لیو اِن رلیشن شپ کے تباہ کن نتائج یمنا کنارے

سہیل انجم

ہم اپنے اس کالم کا آغاز مرکزی وزیر کوشل کشور کے اس بیان سے کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے ’لیو اِن رلیشن شپ‘ (شادی کے بغیر مرد عورت کے ایک ساتھ رہنے) کے خلاف دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو اپنے والدین کی مرضی کے برخلاف لیو اِن رلیشن شپ میں نہیں رہنا چاہیے۔ اگر والدین اس کے لیے راضی نہیں ہیں اور لڑکیاں شادی کے بغیر کسی مرد کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تو انھیں پہلے اس رشتے کو رجسٹر کرانا چاہیے۔ انھوں نے آجکل سرخیوں میں چھائے ہوئے شردھا والکر کے وحشیانہ قتل کے واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ایسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لڑکیا ںاگر ’کسی اور‘ (مسلمان) کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تو انھیں والدین سے اجازت لینی چاہیے۔ اگر چہ کچھ لوگوں نے ان کے اس بیان کی یہ کہہ کر مخالفت کی ہے کہ یہ خواتین کی توہین ہے لیکن ہم ان کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں اور ان کی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہنا چاہتے ہیں کہ خواہ تعلیم یافتہ لڑکیاں ہوں یا غیر تعلیم یافتہ، کسی کو بھی شادی کے بغیر کسی مرد کے ساتھ رہنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ کسی مرد کو بھی شادی کے بغیر کسی عورت کے ساتھ نہیں رہنا چاہیے۔ اگر والدین اپنی نام نہاد روشن خیالی کے سبب رہنے کی اجازت دے بھی دیں تب بھی نہیں رہنا چاہیے۔ اور جہاں تک ممکن ہو شادی بھی والدین کی مرضی سے کرنی چاہیے۔ والدین کے فیصلے بعض اوقات اولاد کے لیے ناقابل قبول ہوتے ہیں اور وہ انھیں اپنے خلاف تصور کرنے لگتی ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ایسی اولاد کو وقت کے ساتھ ساتھ والدین کے فیصلوں کے درست ہونے کا احساس ہوتا ہے اور انھیں اس وقت اپنی غلطی محسوس ہوتی ہے جب وقت ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ لہٰذا مذاہب اور معاشروں نے مرد و خواتین کو میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کے لیے جو اصول مرتب کیے اور جو قوانین و ضوابط وضع کیے ہیں ان کی ہر حال میں پابندی کی جانی چاہیے۔ جب ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اسی قسم کی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لیو اِن رلیشن شپ جیسے قبیح اور ناپسندیدہ عمل کو آگے بڑھانے میں عدلیہ سے سہارا ملا ہے۔ سپریم کورٹ نے اور بعض ہائی کورٹوں نے بھی شادی کے بغیر ازدواجی رشتے کو جائز قرار دیا ہے اور آئین و دستور کے حوالے سے کہا ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق ہے، وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور کس طرح رہنا چاہتا ہے اس کا فیصلہ اسے خود کرنا ہے۔ اس معاملے میں قانون مداخلت نہیں کرتا۔ یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ آئین یہاں کے ہر شہری کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کا حق دیتا ہے لیکن سماج میں باعزت زندگی گزارنے کے لیے جو قاعدے قانون تشکیل دیے گئے ہیں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان قوانین و ضوابط سے روگردانی کی وجہ سے سماج میں بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں کہ لیو اِن رلیشن شپ جیسا رشتہ کتنا کامیاب ہے اور کتنا ناکام لیکن بہرحال ایک مہذب سماج میں اس کی گنجائش بہت کم ہے اور ایسے رشتے کی ہر حال میں حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ ورنہ اگر یہ رجحان زیادہ بڑھا تو سماج میں بڑی ابتری پھیل جائے گی اور شادی کے مقدس بندھن میں بندھنے کے بجائے لوگ یوں ہی زندگی گزارنے کو ترجیح دینے لگیں گے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایسے رشتے سے پیدا ہونے والی اولاد کی سماج میں کیا حیثیت ہوگی اور وراثت میں اس کا کتنا حق ہوگا۔ اس معاملے میں ماہرین قانون و سماجیات کی رائے قابل غور ہوگی۔
بہرحال اس وقت ایک مسلم نوجوان آفتاب پونہ والا کے ہاتھوں ایک ہندو لڑکی شردھا والکر کے وحشیانہ قتل کا معاملہ میڈیا میں چھایا ہوا ہے۔ دونوں ممبئی کے باشندہ تھے اور شادی کے بغیر میاں بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہتے تھے۔ والدین کی جانب سے اس رشتے کی مخالفت کی وجہ سے دونوں دہلی آگئے۔ یہاں ان میں شادی کے معاملے پر اختلاف ہوا اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی۔ لیکن شردھا نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کا عاشق اس کو قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ آفتاب نے شردھا کو قتل کرنے کے بعد اس کے جسم کے35 ٹکڑے کیے اور انھیں رکھنے کے لیے بہت بڑا فریج خریدا۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ وہ پہلے ایک ہوٹل میں شیف تھا اور اسے گوشت کاٹنے کا تجربہ تھا۔ اس نے اپنی اس مہارت سے کام لیتے ہوئے لاش کے ٹکڑے کیے۔ وہ روزانہ رات کے سناٹے میں نکلتا اور مہرولی کے جنگلوں میں جا کر جسم کا ایک ٹکڑا پھینک آتا۔ اس طرح اس نے بیشتر ٹکڑوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب پولیس ان ٹکڑوں کو تلاش کر رہی ہے۔ شردھا کے جسم کا ایک ٹکڑا کسی ایک جگہ مل رہا ہے تو دوسرا ٹکڑا کسی دوسری جگہ۔ انہی دنوں میں اپنے محبوب کو قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے کرنے سے متعلق کئی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں اور بن رہی ہیں۔ اس سے قبل بھی اس قسم کے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ کسی نے اپنے محبوب کو مار کر اس کی لاش کو تندور میں جلا دیا تو کسی نے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ بہرحال یہ بات بڑی ناقابل فہم سی لگتی ہے کہ وہی شخص جو اپنے محبوب کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لانے اور تازندگی اس کی غلامی کی قسمیں کھاتا ہے وہ ایسا درندہ کیسے ہو جاتا ہے کہ اسی محبوب کو وحشیانہ انداز میں قتل کرتا ہے اور پھر اس پر اس قدر جنون سوار ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے مردہ جسم کے ٹکڑے بھی کر دیتا ہے۔ اس وقت اس کے جسم پر لرزہ طاری نہیں ہوتا۔ اس کو اپنے محبوب کے ساتھ گزارے ہوئے دن یاد نہیں آتے۔ اس کو اس کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کی یاد نہیں آتی۔ اس کو یہ بھی یاد نہیں آتا کہ انسانی جان قدرت کا ایک عطیہ ہے اور اسے ختم کرنے کا اسے کوئی حق نہیں۔ حالانکہ عشق و عاشقی کی روایتی کہانیوں میں تو یہی سنتے آئے ہیں کہ اگر محبوب نے اپنے عاشق کے جذبات کا خیال نہیں کیا تو عاشق اس کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتا کہ اس سے اس کی بدنامی ہوگی۔ لیکن اب وہی انسان کیسے اتنا نیچے گر گیا ہے کہ وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جس کی توقع کسی صحیح الدماغ شخص سے نہیں کی جا سکتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماج میں انسانی اقدار کو جو زوال آیا ہے اس نے انسانوں کو انسانیت کے مرتبے سے نیچے گرا دیا ہے۔
یہاں پس نوشت کے طور پر یہ بات بھی کہنے کی ضرورت ہے کہ ایسے انسان تو اپنے عقل و ہوش سے بیگانہ ہو جاتے ہیں لیکن جو ایسی حرکتوں کے مرتکب نہیں ہوتے ،وہ ان کی آڑ میں دوسروں کو مذموم انداز میں نشانہ کیسے بنا لیتے ہیں۔ شردھا اور آفتاب کے واقعے کی آڑمیں ایک طبقہ مسلمانوں کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہے۔ میڈیا تو اس میں شامل ہے ہی، مسلمانوں سے نفرت کرنے والے عناصر بھی اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ ایک شخص نے ٹویٹر پر دو فریج بنائے۔ ایک میں پھل فروٹ رکھا اور دوسرے میں انسانی اعضا کے ٹکڑے رکھے اور کیپشن میں لکھا کہ ’یہ ہمارا فریج ہے اور وہ ان کا فریج ہے‘۔ اس طرح ذہنی و دماغی خلجان کو بھی مذہب کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے لو جہاد بھی کہا جا رہا ہے۔ لیکن اسی درمیان غیر مسلموں کی جانب سے قتل کرکے جسم کے ٹکڑے کیے جانے کو کوئی نام نہیں دیا جا رہا۔ اگر مسلم نام والا کوئی شخص ایسی حرکت کرے تو وہ لو جہاد ہے لیکن اگر غیر مسلم نام والا کوئی شخص یہی حرکت کرے تو اس کو کیا نام دیا جائے گا؟ آج سوشل میڈیا پر اسلاموفوبیا کا طوفان آیا ہوا ہے اور اس طوفان کو قومی میڈیا ہوا دے رہا ہے۔ ہم آفتاب کے ہاتھوں شردھا کے بہیمانہ قتل کی شدید انداز میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ جرم مسلمانوں کو بدنام کرنے والا ہے۔ لیکن جو لوگ اس کی آڑمیں اسلاموفوبیا کو ہوا دے رہے ہیں، ان کی بھی اسی طرح مذمت کی جانی چاہیے۔
ای میل – [email protected]