غزلیات

 
بھول جا عُشّاق اب اُردو زباں کو بھول جا
مجھ سے کہتے ہیں مِرے احباب ماں کو بھول جا
بھول جا عُشّاقؔ اب ’اردو‘ زباں کو بھول جا
عصرِ نو میں ہے عنانِ ریختہ بونوں کے ہاتھ
بھول جا یکسر ابھی تو بازباں کو بھول جا
تذکرۂ اقبالؔ و چکبستؔ کیوں کِیا کرتے ہو یار
بزمِ ہندؔ میں ان کے اب ذکر و بیاں کو بھول جا
وہ شبابؔ منشاؔ وہ آزادؔ اور وہ عابدؔ و نورؔ
نورِ اردو سے مزین کہکشاں کو بھول جا
یہ زبانِ سلف مانو ہے ابھی گرداب میں
گردشِ دوراں کے اس دورِ زماں کو بھول جا
تُخم ریزی سر زمینِ ہندؔ میں اس کی ہوئی
جس جس کے ہاتھوں سے ہوئی اُس جانفشاں کو بھول جا
ہے مسلّم مہرو مہ کا ہے مِیاں اپنا وجود
کُند سر کہتے ہیں اکثر مہر و ماہ کو بھول جا
حال ’اردو‘ کا لکھا جن صاحبوں نے ذوق سے
بھول جا عُشّاقؔ اُن تاریخ داں کو بھول جا
خونِ دل سے جس کو سینچا ہے مِرے اسلاف نے
کیسے کہہ دوں خود کو عُشّاقؔ اُس زباں کو بھول جا
 
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469
 
 
 
 
گملوں میں اُگائی نظمیں
تھکی تھکی دھوپ انگڑائیاں لے رہی ہے
نڈھال موسم کے آنگن میں
پرندے عریاں شاخوں پہ بیٹھے گزرے موسم پہ بین کرتے ہیں
تم بھی آؤ کچن کا کام ادھورا چھوڑ کے
سوکھے پڑے پتے ہوا سے سرگوشیاں کررہے ہیں 
ہم بھی سن لیں ۔۔
شام ہونے تک ہماری سماعتیں بوڑھی ہوجائیں گی
گلدانوں کی مٹی نکال کے رکھ دو
کھلی فضاء میں سانس لے گی
ہمارے بدن کی مٹی بھی اب خشک ہوتی جارہی ہے
گئے موسموں نے ساری نمی چوس لی ہے
یہ پھول کھل کے مرجھاتے کیوں ہیں
ہمیں خود سے سوال پوچھنا چاہئے
گملے صاف کرکے رکھ دو
میں نظموں کا بیج نکال کے رکھتا ہوں
اگلے موسم میں ہم ان گملوں میں نظمیں اگائیں گے
نظمیں، جو کبھی مرجھا نہیں جاتی
سوکھ کر بکھرتی  نہیں
بکھر کے فنا نہیں ہوتی
بدلتے موسموں کے ساتھ ہمیں زندہ رہنا ہے
وقت کے گلدانوں میں 
رنگ بدلتی نظموں کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
 
علی شیدؔا
 نجدون نیپورہ اسلام آباد، ،موبائل  نمبر؛9419045087
 
 
غزلیات
ہم سب کے کام آتے ہیں
سب کے ہاتھ بٹاتے ہیں
جب بھی یادوہ آتے ہیں 
ہم کُچھ بِکھرسے جاتے ہیں
جب ہوتے ہیں برہم وہ 
ہم کچھ ٹوُٹ سے جاتے ہیں
دِل کی محبت بڑھتی ہے 
جب ہم آتے جاتے ہیں
ہم ماضی کی یادوں سے 
اپنادِل بہلاتے ہیں
لوگ کئی چہرے بدلیں تو
سب پہچانے جاتے ہیں
پڑھنے کے دیوان میرے 
کتنے لوگ ہی آتے ہیں
من ہم کوسمجھاتاہے 
ہم من کوسمجھاتے ہیں
حرفِ آخر ہوتا ہے 
بڑے جوکچھ فرماتے ہیں
کوئی نہیں رہتاہے ہتاشؔ
سب دُنیا سے جاتے ہیں
 
پیارے ہتاش ؔ
دوردرشن لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
 
 
 
اے شعورِضبط یہ کیا ہوا
کل تو کچھ تھا آج افسانہ ہوا
 
اپنی تو اب بات ہی کچھ اور ہے
ہر چمن میں زاغ ہے بیٹھا ہوا
 
منزلوں کو گرد سمجھا تھا کبھی
کل چمن تھا آج ویرانہ ہوا
 
سرکشی کا یہ بھی اک انداز ہے
زخم جو تھا آج پھر گہرا ہوا
 
یاد کرتا ہوں نشاط و شالیمار
حُسن کی وادی میں ہی بیٹھا ہوا
 
ساقیؔ یہ اپنے جرم کی تعبیر ہے
کاٹنا ہے وقت کا بویا ہوا
 
امداد ساقیؔ
لعل بازار، سرینگر
 موبائل نمبر؛7780866097
 
 
 
 
بہت دلربا تھی ادا،برف کی 
ہمیں نے تھی مانگی دعا برف کی
 
یہاں ہر طرف تھا بہت غمزدہ 
خوشی سے سنی جب صدابرف کی
 
سبھی دل ہویے شادماں  دیکھ کر 
پہن کرچلے سب ردابرف کی  
 
جو نالاں ہیں رحمت پہ راضی نہ ہوں
انہیں تو ملی ہے سزا برف کی 
 
یہ مانا بہت سے مسایل تو ہیں 
کہو ان میں کیاہے خطا برف کی 
 
میں زاہدؔ تو خود بھی مصائب میں ہوں 
مگر لکھ رہاہوں مدح برف کی
 
زاہد جمال بانڈے پوشونی 
راجوار ہندوارہ 
صدر انجمن صدائے فن راجوار ہندوارہ 
موبائل نمبر؛7006560789
 
 
 
 
 
کسی کے دسترس میں آؤ تو سہی
تم  کسی سے دل لگاؤ تو سہی
کر لیے وعدے ہزار آپ نے
مگر کوئی وعدہ نبھاؤ تو سہی
مہک اٹھے گا دل کا آنگن
تم اک بارِ ادھر آؤ تو سہی
محبت نہیں تو نفرت ہی سہی
کوئی تعلق مگر نبھاؤ تو سہی
کِھل اٹھیں گے پھول سارے
تم اک بار مسکراؤ تو سہی
شرما جائیں گے یہ چاند ستارے
تم کبھی چھت پر آؤ تو سہی
آئیں گے چارہ ساز بھی مگر
کوئی گہرا سا زخم کھاؤ تو سہی
شب وصل ہے اور پردہ داری؟
ذرا رُخ سے آنچل ہٹاؤ تو سہی
دنیا نہ چھوڑ دی اس نے تو کہنا
اسے اک بار آواز لگاؤ تو سہی
میں کہ اک پانی کا بلبلہ ہوں
پاس آ کے ہاتھ لگاؤ تو سہی
جنازے پر ترے خوب جشن ہوگا
تم چپکے سے مر جاؤ تو سہی
منتظر ہیں کب سے یہ پروانے
تم کوئی چراغ جلاؤ تو سہی
 
توصیف شہریار
سریگفوارہ اننت ناگ
 
 
 
 
اِک محبت اور سہی
افسانہ
پرویز یوسف
محبت کیا ہے ؟کسی کے تئیں کی گئی شفقت ـ‘ ہمدردی یا پھر احساس ۔مجھے بچپن سے ہی اس سوال کا جواب جاننے کی بڑی طلب تھی ۔اس چکر میں، میںنے کئی ناولوں کے ساتھ ساتھ کئی افسانوں کا مطالعہ اور یہاں تک کہ کئی ڈراموں کا مشاہدہ بھی کیا لیکن میں مطمئن نہیں ہوا ۔یہ ایک مقولہ ہے کہ قدرت ایک دن ہر سوال کے جواب سے ہمیں نبرد آزما کرتی ہے ‘ہر اُلجھن کو سلجھا دیتی ہے ‘اور شاید ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا ۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں کالج میں زیر ِ ِ تعلیم تھا۔کالج زندگی کا ایک ایسا خوشگوار دور ہوتاہے جو انسان کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان بہت سارے اجنبی چہروں سے آشنا ہو کر انہیں اپنی زیست میں شامل کرتا ہے ‘ساتھ ہی ساتھ انسان کئی دوست بنا لیتا ہے اور زندگی کے کئی رنگوں میںڈھلتا ہے۔کئی مراحل سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا ہے ۔یہ وہ دور ہوتا ہے جہاں آپ کئی چیزوں کو بہت قریب سے جان سکتے ،کئی چیزوں کو پرکھتے ہیں اور بالا آخر ان کی اصلیت جان جاتے ہیں ۔زندگی کے اسی پڑاؤ  پر داخل ہو کر میری ملاقات اجمل نامی ایک لڑکے سے ہوئی ‘اجمل وہ پہلاشخص تھا جس سے میرا سامنا کالج میں ہوا اور پہلی ہی ملاقات میں اُس نے مجھے اپنا گرویدہ بنا دیا اور یہ پہلی ہی ملاقات اس قدردلکش رہی کہ ہم دونوں اچھے دوست بن گئے ۔
اجمل ایک خاموش طبیعت کا لڑکا تھا جو میرے علاوہ کسی سے بھی زیادہ باتیں نہیں کرتا تھا ۔گویا کالج میں اُس کی دنیا مجھ سے ہی شروع اور مجھ پر ہی جیسے ختم تھی۔کالج کے لڑکے اکثر اُ س کی اس طرح کی خاموشی کا مذاق اُڑاتے تھے مگر اجمل کو اس سب سے ذرا بھر بھی فرق نہیں پڑتا تھا ۔وہ اپنی ہی ایک دُنیا میں مگن رہتا تھا۔کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے اُسے کوئی سروکار تھا ۔ایک روز باتوں ہی باتوں میں ‘میں نے اُس سے پوچھ لیا کہ اجمل محبت کیا ہے؟وہ میرا اس طرح کا سوال سُن کر چونک گیا ۔گویا ایک وحشت سی اُس پر طاری ہوگئی ہو۔اُس کا چہرہ جیسے زرد پڑ گیا اور اُس کے پورے جسم میں تھرتھراہٹ سی پیدا ہو گئی ۔اُ س نے میری اور نظر اُٹھائی اور بے ساختہ اُس کے منہ سے کسی شاعر کے یہ اشعار نکل گئے  ؎
کبھی تم نے کہا تھا واپس لوٹ جاؤ
کہ محبت حق ہے 
ْْٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖفقط کچھ خوب روحوں کا
محبت کے شہزادوں کا 
بہت دلکش جسموں کا 
فلک کے پری زادوں کا 
مگر اس سوغات سے عاری
میں اک عام سا قاری
سو واپس لوٹ آیا 
یہ کہہ کر اُس نے ایک لمبی آہ کھینچی اور وہاں سے چل دیا مگر میںوہیں کا وہیں دُہرا ہوکر رہ گیااور اس کے ان اشعار میں کھو گیا۔کچھ دیر بعد میں بھی اپنی جگہ سے اُٹھا اور گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچ کر بھی مجھے چین نہ ملا ‘کھانا کھا کر میں اپنے کمرے میں سونے کی غرض سے گیا لیکن میری آنکھ نہ لگ پائی ‘خیر جیسے تیسے رات گزر گئی ۔اگلے دن سویرے ہی میں کالج کے لیے نکلا اور اجمل کو ڈھونڈنے لگا ۔اجمل پارک میں بیٹھا کتا ب پڑھ رہا تھا ۔میں اس کے نزدیک گیا اور اُس سے پہلا سوال یہی کیا کہ اجمل وہ اشعار ؟میرا یہی کہنا تھا کہ اُس نے وہیں سے مجھے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تم کل کے اشعار کے بارے میں پوچھنے آئے ہو ۔ارے میاںیہ بہت لمبی کہانی ہے تم سنتے سنتے اچُٹ جاؤ  گے۔کون سی کہانی ۔۔۔۔۔میں نے حیران کُن لہجے میں کہا  ۔ میں واقعی کسی کہانی کو جاننے کی کوشش نہیں کر رہا تھا ‘اجمل نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا وہ اشعار جو میں نے کل تمہیں سنائے تھے میری ناکام محبت کی تشریح ہے ۔چند برس پہلے تک میں بھی باقی لڑکوں کی طرح ہنستا کھیلتا ‘ سب سے ملتا جھُلتا اور سب کی طرح زندگی گزارتا تھا مگر پھر ایک روز مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی اور یہ محبت کب عشق کی انتہا کو پہنچ گئی مجھے اس بات کاپتہ نہ چل سکا ۔سب کچھ ٹھیک سے چل رہا تھا اور اس قدر رسمی کہ بڑی دیر بعد اس بات کا مجھے اندازہ ہوا کہ یہ محبت صرف یک طرفہ تھی  ۔یہ وہ گھاؤ تھا جو صرف مجھے محسوس ہونے لگا اور میں یہ درد سینے میں چھپائے چلتا رہا ۔یہ وہ محبت تھی جو صرف میں نبھا رہا تھا ۔اُس لڑکی کو اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہ تھا کہ میں اس کی محبت میں بُری طرح سے گرفتار ہو چکا ہوں ۔نہ میں اس بات کا کبھی اظہار ہی کر سکا ‘کبھی اس درد کو لے کر میں اُسے دور ہوتا گیا اُس نے بھی پہلے ہی سے دوری اختیار کر رکھی تھی ۔ہم ملے تو سہی مگر عام جوڑوں کی طرح ۔اس کیفیت سے میری حالت ٖغیر ہوتی گئی اور بڑی مدت تک میں یہ خیال دل سے دور نہ کر سکا ۔ مگر پھر ایک دن  وہ میری محبت برداشت کرتے کرتے تھک گئی اور آخر کار اس نے مجھ سے دوری اختیار کرنا ہی اٖفضل سمجھا ۔میں نے اُس کی منتیں کیں مگر وہ دل سے مجھے بہت پہلے ہی نکال چکی تھی ۔اُس کی وجہ سے میں ٹوٹ گیا۔چہرے پر عُمر سے پہلے ہی جُھریاں پڑنے لگیں اور دھیرے دھیرے یہ غم مجھے مکمل طور پر کھا گیا اور مجھے خاموش بھی کر گیا ۔
کئی سال تک وہ میرے تصور میں میرے ساتھ ساتھ رہی ۔میری ہم قدم رہنے والی مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ میرے تصورات سے بھی بہت دور چلی گئی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اُس کو کچھ کچھ بھولنے لگ گیا ‘ ۔ دن گزرتے گئے اور وہ میرے ذہن سے مکمل طور پر نکل گئی ۔مگر شاید زندگی کو اور بھی حادثات سے دوچار ہونا باقی تھا ۔ میں دوبارہ محبت کے جال میں پھنس گیا ۔یہ سمجھ کر کہ شاید پہلی محبت کے لگے زخم مندمل ہوجائیں گے ۔یہ محبت بھی بڑی کاوشوں کے بعد پیدا ہوئی ۔میرا دل شیشے کی مانند صاف تھا اور میں ایک دم کسی کی محبت میں گھر جاتا اور یہ سوچتا کہ مخالف جنس بھی میری اس محبت میں شریک ہے مگر یار یہ سب دھوکہ تھا ۔یہ محبت کا چکر بھی صرف یک طرفہ تھا جس نے مجھے ایسا دھچکہ دے دیا کہ ابھی تک ہوش و حواس سنبھال نہ سکا۔یہی تم سُننے کے آرزو مند تھے نا۔اجمل کی یہ دکھ بھری داستان سُن کر میرا دل پارہ پارہ ہوگیا اور میں جیسے سنتے سنتے ہی ٹوٹ گیا لیکن وہ بہادر شخص اپنی روداد لگاتار بیان کرتا رہا اور وہ چٹان کی طرح مضبوط رہا ۔اس کی زبان پر پھر سے پہلے کی ہی طرح یہ الفاظ نکلے’’زندگی ہم تو چلو مان گئے ‘ سہہ بھی گئے ایسا برتاؤ نہ کسی سے دوبارہ کرنا۔‘‘ اُس دن میری سمجھ میں ایک بات آئی کہ محبت کسی کے لیے گلاب کا پھول نہیں ہوتا ۔یہ اس گلاب کے پھول سے آگے کی دنیا ہے جو کہ کانٹوں سے شروع ہوکر کانٹوں پر ہی ختم ہوجاتی ہے ۔جو حاصل کے خواب دکھا کر لاحاصل کے غار میں ایک ہنستے کھیلتے شخص کو دھکیل دیتی ہے ۔  
محلہ قاضی حمام بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛7006447322
 
 
 
 
نقصِ عمل
افسانہ
وردہ فاطمہ
جمعہ کا دن تھا۔ چلہ کلان کی سرد فضاؤں میں سورج کی مدھم کرنیں بادلوں کو چیر کر جھلک رہی تھیں۔ زرد کرنیں برف کی چادر کو موتی نما بیان کر رہی تھیں۔ڈھلتے وقت کے ساتھ سورج کی کرنیں برفیلی چادر کی چمک کا انعکاس پیش کر رہی تھی کہ ظہر کا وقت ہو گیا۔ مسجد شریف میں مؤذن نے اذان دی اور سب مرد، بچّے، بزرگ مسجد کی اور چل دیئے اور پورا مجمع مولوی صاحب کا وعظ سن رہا تھا۔ مولوی صاحب سماج میں بڑھتی مختلف رسومات ، اختراع کی گئی کئی بدعات اور فضول خرچی کو بے جا اور غیر اسلامی قرار دے رہے تھے۔ وہ  ان سب بدعات و رسومات کےغلط اثرات سے لوگوں کو آگاہ کر رہے تھےاور بڑھتے دکھاوے اور رقابت سے کنارہ کشی کی صلاح دے رہے تھے۔ لوگوں نے وعظ ونصیحت سن کر نماز ادا کی اور گھروں کی اور جانے لگے۔ راستے میں سب لوگ مولوی صاحب کی باتوں کو صحیح قرار دے رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ صحیح معنوں میں یہ بڑھتی بےجا رسومات و بدعات ایک وبال بن چکی ہیں۔ شادیوں کی تقریب میں اپنائی جانے والی فضول خرچی  کئی پست گھرانوں کے لئے نہایت پریشانی اور اضطراب کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ کچھ مدّت تک یہ گفتگو چلتی رہی اور اس کے بعد سب لوگ اپنے گھروں کی اور گئے اور اپنے کام کاج میں مشغول ہوگئے۔
تین چار روز گزرنے کے بعد کچھ لوگ رحیم بھائی کی دکان پر بیٹھے گپیں لڑا رہے تھے کہ اسلم صاحب نے فیس بک پر دیکھی خبر سب کو سنائی، جس میں یہ لکھا تھا کہ قریب کے ضلع کے ایک گاؤں میں لوگوں نےیکجا ہو کر جہیز کی بدعت کے خلاف نہایت ہی عمدہ قدم اٹھایا ہے اور جہیز لینے اور دینے کی رسم کو مل جھل کر سب نے ترک کرنے کا تہیّہ کیا ہے۔ یہ سن کر باقی لوگوں نے اس خبر اور کئی میل دور ی پر واقع اس گائوں کے باشندوں کے فیصلے کی سراہنا کی اور اس کو قابلِ تعریف و قابلِ تحسین قرار دیا۔ کئی منٹوں تک سب لوگ مسائل اسلامی،حدیث اورقرآن شریف کی مقدّس آیات کو فضول خرچی کی رسم کے خلاف پیش کرنے لگے۔ کچھ وقت تک یہ بات چیت چلتی رہی اور حسبِ معمول کچھ لمحات کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹے اور روزمرہ کے کام میں محو ہو گئے۔ 
چلہ کلان کی ٹھٹھرتی ٹھنڈکے پہلے پندرہ روزوشب سرد ہواؤں، دھندلے بادلوں اوربرفباری میں گزر گئے۔ کالے بادل اور برف کی سفید چادر چلہ کلان کے ماحول کا عکس نمایاں کر رہے تھے۔ گھنے بادلوں کے بیچ سورج اپنی زرد شعاعوںسے پگلتی برف پر اپنا عکس نمایاں کر رہا تھا۔ مدہم شعاعوں اور سرد ہواؤں کے بیچ گاؤں کے سب لوگ اپنے کام کاج میں مصروف تھے کہ مسجد میں اعلان ہوا کہ امجد صاحب کے والدمحترم خالق چاچا ،جو کہ کئی روز سے بیمار تھے، اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ خبر پورے گاؤں میں ہوا کی رفتار سے پھیل گئی۔ ہر محلّہ کے لوگ خالق چاچا کے گھر کی اور جانے لگے۔ سردی کے موسم کے باوجود لوگوں کی کثیر تعداد نے رحمان چاچا کے جنازے میں شرکت کی جن میں ان کے اعزاء واقارب کے ساتھ ساتھ گاؤں کے تمام لوگ شامل تھے۔ مستورات بھی تعزیت پُرسی کے لئے ان کے گھر گئیں۔ تین دن تک تعزیت پُرسی کا سلسلہ چلتا رہا اور چوتھے روز امجدصاحب نے نو گزشتہ میت کے لئے دعاء مغفرت کے لئے گاؤں والوں کو چہارم کی تعزیتی تقریب میں بلایا۔ امام صاحب اور گاؤں کے لگ بھگ سب مرد حضرات چہارم کے روز امجد صاحب کے گھر گئے۔ فاتحہ خوانی کی تعزیتی مجلس میں سب لوگوں نے کلمات، تلاوت و دعائے مغفرت کے دوران، قہوہ اور نمکین چائے پی لی اور آخر پر کھانا کھایا۔ اور کچھ وقت میں سب گاؤں والے وہاں سے واپس لوٹے۔ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد حسبِ معمول لوگ رحیم بھائی کی دکان پر بیٹھے تھے۔ اُسی جگہ، جہاں کچھ روز پہلے چندہی میل دور واقع گائوں کے لوگوں کے جہیز کے خلاف قدم کو سراہا گیا تھا، آج امجد صاحب کے والد کی فاتحہ خوانی کی بات چل رہی تھی۔ وہی لوگ جو رسومات و فضول خرچی کے خلاف مولوی صاحب کے وعظ و نصیحت کو سچ بتا رہے تھے، آج امجد صاحب کے گھر میں منعقد ہوئی فاتحہ خوانی کی تقریب میں نقص نکال رہے تھے۔ کچھ لوگ پکوانوں کی گنتی کر رہے تھے ۔ کچھ بڑے گوشت کی بات کو بار بار پیش کر رہے تھے،کچھ کہہ رہے تھے کہ "ارے کیا یہی فاتحہ خوانی تھی، بڑا جانور ذبح کیا تھا۔ اس کی آمدنی کے مطابق اگر کئی بھیڑیں بھی ذبح کرتا تو بھی جیب پر کوئی فرق نہ پڑتا۔" کئی لوگ تو گوشت کے ٹکڑوں کے چھوٹے ہونے پر اپنا تبصرہ کر رہے تھے۔ حالانکہ یہ فاتحہ خوانی تھی، شادی کی تقریب نہیں۔ یہ وقت امجد صاحب اور ان کے گھر والوں کے لئے صدمہ کا وقت تھا۔ لوگوں کے لئے ان کے ساتھ یکجہتی نبھانے کا وقت تھا، ان کے ساتھ ان کے دُکھ درد میں شامل ہونے کا وقت تھا لیکن لوگ اس کے برعکس پکوان گن رہے تھے، بڑا گوشت پکانے پر امجد صاحب کو کوس رہے تھے اور نہ جانے کتنی خامیاںکھوج رہے تھے۔ 
آخرکار چلہ کلان کی شدید ٹھنڈ اور موسم سرما کا وقت گزر کیا۔ لوگوں نے حمام اورکانگڑی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ موسم بہار کی کِھلتی کلیوں اور مارچ-اپریل کی موسلادھار بارشوں سے شروع ہوئے موسم گرما نے رفتہ رفتہ اپنا شباب اختیار کرلیا۔ چمکتے سورج کی کرنیں سبز لہلہاتے دھاں  کے کھیتوں کی سجاوٹ و بناوٹ دوبالا کر رہی تھیں۔ بچّے ہنسی خوشی ایک کپڑا پہنے پورے گاؤں کی سیر کرتےاور رحیم بھائی کی دکان سے جوٗس اور آئس کریم خریدتے۔چاروں اور گہماگہمی کا ماحول تھا۔ موسم گرما کی گہما گہمی میں اب بیشتر شادیوں کا سلسلہ چلنے والا تھا۔ گاؤں میں بھی کئی شادیوں کی تقریبات منعقد ہونے والی تھیں۔کئی شامیانے لگنے تھے۔ کئی بیٹیوں کی رخصتی اور کئی نئی دلہنوں کا استقبال ہونا تھا۔ شادی بیاہ کی ان تقریبات کی شروعات رحمان صاحب کی بیٹی کی شادی سے ہوئی۔ ان کے گھر میں ایک بڑا شامیانہ لگا۔ دوسرے علاقے سے مشہورباورچی(وازے )لائے گئے۔ کئی بھیڑیں ذبح کی گئیں۔ڈفلی اور تمبخ ناری کی آواز گاؤں کی عورتوں کو گھروں میں کام کاج جلد از جلد نِپٹانے اور رحمان صاحب کے گھر تشریف لانے پہ مجبور کر رہی تھی۔بچّے مٹھائی کے انتظار میں تھے۔ دھوم دھام کا ماحول تھا۔ مہندی رات کے بعد اب شادی کا دن آگیا۔ یہ دن دعوت اور دلہن کی رخصتی کا تھا۔ پہلے مردوں نے کھانا کھایا اور پھر عورتوں نے۔’’مرغ، طبخ ناٹ،کباب، دنی اورمیتھ ماز ‘‘سے بھری ترامیوں کے فوٹو انسٹاگرام اور فیس بک کی زینت بنے۔ رستہ، روغن جوش، یخنی،آبگوش، قورمہ، ساگ(وازٕہاک), پنیر پروستےآخر پر گوشتابہ نے ترامیاں سمیٹنے کا اشارہ دیا۔ لوگ گوشت سے بھرے شاپر پکڑے اب دہی کھانے اور کولڈڈرنک پینے میں مشغول ہو گئے۔ مستورات کے ٹینٹ میں کولڈڈرنک بھی لفافے کی زینت بن گئے کیونکہ گھر پر چھوٹے بچّے تھے۔ اور کچھ نے پانی کی بوتل کا سہارا لے کر کولڈ ڈرنکس کو آپس میں بانٹا۔یہ عالیشان دعوت اختتام پذیر ہوئی تو بعد از عشاء گاؤں کی بیٹی کو خوشی کے آنسوؤں کے بیچ رخصت کیا گیا۔ اگلے روز گاؤں کے مرد حضرات عادت کے مطابق رحیم بھائی کی دکان پر بیٹھے۔ آج موضوع رحمان صاحب کے گھر کی دعوت تھی۔ ایسی عالیشان دعوت، کئی پکوان اور بھرے گوشت کے شاپروں کے باوجود بھی کچھ لوگ خامیاں پیش کر رہے تھے۔ دوسرے علاقہ کے مشہور وازہ لانے کے باوجود کئی لوگوں کو ذائقہ کی شکایت تھی۔ آج تو بڑے گوشت کے تبصرے نہ تھے لیکن گوشت کے ٹکڑے پھر بھی چھو ٹے معلوم ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں کو کھانا پکنے میں نقص نظر آیا تھے تو کچھ کو وازوان میں مصالحہ کی کمی محسوس ہوئی تھی۔ یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ اسلم صاحب آگئے۔اس نے جب یہ سب سنا تو  وہ دکان پر لگے بینچ پر بیٹھے دو افراد کے ہمراہ بیٹھ گئے اور کہنے لگےکہ بھائیوں ہم ہی لوگ فضول خرچی، ہر روز تخلیق ہو رہی نئی رسومات و بدعات کو سماج کے لئے وبال قرار دیتے ہیں۔ گاؤں کے مولوی صاحب اور دیگر علماء کی نصیحت ہمیں کچھ پل کے لئے سراسر سچ تو لگتی ہے مگر کچھ پل بعد ہم سب بھول جاتے ہیں۔ کئی میل دور گاؤں کے لوگوں کے جہیز کے خلاف قدم کی تو ہم سراہنا کرتے ہیں لیکن جب بات اپنے گرد کی آتی ہے تو ہمیں عالیشان دعوت میں بھی نقص نظرآتے ہیں۔ دعوت کیا فاتحہ خوانی جہاں کہ دکھ اور صدمہ ہوتا ہے، ہم وہاں بھی پکوانوں کی گنتی کر رہے ہوتے ہیں اور خامیاں ڈھونڈتے ہیں۔ ہمارے سماج میں توفضول رسومات و فضول خرچی پر بہت باتیں ہوتی ہیں۔ ہم کئی وعظ و نصیحت سنتے ہیں ، یہاں تک کہ خود بھی کئی قرآنی آیات و حدیث پیش کرتے ہیں لیکن عملاً اپناتے نہیں۔ ہمارے سماج میں تب تک کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی جب تک نہ ہم پہلے اپنی سوچ بدلیں۔ اُس وقت تک یہ فضول خرچی ہمارے لئے وبال بنی رہے گی۔ جب تک نہ ہم دکھائے مقابلہ آرائی سے کنارہ کشی اختیار کرے اور دوسروں کی خامیاں اور نقص نکالنا بند نہ کریں۔ ہم انسانی کردار ادا کریں اور اپنے دین اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو جائیں۔ ایک دوسرے کے اندر خامیاں ڈھونڈنے کی بجائے ان سب بدعات سے مل جھل کر کنارہ کش ہو جائیں۔صحیح معنوں میں  انسان اور مسلمان بننے کی کوشش کریں۔ یہ سن کر سب لوگوں کو احساس ہوا کہ اسلم صاحب بالکل صحیح کہہ رہے ہیں اور انہیں احساس ہوا کہ سماج میں ان سب بدعات کی جَڑدکھاوا اورایک دوسرے میں خامیاں و نقص تلاش کرنا ہےاور ان سب غیر اخلاقی و غیر اسلامی اعمال سے کنارہ کش ہونے کا ارادہ کر لیا۔ 
الله تعالٰی ہم سب کو بھی ہر روز نئی تخلیق شدہ بدعات و رسومات سے کنارہ کش ہونے کی توفیق عطا کرے اور ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا سہارا بننے کی صلاحیت سے نوازے۔ آمین! 
طالبہ،سکواسٹ کشمیر( واڑورہ) 
ای میل[email protected]
Blogsite: vardahfatima.blogspot.com 
 
 
 
 
 
غزل
 
جِسم اب شعلہ فشاں ہونے کو ہے
ہر طرف بس اک دُھواں ہونے کو ہے
عُمر تنہا کاٹ دی صحراؤں میں
ساتھ میرے اب جہاں ہونے کو ہے
بولتا تھا سچ کبھی جو شہر میں
وہ سُنا ہے بے زباں ہونے کو ہے
آندھیو رفتار کو دھیما کرو
پھول گُلشن میں جواں ہونے کو ہے
کیا قیامت کی گھڑی نزديک ہے
مُجھ پہ دُشمن مہرباں ہونے کو ہے
ہے مرےاندر کوئی مقتل بپا
خون آنکھوں سے رواں ہونے کو ہے
مشکلیں بڑھتی ہی جاتی ہیں جاویدؔ
پھر نیا کوئی امتحاں ہونے کو ہے
 
سردارجاویدخان
مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛9419175198
 
 
 
 
 
 
 

افسانچے

 
پرویز انیس
ناگپور،مہاراشٹر ،[email protected]
 
آگ
گھر والوں کے بار بار اصرار پر وہ
دوسری شادی کے لیے تیار ہوگئی۔۔۔۔
لیکن اس کی ایک شرط تھی۔۔۔۔۔
کہ وہ گیس پر کھانا نہیں پکائے گی۔۔۔۔
اس کے سسرال والوں نے اس شرط کو
تھوڑی آنا کانی کے بعد مان لیا۔۔۔۔ 
شادی کی پہلی رات اس کے بدن پر
نشان دیکھ کر شوہر نے پوچھا تواس نے بتایا۔۔ 
 "پہلے شوہر کے گھر کھانا بناتے وقت آگ لگ گئی تھی۔۔۔۔۔"
شوہر محبت سے ان زخموں کو سہلانے لگا۔۔۔۔
تبھی اس کی نظر شوہر کے جلے ہاتھوں پر پڑی۔۔۔۔۔
پوچھنے پر شوہر نے کہا ۔۔۔۔
" پہلی بیوی کو بچانے کی ناکام کوشش میںاس کے ہاتھ جل گئے تھے۔۔۔"
 
 
 
 
دیوار
"کہتے ہیں اس دیوار کے پار ایک دنیا ہے۔۔۔۔۔
جہاں سورج روز خوشیوں کا اجالا لے کر آتا ہے اور چاند ایک پرسکون نیند۔۔۔۔۔
جہاں بس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں اور غم کا نام و نشان نہیں۔۔۔۔
میں ایک روز وہاں جاؤں گا"
میں نے اس دیوار کو حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچانک اس دیوار سے کوئی کودا۔۔۔۔ میں بھاگ کر اس جگہ پہنچا۔۔۔ تو دیکھا میری ہی عمر کا ایک لڑکا بےہوش پڑا ہے۔۔۔۔
 میں نے اس کے منھ پر پانی کی چھینٹیں ماریں۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور مجھے حسرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
" کیا یہ وہی دنیا ہے جہاں غم کا نام و نشان نہیں۔"
���
 
 
 
 
 
 
 
گھر آنگن
افسانچہ
  نثار احمد 
وہ سبھی کام کے لئے کھیلے پر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے لیکن کامتا کو آج صبح اپنےگھر کے آنگن میں اداس دیکھ کر موہن جی نے کہا۔ "کامتا کیا بات ہے؟
آج آپ اتنی اداس کیوں ہیں؟"
"بھگوان سب کا بھلا کرے۔"کامتا  نے موہن جی کی اور رخ کیا اور بولی "موہن جی کاش یہ غربت نہ ہو تی۔۔۔۔"
"غربت!"
موہن جی یہ سن کر حیران سا ہوا۔۔۔۔"آپ کیا بول رہی ہیں۔"
"ہاں موہن جی۔دراصل کل سرپنچ صاحب آئے تھے ہمارے گھر اور بولے کہ آج سے دوسال پہلے شام لال نے جو درخواست مکان کی تعمیر میں امداد کے لئے دی تھی اسکو منظوری ملی لیکن اس کےلئے آپ پہلے پانچ ہزار روپے دیجئے۔ جبکہ آپ کو تو پتہ ہے کہ شام لال لاعلاج مرض میں مبتلا ہے۔ اب مجھے یہی غم کھائے جارہا ہے۔ کاش انہیں ہماری اس مفلوک لحالی پر رحم آجاتا۔"
کامتا کی باتیں ابھی نامکمل ہی تھیں کہ سرپنچ صاحب آئے اور کامتا سے کہنے لگے۔
"کامتا تم پیسے دینے میں لیت و لعل کیوں کر رہی ہو ؟
مکان واپس چلا جاے گا ۔پھر نہ کہنا مجھے"
سرپنچ کی للچائی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کامتا بہت گھبرا  گئ اور سرپنچ کے سامنے ہاتھ جوڑ نے لگی۔
نہیں حضور نہیں آپ ایک دن اور انتظار کیجیے ۔یہ سن کر سرپنچ نے اپنی موچوں کو تاؤ دیا اور بولا ٹھیک ہے میں ایک دن کے بعد آؤں گا۔اُس دن نہ کامتا نے کچھ کھایا نہ رات کو سوئی اور دوسرے روز علی الصبح  وہ اپنے زیور بیچنے کے لیے رام پور گئی۔ زیورات میں آٹھ ہزار روپے ، جس میں سے اس نے پہلے پانچ ہزار سرپنچ کو دیئے اور باقی جو کچھ بچا اسے گھر کے سودا سلف پر خرچ کیا۔اب کامتا صرف یہ ہی امید لگائے بیٹھی تھی کہ اسے رہنے کے لیے مکان ملے گا اور اسی امید میں وہ ہر روز سرپنچ کے حضور میں جا کر صرف ایک ہی بات کہتی کہ حضور مکان مجھےکب ملے گا۔ سرپنچ کامتا کو تسلی دینے کے لئے کبھی جعلی کاغذات دکھاتا تھا کبھی اور کچھ،یہاں تک کہ شام لال بھی اس دنیا سے چل بسا۔کامتا شام لال کی لاش کے قریب جاکر شکستہ لہجے میں کہتی۔
آج اگر میرے پاس کچھ ہو تا تو شاید آپ بچ جاتے لیکن میرے پاس نہ زمین ہےاور نہ زیور  سب کچھ اس گھر کی خاطر لٹا دیا ۔کامتا یہی باتیں کر تے کرتے اچانک غش کھا گئی اور شام لال کے ساتھ ہی ان کا بھی انتقال ہوا۔ مرتے مرتے ان کی سسکتی خواہش بھی دم توڑ بیٹھیں۔ مرتے وقت کامتا کی جیب سے ایک پر چہ نکالا گیا جب لوگوں نے وہ پرچہ دیکھا تو وہ وہی فرضی پرچہ تھا، جس پر یہ عبارت درج تھی۔
حتمی  پی۔ ایم ۔وائی۔ لسٹ
شام لال ۔۔۔۔۔ رام نگر رامپور
 
���
نوگام سمبل سوناواری بانڈی پورہ 
موبائل نمبر؛7889617356
 
 
 
 
فکر
افسانچہ
رئیس احمد کمار ،قاضی گنڈ کشمیر 
ارے یار ! آج کافی مدت کے بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ کیوں خیریت تو تھی نا ۔ گھر میں سب ٹھیک ٹھاک تو تھے نا ۔ بیوی اور بچے کیسے ہیں آج کل ؟
ہاں جناب ! گھر میں تو سب بخیروعافیت ہیں لیکن بیوی آج کل میکے میں ہے۔
ارے یار جب بھی میں تم سے پچھلے کئی مہینوں سے ملا ہوں تو آپ نے ہر بار یہی کہا کہ بیوی آج کل میکے میں ہے ۔ آخر ایسا کیوں ۔ کوئی پریشانی تو مت ہے اس کو وہاں  ؟
نہیں جناب ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ نہ وہ خود کسی تکلیف میں مبتلا ہے نہ ہی میکے میں اس کو کوئی پریشانی ہے مگر بات ایسی ہے کہ بیوی کے ہوتے ہوئے مجھے اپنے عمر رسیدہ والدین ، شادی شدہ بہنوں اور چھوٹے بھائیوں سے بات کرنی تک دشوار ہوتی ہے ۔ بیمار ماں باپ کے لئے دوائیاں لانا اور اپنی شادی شدہ بہنوں کی خبر گیری کرنا تو دور کی بات چھوٹے بھائیوں کو کوئی نیک مشورہ دینا تاکہ ان کو بھی بے روزگاری کی پریشانی سے نجات مل سکے، بھی مجھے بہت مشکل ہو پا رہا ہے ۔
یار مجھے اللہ کا خوف دل میں پیوست ہے اور والدین و بہن بھائیوں کی فکر ہے۔ اسلئے میں اپنی قبر خراب نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔ لہذا میں خود ہی اپنی بیوی کو ہر مہینے ایک ہفتے کیلئے میکے بھیجتا ہوں تاکہ مجھے اپنے بزرگ والدین کی فرمانبرداری اور بہن بھائیوں کی خبر گیری کرنے اور انہیں نیک مشورہ دینے میں کوئی رکاوٹ سامنے نہ آجائے ۔۔
 
غزلیات
پھر وہی شخص یاد آیا ہے
جس سے ہم نے فریب کھایا ہے
تیری یادوں نے بار ہا آکر
دل کا  دروازہ کھٹ کھٹایا ہے
مجھ کو بخشی ہے تشنگی رب نے
تجھ کو بہتی ندی بنایا ہے
زندگی کی دعا نہ دو مجھ کو
زندگی نے بہت ستایا ہے
لوگ زخموں سے تلملاتے ہیں
"ہم نے زخموں سے دل سجایا ہے"
اے خدا پیڑ وہ سلامت رکھ
میرے آنگن میں جس کا سایہ ہے
گھر کی ہر شے چمک اٹھی ہے رفیقؔ
جب سے وہ ماہ تاب آیا ہے
 
رفیقؔ عثمانی
 آکولہ(مہاراشٹرا)
 
 
 
 
سایا ملا کہیں نہ کوئی مہرباں مجھے
لایا مرا شکستہ مقدر کہاں مجھے 
جس کے لیے حیات کو قربان کر دیا
اب کے سمجھ رہا ہے وہی رائیگاں مجھے 
ہجرت تمہارے شہر سے ممکن نہ کر سکوں 
مجرم کہے اگر چہ یہ سارا جہاں مجھے
آئی شکن جبین پہ یاروں کو کس لیے 
دیکھا جو ایک پل ذرا سا شادماں مجھے
اے موجِ غم ڈرا نہ مرے عزم کو ذرا
سو بار کر چکا ہے کوئی امتحاں مجھے
جنبش میں لب کو دے نہ سکا تھا کوئی سبب
دنیا سمجھنے لگ گئ اک بے زباں مجھے 
میں کیا گلہ زمانے سے عارفؔ یہاں کروں 
برباد کر چکا ہے مرا پاسباں مجھے
 
جاوید عارفؔ
پہانو شوپیان 
موبائل نمبر؛7006800298
 
 
 
 
پاؤں رکھنے کا ارادہ ہے کیا انگار میں اب 
وہ جلن خور سقم ڈھونڈے گا اشعار میں اب
 
حوصلے پست نظر آئے معالج کے مجھے
کیسے امید نظر آئے گی بیمار میں اب
 
وہ اَنا دار سا لہجہ بھی نہیں ہے باقی
وہ کڑک پن بھی نہیں آپ کی دستار میں اب
 
جن کو جانا ہے چلےجائیں خوشامد کرنے
میں گئی تھی نہ کبھی جائوں گی دربار میں اب
 
حسنِ آوارگئی شہر کا قائل نہ رہا
کوئی یوسف ہی نہیں ہے بھرے بازار میں اب
 
صبح کی چائے کا اک ساتھ ہی کافی ہے مجھے
کب سکوں بخش خبر ملتی ہے اخبار میں اب
 
اب تو خوشبوؔ جی کنارے ہی ڈبو دیتے ہیں
 کوئی کشتی بھی نہیں ڈوبتی مجھدھار میں اب
 
خوشبو پروین قریشی
پی ایچ ڈی،اردویونیورسٹی آف دہلی
 
 
تضمین
 
ایماں تیرا بچالے وہ رہبر تلاش کر
 
مقصد تیری حیات کا ایمان ہے بشر
کب تک رہو گے اِس طرح انجان وبے خبر
خلقت سے پہلے آگیا رہبر وجود میں
نکلا اُسی تلاش میں آدم زمین پر
دشمن تیرے ایمان کا ابلیس اَزل سے
’’ایماں تیرا بچالے وہ رہبر تلاش کر‘‘
رہزن ملیں گے آپ کو ہر اِک مقام پر
ہوگا جو رہنما تیرا اُس کو تلاش کر
آتی ہے یہاں موت بھی ہر ذِی حیات کو
یہ موت ہی ہے درمیاں بس ایک رہگزر
دنیا کی ہوس آدمی بس اِک سراب ہے
ہادی کو اپنے ڈھونڈلے دُنیا کو چھوڑ کر
تیری کمائی ہے نہیں دُنیا کا مال و زر
محفوظ رہے دین اور ایمان مظفرؔ
 
حکیم مظفرؔ حسین
باغبان پورہ لعل بازار سرینگر
موبائل نمبر؛9622171322
 
 
قطعات
عالمِ ہی ہر اک بزم میں ہے واجبِ تعظیم
یہ بات نہیں کوئی وہ پتلا ہوا یا لحیم
انساں کی قدر ہے تو فقت علم سے ہی ہے
وقعت ہے اسکی کیا جوالف جانے ’’ب‘‘نہ جیم
���
 
جب قسمت ہی بگڑ جاتی ہے
ہر کڑی کمزور پڑ جاتی ہے
پریشانی عود کر ہے آتی
اور زندگانی ہی سڑ جاتی ہے
���
 
جس علمِ سے حاصل نہ ہو عرفانِ ذات
اُس سے آساں کیسے ہونگی مشکلات
الحذرکر اب تُو ایسے علم سے
جو بگاڑے تیرا دن اور میری رات
 
غلام نبی نیئر
کولگام کشمیر،موبائل نمبر؛ 9596047612
 
 
حوس
ہر اک خواہش کا
ہر ایک پہلو
وہ تمام زاویئے
جو آج کھلے ہیں
کوئی تو آئے
مجھے بتائے
کہ حوس کا جادو
نہ جب چڑھا تھا
تب میں کیا تھا؟ 
کیا تب بھی ڈرتا 
میں اس پل سے
جو ابھی نہ آیا
اور حِزن کا رشتہ 
تھا اس کل سے
جو جا چکا تھا؟ 
کیا تب بھی مرتا 
میں اس خبر سے
کہ تمام خواہشیں
مر چکی ہیں
 
شہزادہ فیصل
ڈوگری پورہ پلوامہ
8492838989