لہو لہو تخلیق افسانہ

رحیم رہبر

شہر کے سب آوارہ کُتے میونسپلٹی کے اُس بڑے ڈسٹ بن کے ارد گرد جمع ہوگئے تھے۔ کچھ کتے ڈسٹ بن میں گُھس گئے تھے اور کچھ ڈسٹ بِن میں جانے کی تگ و دو میں لگے تھے۔ یہ انوکھا منظر تھا!
دراصل یہ اُس دن کا واقعہ ہے جب عزیز وگے کی اکلوتی بیٹھی جلّی انٹرویو دینے صبح گھر سے نکلی پر شام کو گھر واپس نہیں پہنچی۔۔۔۔ کافی تلاش کے بعد جلّی کا کہیں سراغ نہیںملا۔
ایک دوشیزہ کے غائب ہونے پر بازار بند نہیںہوا نہ کسی نے ہڑتال کی کال دی! نہ کوئی آنکھ نم ہوئی! کسی شاعر نے جلّی کے غائب ہونے پر مرثیہ نہیں لکھا! اس کے برعکس الیکٹرانک میڈیا ۔۔۔ سوشل میڈیا نے اس کربناک خبر کو کیش کیا!
’’انسانیت کہاں گئی؟ بے شک جلی ایک غریب چرواہے کی بیٹی ہے، پر انسان ہے!۔۔۔۔ ظالم لوگ جلی کی گمشدگی کو مذاق بنا رہے ہیں۔ سیول سوسائٹی جلّی کے اچانک غائب ہونے پر خاموش کیوں ہے؟ بھلا! انسان اتنا سنگ دل کیسے ہوسکتا ہے!؟ آج جلّی غائب ہوئی۔۔۔ کل کسی اور بیٹی کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے!
پنجاب کی ایک بیٹی روئی تھی تو وارث شاہ نے ایک لمبی داستان لکھی۔۔۔ آج لاکھوں بیٹیاں رو رہی ہیں ، دھرتی بیٹیوں کے لہو سے بھر گئی ہے! جس دھرتی پر پیار اور محبت کے نغمے گونجتے تھے۔۔۔ اس دھرتی پر اب بیٹیوں کی سسکیاں سنائی دے رہی ہیں۔
’’جلّی کا جُرم کیا تھا؟ وہ حسین تھی۔۔ یہی اُس بے چاری کا جُرم تھا۔‘‘
میں اور بھی بہت کچھ سوچ کے کینسواس پر لکھ رہا تھاکہ کتنے زور زور سے بھونکنے لگے۔ انہوں نے میری فکر کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں اُن آوارہ کتوں کو پھر سے دیکھنے لگا۔ وہ ڈسٹ بن میں آپس میں لڑ رہے تھے۔ اسی اثناء میں خون سے لت پت سفید رنگ کا ایک کُتا ڈست بن سے باہر آگیا۔ اُس کے منہ میں خون آلودہ کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔
آخر کار ایک کے بعد ایک سب کتے اس ڈسٹ بن سے باہر آگئے۔ صرف ایک کمزور کتا اُس ڈسٹ بن میں پھنس گیا تھا۔ وہ چلا رہا تھا۔ مجھے اس بےچارے کمزور کتے پر ترس آیا۔ مجھے دفعتاً رابعیہ بصریؒ کا وہ واقعہ یا دآگیا۔ جب اُس نے صحرا میں ایک پیاسے کُتے کو پانی پلایا تھا اور اس کام پر اس کو بہت ثواب ملا تھا۔
میں اپنی کار سے نیچے آگیا اور اس کمزور کتے کو ڈسٹ بن سے باہر نکالا۔
میرے پائوں تلے زمین کھسک گئی جب میں نے اس کمزور کتے کے منہ میں جلّی کی سرٹیفکیٹ دیکھی جس پر جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔۔۔۔!!!

��
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ، بڈگام، کشمیر،موبائل نمبر؛9906534724