ماں

جسم میں جیسے جاں ہوتی ہے
وہ اپنی ماں ہوتی ہے
وفا کی خوشبو سے بھری ہوئی
محبت کا اک گلستان ہوتی ہے
سُدھ بدھ کھوئی یاد میں اُنکی
یہ مشکل کب آسان ہوتی ہے

اَب ہجر میں رہیں خاموش
آنکھوں سے ندی رواں ہوتی ہے
قدم قدم پر ڈھال جیسی
جہاں کوئی نہ وہاں ہوتی ہے
اور مضبوط سہارے کی دیوار
سر پہ جیسے آسماں ہوتی ہے

جن کی نہیں ہیں مائیں سحرؔ
اب اُنکی عید کہاں ہوتی ہے

ثمینہ سحر مرزاؔ
بڈھون راجوری، جموں