ماہِ رمضان ۔رحمتوں اور برکتوں کا موسمِ بہار روشنی

میر امتیاز آفریں

آج اس دورِ پر آشوب میں جب ہم ان گنت سماجی اور روحانی مسائل و مشکلات سے جھوج رہے ہیں، روحانیت اور طمانیت کی برکتوں کے ساتھ ایک بار پھر سے ماہِ رمضان ہم پر سایہ فگن ہورہا ہے اور ہماری کھوئی ہوئی امیدوں کو نوید سحر سنانے والا ہے۔ اس مہینے میں اہل ایمان دن کو روزہ رکھتے ہیں،راتوں کو قیام کرتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور صدقات و خیرات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔یہ مہینہ نزولِ قرآن کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے جو لازوال رہنمائی اور حکمت کا سرچشمہ ہے۔ تاہم، ان ناگفتہ بہ مشکل حالات میں ہمیں روزے کے مقصد پر غور کرنا ہوگا اور اس مہینے کی تمام برکات کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ رمضان المبارک ربانیت پیدا کرنے اور خود کو تقویٰ و طہارت سے مزین کرنے کا بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔
مذہب کے ذریعے حاصل کیے جانے والے بہت سے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد نفس، روح اور عقائد کی تطہیر و تہذیب ہے اور روزہ تربیتِ نفس کے لئے قدیم ترین عبادت ہے۔راہِ سلوک کے مسافروں کے لئے ماہِ رمضان اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ خصوصی طور پر اس با برکت مہینے کا انتظار و استقبال کرتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ماہ رمضان ہر سال بندے کی روحانی و اخلاقی تطہیر و تہذیب کا مکمل پروگرام لے کر آتا ہے۔ شیخ احمد سرہندیؒ فرماتے ہیں:
’’اگر کسی شخص کو اس مہینے میں خیرات اور اعمال صالحہ کی توفیق مل جائے تو سارا سال یہ توفیق نصیب رہتی ہے اور اگر اس کا یہ مہینہ کوتاہی اور پراگندگی میں گزرا تو تمام سال پراگندہ رہے گا ،لہٰذا جہاں تک ہو سکے ،اس مہینے میں اعمال صالحہ پر جمعیت و پابندی کی کوشش کرنی چاہئے اور اس ماہ مقدس کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔‘‘
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقویٰ اور تزکیہ نفس کے حصول کے لیے اسلام کے ستونوں کی صورت میں پانچ نکاتی طرز عمل بتایا جو نہ صرف انسانی فطرت کے موافق ہے بلکہ آسانی سے قابل عمل بھی ہے۔ روزہ ایسا ہی ایک اہم ستون ہے جو تقویٰ کے حصول اور تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔ حصولِ تقوٰی روزے کی اصل غایت ہے ۔تمام شریعت کی بنیاد تقوٰی پر ہے ، تقوٰی پیدا ہوتا ہے جذبات و خواہشات پر قابو پانے کی قوت و صلاحیت سے اور اس قوت و صلاحیت کی سب سے بہتر تربیت روزوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔
روزے کا مقصد یہی ہے کہ تمام اخلاق رذیلہ اور اعمال بد سے انسان مکمل طور پر دستکش ہوجائے۔تم پیاس سے تڑپ رہے ہو، تم بھوک سے بیتاب ہورہے ہو، تمہیں کوئی دیکھ بھی نہیں رہا۔ ٹھنڈے پانی کی صراحی اور لذیذ کھانا پاس رکھا ہے لیکن تم ہاتھ بڑھانا تو کجا آنکھ اٹھا کر ادھر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔اس کی وجہ صرف یہی ہے نا کہ تمہارا ربّ تمہیں دیکھ رہا ہے اور یہ اسی کا حکم ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ روزے کا تصور ہر مذہب اور معاشرے میں کم و بیش کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ لیکن اسلام نے بالکل منفرد انداز میں اسے فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق پیش کیا ہے۔ روزے کے دوران ایک مسلمان اپنی مرضی سے کھانے پینے اور جماع کی پابندیاں اپنے اوپر لگاتا ہے جو جسم اور روح کے لیے مفید ورزش فراہم کرتی ہیں۔ روزہ ایک تربیتی کورس ( Training Course) ہے جو سال بھر کے لیے جسم اور روح کو تقوٰی و طھارت کے لئے تیار کرتا ہے اور اپنے اندر فرد اور معاشرے میں ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ہر چیز کی زکوٰة ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰة روزہ ہے ۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا، ’’نماز پڑھو نجات پا جائوگے، زکوٰۃ ادا کرو فلاح پا جائوگے اور روزے رکھو، صحت و تندرستی پائو گے۔‘‘
روزہ صرف اخلاقی و روحانی فوائد کا ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی اس کے بے شمار طبی فوائد مختلف سائنسدانوں نے دریافت کئے ہیں۔قرآن میں روزے کا مقصد حصولِ تقویٰ بیان کیا گیا ہے اور تقوٰی انسان میں صبر و شکر کی کیفیات پیدا کرتا ہے۔ روزہ انسان کو قنوطی اضطراب سے نکال کر شاکر و ساکن بنا دیتا ہے۔
روزے کا عمل اسے اندر سے اتنا طاقتور بنا دیتا ہے کہ وہ آزمائش اور مصیبت کے وقت استقامت کے ساتھ درپیش مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی امید کی اُجلی کرن کھوج لے آتا ہے۔ روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اس سے انسان میں بے لوثی اور قربانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ اس عملی تجربے کے ذریعے معاشرے کے پسماندہ طبقات کے دکھوں کا شدید احساس پیدا کرتا ہے۔ ماہ رمضان ‘مواسات یعنی باہمی ہمدردی اور رفاقت کا مہینہ ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے اور بانٹنے کا سلیقہ سیکھنے کے قابل بن سکتے ہیں۔رحمتوں اور برکتوں کا اتنا عظیم الشان مکمل پیکیج (Complete Package) ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی ہم روزے کے ثمرات سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہم نے روزے کے دینی و اخلاقی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اس عظیم عمل کو خالی پیٹ اور پیاسا رہنے تک محدود کر دیا ہے ۔ بقول اقبالؒ:
رگوں ميں وہ لہو باقی نہيں ہے
وہ دل ، وہ آرزو باقی نہيں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں ،جنہیں روزے سے سوائے پیاس اور بھوک کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے ایسے نمازی ہیں جنہیں رات کو جاگنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
عجیب بات ہے کہ ہم روزہ رکھ کر بھی گپ شپ، جھوٹ، غیبت،بغض و حسد، بد دیانتی اور غفلت نہیں چھوڑتے اور رمضان کے اثرات و برکات سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہِ رمضان سے تربیت پا کر بندہ ہمہ وقت اس حالت میں رہے کہ تقوٰی اس کا اوڑھنا بچھونا ہو اور وہ سماج کے لئے سراپا خیر بن جائے۔
[email protected]