فکری تضاد ۔۔۔ایک آفت

میر حسین
جس معاشرےاور قوم میں عدل اور عادل خاک نشین اور ظلم وعناد بَر تخت ہو،اُس قوم اور معاشرے کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔ اس قول کے عین مطابق واضح ہے کہ کسی سبب دورِ حاضرہ میں عدل اور انصاف پچھڑ کر رہ گیا ہےاور جبرو عناد مستحکم ہورہا ہے۔ایسا اس لئے ہے کیونکہ فکری تضاد نے ہر سو نفوذ کیا ہے ۔ایک ہی موضوع ،عنواں ،قول،احکام وغیرہ پر مختلف افراد مختلف آراء و تجاویز اور سوچ کے شکار ہیں ۔فکری تضاد کا آغاز ہر کسی کے گھر سے ہو کر عالمی سطح کے ایوانوں تک جاتا ہے ۔ایک شاگرد سے لے کر دنیا کے بڑے بڑے سیاست دانوں تک خواہ اُستاد ہو یا عالم ،ماہر اقتصاد ہو یا مفکر ،ڈاکٹر ہو یا انجینئر سب اس تضاد کی زد میں آ چکے ہیں ۔
جہاں تاریخ میں اس تضاد نے عدل کے علمبرداروں کو راہ سکوت اختیار کرنے پر مجبور کیا وہی موجودہ نام نہاد انقلابی دور میں اس مصیبت نے ہر ذی شعور انسان کی نیند حرام کر دی ہے۔ہر سو نفرت بھرے ماحول کو وجود مل رہا ہے اور عوام الناس کا دم گھٹ رہا ہے۔
فطری لحاظ سے ’’میں ‘‘کا شکار انسان ہر وقت اپنی فکر کی ترویج و تشویق میں مصروف رہتا ہے اور اکثر کوشش کرتا ہے کہ دوسروں پر تسلط حاصل کروں ۔اگر غلبہ مادی لحاظ سے پانے میں ناکام رہا تو فکری تسلط کرکے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کوشاں رہتا ہے اور نتیجہ میں عام لوگ ذہنی انتشار اور تضاد کا شکار ہوتے ہیں۔اس طرح عوام دوسروں کے’’ میں‘‘ کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔کیا کسی ایک فرد کی اَنّا پر قربان ہونے والی قوم بیوقوف کہلائے گی؟کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں نے اپنی عقلیں دوسروں کے حوالے کیں؟کیا اس بات سے واضح نہیں ہوتا کہ عوام الناس اکثر جاہل ہوتے ہیں یا جہالت کا لبادہ اوڑھ رہے ہیں؟
فکری تضاد کے جڑوں کو استحکام بخشنے میں صاحب اقتدار یا اقتدار کے ہوس لوگ نظر آتے ہیں ۔ تخت،کرسی اور مقام ملتے ہی یا کسی طرح اصل حقداروں سے حق غصب کرکے دوسروں پر حکم چلانے کا آغاز کرتے ہیں ۔چونکہ عوام اپنے ہادیان و رہبران کے مطیع ہوتے ہیں، لہٰذا لیڈران اور رہبروں کے فکری جمود اور استکبار کا شکار ہونے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوتی ۔تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم کج فکر اور پست سوچ کے قایل رہبروں کے مطیع تھے وہ اپنے لیڈروں سمیت زمین بوس ہو گئے ۔کربلا کا عظیم سانحہ بھی فکری جمود کے پس منظر میں سامنے آیا ۔جنگ صفین میں علی علیہ السلام کو خون جگر صرف اس لیے پینا پڑا کہ لشکر اسلام فکری تضاد کا شکار ہوئی۔غرض تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فکری جمود اکثر قومی و سماجی فتنوں کی جڑ ہے۔فکری تضاد کے سبب سماج و قوم میں عدم اعتمادی کے وجود نے جڑ پکڑ لی ہے اور حقیقت وحق پرست افراد خانہ نشین ہو رہے ہیں۔بے شعور،نا فہم اور لا علم علماء اور لیڈران کا بول بالا و تسلط ہوا ہے جسکا انجام اصل بات کی پوشیدگی ہے۔منتشر سوچ کو لے کرمعصوم لوگ مختلف گناہوں اور برائیوں مثلاً بد گمانیاں ،تہمت ،غیبت وغیرہ کے جال میں آچکے ہیں۔فکری تضاد کی شکار سماج یا قوم سیاسی،اقتصادی ،معاشرتی اور مذہبی لحاظ سے روز افزوں زوال پزیر ہو رہی ہے اور دنیا کی ترقی کے مقابلے میں ذلت کا منہ دیکھ رہی ہے۔
فکری جمود اور تضاد کی لعنت سے قوموں کو نجات دلانے کے لیے لازمی ہے کہ ذمہ دار افراد اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں ۔مذہبی اور سیاسی لیڈران کا فرض ہے کہ وہ علمی اور نجی گفتگو کو عوام کے حوالے نہ کریں۔علماء اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عزت کرے تاکہ عوام بھی ایک دوسرے پر اعتماد کرنا سیکھیں ۔ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہر صورت میں علمی لحاظ سے خود کو لیس کر لیں تاکہ آنے والے کسی بھی چیلینج کا سامنا کیا جائے ۔فلم سازی کی اطاعت سے بہتر ہے کہ قلم سازی کو فروغ دیا جائے تاکہ حقیقت کو سمجھنے میں دِقت نہ ہو ۔سب سے بڑھکر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم فکر ناب کے حصول کی تاک میں رہیں، جسکے لئے لازمی ہے کہ کسی صاف و شفاف اور متعصبانہ سوچ سے عاری فرد یا افراد کے مطیع بنیں اور ان ہی سے اپنی فکر کو جلا بخشیں۔
خدا ہم سب کو علم کے نور سے منور کریں اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
[email protected]
9797068660