غلط فہمیاں دُور کرنا وقت کا تقاضا فکرو فہم

ارشد بستوی

جس دور میں ہم آج زندگی گزار رہے ہیں، اس میں آئے دن نت نئے فسادات دیکھنے میں آرہے ہیں اور نئے نئے فتنے اور حالات جنم لے رہے ہیں۔ خاص کر مسلمانوں کو نئے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے خلاف نئے نئے فتنے کھڑے کئے جارہے ہیں۔ ایسے میں ہر شخص پریشان ہے کہ آخر ان حالات سے کس طرح نمٹا جائے اور مخالفوں کے فتنوں سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟ اب ایسے وقت میں ہمیں اس بات پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ غیروں میں ہمارے بارے میں یا ہمارے دین وشریعت کے بارے میں جو غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پائی جارہی ہیں، کیا ہم نے ان کو دور کرنے کی کوشش کی؟ اور کیا ہم نے دین اسلام کا پیغام اور اس کے احکامات غیروں تک پہنچائے یا نہیں؟ ظاہر سی بات ہے اس سلسلے میں ہم سے کوتاہی ہوئی ہے اور بہت زیادہ ہوئی ہے۔ ہمارے لیے ضروری تھا کہ ہم اپنے دین وشریعت اور اس کی تعلیمات سے لوگوں کو باخبر کرتے، جو غلط فہمیاں اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں ،اُن کو وقت پر دُور کرتے اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتے اور ہر آنے والے چیلنج پر نظر رکھتے اور کسی نئے فتنے کے اُبھرنے سے پہلے ہی اسے دَبا دیتے، اپنے اڑوس پڑوس میں رہنے والے غیر مسلموں سے تعلقات پیدا کرکے ان کے ذہنوں کو صاف کرتے اور ہم میں کا ہر پڑھا لکھا شخص اپنی ذمہ داری سمجھ کر، مسلسل حکمت بھرے انداز میں اس کام کو انجام دیتا اور اپنی باتوں میں موقع محل کی مناسبت سے پیغامِ حق کو پیش کرتا۔ مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس سلسلے میں ہماری طرف سے حد سے زیادہ غفلت برتی گئی اور اس جانب وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی۔
یہ تو غنیمت کی بات ہے کہ ہمارے چند علماء نے اس سلسلے میں بہت اہم اور اچھا کام کیا ہے ،ورنہ وہ ہزاروں لوگ جو، ان علماء کی کوششوں اور رہنمائیوں کے نتیجے میں حق کی روشنی سے فیض یاب اور بہرہ ور ہوگئے، وہ بھی کہیں نہ کہیں گمراہیوں میں بھٹک رہے ہوتے اور خدا کے سامنے ہمارے بارے میں شکایت کرتے کہ ایک تو مسلمانوں کے اعمال اس قابل نہیں تھے کہ ہم انہیں دیکھ کر راہِ راست پر آجاتے اور نہ ہی اسلامی شریعت اور اس کی تعلیمات کا علم رکھنے والوں نے اس جانب توجہ دی کہ وہ ہمیں ہماری گمراہیوں سے آگاہ کرتے اور حق وصدق کی باتوں سے روشناس کراتے، جس کے نتیجے میں ہم حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتے۔
میں نے بہت سے نومسلموں کے واقعات اور ان کے قبولِ اسلام کی رودادیں پڑھیں، جن میں میں نے دیکھا کہ سب اس بات کی شکایت کر رہے تھے کہ ان تک کسی نے سچائی پہنچائی نہیں اور وہ مسلمانوں کے ظاہری طور طریقے دیکھ کر مسلمان ہو نہیں سکتے تھے اور ایک لمبی عمر تک تاریکیوں میں بھٹکنے کا رونا رو رہے تھے کہ کاش کسی نے پہلے ہی انہیں وہ سارے حقائق بتا دئے ہوتے جن سے وہ اب تک نابلد تھے۔ اس لیے یہ بات سمجھ لیجیے کہ اگرچہ اب تک غفلت اور کوتاہی برتی گئی ہے، مگر اب موجودہ دور اور موجودہ حالات میں غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کرانا اور ان سے تعلقات پیدا کرکے ان کے ذہنوں کو صاف کرنا ہماری بہت بڑی ذمہ داری اور وقت کا شدید تقاضا ہے۔ یاد رکھیے موجود حالات کے بہت بڑے ذمہ دار ہم بھی ہیں کہ ہم نے آپسی دوریوں اور نفرتوں اور غیروں کے ذہنوں میں پائی جانے والی بدگمانیوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں اور ہمیں اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کرنا چاہیے، بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودہ حالات اور مشکلات کا ایک بہت بڑا حل غیر مسلم بھائیوں کو دعوت ِ حق دینا اور غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کرکے انہیں حقائق سے باخبر کرنا ہے۔ یاد رکھیے کہ انبیاء ورسل کے مبعوث ہونے کا اولین مقصد ہی لوگوں کو دعوتِ توحید دینا تھا۔ اور اب موجودہ دور میں علمائے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا سب سے بڑا فریضہ سمجھ کر اس کام کو انجام دیں۔
<[email protected]>