کیا تھا کہ ہماری کائنات سے مشابہ دوسری کائناتیں موجود ہوسکتی ہیں اور ان ساری کائناتوں کا ہماری کائنات سے تعلق بھی ہوسکتا ہے، وہ ہماری شاخ ہوسکتی ہیں۔ ان متوازی کائناتوں میں ہماری جنگوں کا انجام اس سے قطعی مختلف ہوسکتا ہے، جس سے ہم واقف ہیں بہت ممکن ہے کہ ہماری کائنات کی ناپید انواع دوسری کائناتوں میں ترقی کر گئی ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں انسان ناپید ہوچکے ہوں۔
کوانٹم درجہ اب تک دریافت ہونے والا ادنی تر درجہ ہے، کوانٹم طبیعیات کی ابتداء اس وقت ہوئی جب 1900ء میں میکس پلانک نے یہ مفہوم پہلی مرتبہ علمی برادری میں پیش کیا، شعاعوں سے متعلق پلانک کی تحقیق ایسی دریافتوں پر منتج ہوئی جو روایتی طبیعیات کے قوانین سے متصادم تھی، ان دریافتوں نے اس کائنات میں روایتی قوانین سے قطعی مختلف قوانین کے وجود کی طرف اشارہ کیا جو انتہائی گہرائی میں کام کرتے ہیں۔
کوانٹم درجہ پر تحقیق کرنے پر طبیعیات دانوں نے دنیا کے حوالے سے عجیب امور اخذ کئے، اس درجہ پر موجود اجزاء اتفاقی طور پر مختلف صورتوں کے حامل تھے، مثال کے طور پر فوٹون (روشنی کے پیکٹ) ذرّے اور لہر دونوں طرح سے پیش آرہے ہیں۔ایک اور اہم بات جس پر ماہرین نے غور کیا کہ الیکٹرون کا کوئی معینہ مقام نہیں ہے، ذرے پر تحقیق سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ ذرّہ ایک سے زائد مقامات پر ایک ہی وقت میں موجود ہوتا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اربوں کے حساب سے متوازی کائناتیں وجود رکھتی ہیں۔ چناں چہ جب ذرّہ دوسرے مقام پر نظر آرہا ہوتا ہے تو اس وقت دوسری کائناتوں کے ذرے ہماری کائنات میں ایک نہ سمجھ آنے والے تعلق کے ذریعے ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایک اور مثال تاریک مادّے کی ہے جو نظر نہیں آتا، مگر اس کے تجاذب سے اسے پہچانا جاتا ہے اور جو کائنات کا نوے فی صد حصہ بھی ہے، ممکنہ طور پر یہ تاریک مادّہ متوازی کائناتوں میں بھی موجود ہے جو تجاذب کے اثر سے ہماری کائنات پر اثر انداز ہو رہا ہے، اسٹرنگ نظریہ کے مطابق یہ تاریک مادّہ متوازی کائناتوں کے درمیان منتقل ہوسکتا ہے۔
درحقیقت کئی راستے ہمیں متعدد کائناتوں تک لے جاتیں ہیں، صرف ا سٹرنگ نظریہ ہی نہیں، بلکہ ذرّے کی حرکت بھی جو ایک وقت میں کئی مقامات پر ہوسکتی ہے.۔ان دو راستوں کے علاوہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کائناتی مستقل ایک معینہ عدد پر ہی کیوں رک گئے ہیں جیسے کشش، گیسوں کے عمومی قوانین اور دیگر، ہوسکتا ہے کہ یہ مستقل دوسری دنیاؤں میں مختلف قدریں رکھتے ہوں، مثلاً لا متناہی ہوں ؟
اسٹرنگ نظریےکے بانی میشیو کاکو (Michio Kaku) کے مطابق جب ہم ایک کائنات کے وجود کی اجازت دیتے ہیں تو ساتھ ہی ممکنہ دوسری لامتناہی کائناتوں کے لئے بھی امکانات کے دروازے کھول دیتے ہیں، جہاں تک کوانٹم میکینکس کی بات ہے تو الیکٹرون کسی معینہ مقام پر نہیں ہوتا بلکہ مرکز کے گرد تمام ممکنہ مقامات پر ہوتا ہے، مگر کائنات الیکٹرون سے بھی چھوٹی تھی ( دھماکے یا بگ بینگ کے وقت) اور اگر ہم کوانٹم میکینکس کو تمام کائنات پر لاگو کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کائنات تمام متعدد اور ممکنہ حالتوں میں بیک وقت موجود ہوگی، اور یہ مختلف اور ممکنہ حالتیں ہی دراصل متعدد کائناتیں ہیں۔
میشیو کاکو کے علاوہ دیگر ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ کوانٹم نظریہ کو کائنات پر لاگو کرنے کا نتیجہ متعدد کائناتیں ہی ہوگا۔ممکنہ طور پر ان متعدد کائناتوں میں سے کچھ کائناتیں اس مرحلہ سے بھی گزری ہوں گی ،جس میں زندگی کو پروان چڑھنے کا موقع ملا ہوگا، اور جب بھی کسی کائنات سے کوئی کائنات پیدا ہوتی ہے طبیعیاتی قوانین تھوڑے سے بدل جاتے ہیں۔اس طرح ایسی کائناتیں بھی پیدا ہوسکتی ہیں جن میں طبیعیاتی قوانین عکسی ہوں۔ چناں چہ ان کا انجام فناء ہوگا۔ یعنی وہ فوراً ہی اپنے آپ میں ڈھیر ہوجائیں گی، ایسی کائناتوں کے تشکیل پانے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا جن میں غلط ابعاد ہوں۔ یقیناً کچھ کائناتوں کے طبیعیاتی قوانین درست ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ان میں ستارے اور سیاہ شگاف تشکیل پاسکتے ہیں ۔
ماہرین نے ایک ایسا خالی علاقہ دریافت کیا ہے، جس کا رقبہ اب تک دریافت ہونے والے تمام خالی علاقوں سے زیادہ ہے، یہ خالی علاقہ ہم سے تقریباً 8 ارب نوری سال دوری پر واقع ہے اور اس کا قطر ایک ارب نوری سال سے کم نہیں ہے، یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ماہرین نے کائنات میں کوئی خالی علاقہ دریافت کیا ہے، ہم اب تک 30 ایسے ضخیم علاقوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کا رقبہ کئی ملین نوری سالوں پر محیط ہے، مگر حال ہی میں دریافت ہونے والا یہ خالی علاقہ نظر آنے والی کائنات سے بھی کہیں بڑا ہے، اتنا بڑا کہ عظیم دھماکے کو ماننے والے کو اس کی توجیہ بیان کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اس کی مناسب توجیہ بیان کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ علاقہ ایک دوسری کائنات کا نشان ہے جو ہماری کائنات کی دیوار کو دبائے ہوئے ہے۔ ساؤٹھ کیر یونیورسٹی کی تحقیق کار لورا کا کہنا ہے کہ علمِ کونیات اس جیسے ضخیم خلاء کی توجیہ بیان نہیں کر سکتا۔
کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ خالی علاقہ ہماری کائنات کے بننے کے ابتدائے دور میں اس کی پڑوسی کائنات سے ٹکرانے کے نتیجہ میں تشکیل پایا ہے، جب ہماری پڑوسی کائنات ہماری کائنات کے اس حصہ سے ٹکرائی تو اس نے سارے مادّے کو اس علاقہ سے ادھر ادھر دھکیل دیا اور اس طرح وہ علاقہ خالی ہوگیا یا اس میں انتہائی کم کائناتی اجسام رہ گئے۔
اگر یہ درست ہوا تو پہلے سے دستیاب متعدد کائناتوں کے نظریاتی ماڈلوں سے مشابہ یہ پہلا تجرباتی ثبوت ہوگا ساتھ ہی یہ ا سٹرنگ نظریے کی بھی دلیل ثابت ہوسکتا ہے، کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر متعدد کائناتی نظریہ درست ہے تو ایسا ہی ایک مشابہ خلاء شمالی کرۂ ارض کے آسمانی علاقے میں ہونا چاہیے۔ماہرین فلکیات کے درمیان کرائی گئی ایک رائے شماری کے مطابق 60 فی صد ماہرین کا خیال ہے کہ متوازی کائنات کا نظریہ درست ہے۔
’بایو ڈیزل ‘کو ایندھن بنانے کی کوششیں جاری
ماحول دوست ایندھن زہریلے اجزاءسے پاک ہوگا
رفتارِ زمانہ

عزیز احمد

بایو ڈیزل متعدد فوائد کی بدولت پوری دنیا میں متبادل توانائی کے طور پر مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ماہر ین کے مطابق اس کے ذریعے زمین کو کچرے کے ڈھیر سے بچایاجاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ فضا کو روایتی گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں اور زہریلی بو سے بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بایو ڈیزل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پیٹرولیم یاکوئی دیگر فیول شامل نہیں ہے۔ یہ 100 ویجی ٹیبل آئل کی بنیا د پر بننے والا ایندھن ہے ۔بایو ڈیزل میں تھوڑی بہت ردوبدل کرکے یا ایسے ہی رکھتے ہوئے بہ خوبی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں اسے روایتی ایندھن ڈیزل کے ساتھ بلینڈ کرکے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوںمیں خطرناک اجزاء کے اخراج میں واضح کمی کی جاسکتی ہے۔ اختصار کے ساتھ بلینڈز کی نشان دہی Bxx کی صورت میں کی جاتی ہے، جس میں سے مراد مکسچر کے اندر بایو ڈیزل کی مقدار ہے۔ مثلاً استعمال ہونے والا بلینڈ B20 ہے۔اس میں 20 فی صد بایو ڈیزل اور 80 فی صد اسٹینڈر فیول ہوتاہے ۔اسی طرح جب B100 لکھا ہے تو اس سے مراد 100 فی صد بایوڈیزل ہوتا ہے۔ تیکنیکی اعتبار سے بایو ڈیزل فیٹی ایسڈ میتھائل ایسٹر (Fatty Acid Methyl Ester) ہے۔
اسے ویجی ٹیبل آئلز سے گلیسرین کی شکل میں گلیسرول مالیکیول الگ کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ جب آئل میں سے گلیسرین نکل جاتی ہے تو باقی بچنے والے مالیکیولز، ڈیزل انجنوں کے لئے پیٹرولیم ڈیزل فیول کی طرح استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان دونوں ایندھنوں میں بعض فرق نمایاں ہیں۔ بایو ڈیزل کے مالیکیولز سادہ ہائیڈروکاربن کے زنجیری سلسلوں (chains) پر مشتمل ہوتے ہیں اور اس میں فوسل فیول کی طرح سلفر، زنگ مالیکیولز اور ارومیٹکس نہیں پائے جاتےبلکہ بایو ڈیزل میں لگ بھگ 10 فی صد آکسیجن ہوتی ہے جو کہ اسے قدرتی oxygenated ایندھن بناتی ہے۔
چوںکہ بایو ڈیزل میں زہریلے اجزاء نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ بھڑک کر جلتا ہے، اس لئے اس کی ا سٹوریج کا عمل بھی روایتی پیٹرولیم ڈیزل فیول کی نسبت زیادہ آسان ہے اور لاگت میں بھی یہ پیٹرولیم ڈیزل کے مقابلے میں کم ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بایو ڈیزل سے بے شمار فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیںاور اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اسے پہلے سے موجود انجنوں اور فیول انجکشن آلات کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے کسی ردوبدل کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے آپریٹنگ پرفارمنس پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے۔
یہ ڈیزل کے برابر چلتا ہے اور بھاری بھرکم گاڑیوں کے لئے واحد متبادل فیول ہے ،جس کے لئے ڈسپنسنگ اورا سٹوریج کے خصوصی آلات کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بایوڈیزل کو ہر اس جگہ پر اسٹور اور فروخت کیا جا سکتا ہے جہاں روایتی ڈیزل رکھا اور بیچا جاتا ہے۔ اس کا فلیش پوائنٹ بہت بلند (300 درجے فیرن ہائٹ) ہے اور یہی چیز اسے سب سے زیادہ محفوظ اور متبادل ایندھن بناتی ہے۔ یہ واحد متبادل ایندھن ہے جو کہ اپنی لبریکیٹنگ خصوصیات کی بدولت انجن کی لائف بھی بڑھاتا ہے۔
یہ ایک ماحول دوست ایندھن ہے، جس کے جلنے سے ایسے زہریلے اجزاء خارج نہیں ہوتے جو ماحولیات کے لئے نقصان دہ ہوں۔ یہ واحد متبادل ڈیزل فیول ہے جو کہ ہماری فضا میں سے گرین ہائوس گیس کمپوننٹس کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بایو ڈیزل کے استعمال سے کاربن مونو آکسائیڈ، اوزون فارمنگ ہائیڈروکاربنز، خطرناک ڈیزل پارٹیکولیٹ اور تیزابی بارشوں کا سبب بننے والے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور لائف سائیکل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں واضح کمی ہو سکتی ہے۔ ماہرین کواُمید ہے کہ یہ مستقبل میں بہترین ایندھن کے طور پر استعما ل ہوگا اور لوگ اس سے استفادہ بھی کریں گے۔