غزلیات

دلِ ناداں نہیں سمجھا چلا ہے پیارپانے کو
گزاری زندگی ساری فقط اقرار پانے کو
کمر کی نازکی اور پھر سرکنہ اک سیہ ناگن
مچلتا ہے یہ دل میرا تیرا اسرار پانے کو
میرا جینا کرے مشکل تیرے رخسار کا یہ تل
ذرا ان گہری آنکھوں میں اُتر اک بار پانے کو
تیری خاطر ہی زندہ ہوں بنا کر بھیس مجنوں کا
ہے کیسی بے قراری یہ تیرا دیدار پانے کو
سکوں کا ایک پل جاناں نہیں حاصل محبت میں
ٹھکانہ مے کدہ پایا چلا جب پیار پانے کو
بہت ہی میٹھا ہے یہ روگ مرنے بھی نہیں دیتا
ابھی ہیں امتحان باقی تیرااقرارپانے کو
نہیں آساں ہے پرواز محبت میں فنا ہونا
زمانہ بیت جاتاہے کوئی کردار پانے کو

جگدیش ٹھاکر پروازؔ
ایچ ایس ایس بنون کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9596644568

شمعِ خاموش پہ بیدار نظر ٹھہری ہے
جانے کس چاند کے گاؤں میں سحر ٹھہری ہے
شوق آمادۂ رفتار سفر ہے لیکن
تیری آہٹ پہ مری راہ گزر ٹھہری ہے
سازشیں ہجر کی ڈالے ہیں وہیں پر ڈیرا
خواہشِ وصلِ گماں زار جدھر ٹھہری ہے
ایک ہلچل ہے شبستانِ گل و بلبل میں
بادِ صرصر جو لئے تازہ ہُنر ٹھہری ہے
کل کی بارش پہ ترا نام تھا لکھا رُت نے
آج پھر دھوپ ترے زیرِ اثر ٹھہری ہے
کتنے بے حال ہوئے اس نے جو کھڑکی کھولی
کوچۂ مرگ میں فی الحال خبر ٹھہری ہے
جاگ اٹھتی ہے کوئی یاد پرانی شیداؔ
سانس لگتی ہے کہ چلتی ہے مگر ٹھہری ہے

علی شیدا ؔ
نجدون نی پورہ اننت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087

تیرے دلکش شباب کا نشہ
جیسے کچی شراب کا نشہ
دار پہ چڑھ کے بھی نہیں اترا
نشۂ انقلاب کا نشہ
شام ہوتے ہی ٹوٹ جائے گا
خوبخود آفتاب کا نشہ
درد والوں کے دل میں رہتا ہے
میر تیری کتاب کا نشہ
’’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں‘‘
ہم کو بھی ہے خطاب کا نشہ
ہم کو غالب نہیں بنا سکتا
شعر کے انتخاب کا نشہ
پھر اُتارا ہے اہلِ دنیا نے
میکدے پر خطاب کا نشہ
تم نے دیکھا ہی کیا نہیں اب تک
ایک خانہ خراب کا نشہ
دل سے محسوس کیجئے صاحب
حسنِ عالیجاب کا نشہ
پھر بڑھانے لگی ہے شدت سے
میکشی اضطراب سے نشہ
مجھ پہ طاری ہے آج تک مصداقؔ
ہجرتوں کے عذاب کا نشہ

مصداق اعظمی
مجواں،پھولپور اعظمگڑھ، یوپی
موبائل نمبر؛9451431700

ایسی تو کبھی کیں ہی نہیں ہم نے خطائیں
جس طرح مل رہی ہیں ہمیں آج سزائیں
کہنے کو اک دیا ہوں میں خستہ مکان کا
ڈرتی ہیں پھر بھی مجھ سے زمانے کی ہوائیں
چلتا ہوں بظاہر تو اکیلا ہی سفر میں
رہتی ہیں مگر ساتھ مرے ماں کی دعائیں
پتھریلے راستے ہیں کڑی دھوپ ہے سر پر
جو پھول سے پیکر ہیں مرے ساتھ نہ آئیں
مدت ہوئی ٹکرائے کسی شیش بدن سے
اب تک مرے کانوں میں کھنکتی ہیں صدائیں
ہے ان کے لبوں پر بھی عجب تشنگی رفیقؔ
پھرتے ہیں جو شانوں پہ لئے کالی گھٹائیں
دشمن بھی اب خلوص سے ملنے لگے رفیقؔ
اب سوچ سمجھ کر ہی ذرا ہاتھ ملائیں

رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
سابق آفس سپرانٹنڈت BSNLآکولہ

بار ہا دل اُداس رہتا ہے
غمِ جاں آس پاس رہتا ہے
شب کو فرقت اشک اور گریہ
دن کو تیرا قیاس رہتا ہے
وہ نہیں بھولتے بچھڑ کر بھی
جن کو اُلفت کا پاس رہتا ہے
میں سوالی کو جز دعا کیا دوں
میرارہن اساس رہتا ہے
میں ہی تنہا نہیں ہوں آشفتہ
وہ بھی شاید اداس رہتا ہے
خضر کو ڈھونڈنے کہاں جائوں
وہ تو ظلمت کے پاس رہتا ہے
ظلم کو کب دوام ملتا ہے
صبر کا دل سپاس رہتا ہے
پھونک کر آشیاں کو میرے اب
رعد بھی بدحواس رہتا ہے
شیشۂ دل نہ توڑ منیبؔ مرزا
اس میں وہ روشناس رہتا ہے

مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906486481

طبعیت سے اب بھی گِرانی نہیں جاتی
یاد دل میں جو ہے پُرانی نہیں جاتی

دُھندلا دُھندلا سا کچھ نظر آتا ہے مجھ کو
کوئی صورت ہے جو پہچانی نہیں جاتی

جس کی سرشت میں ہو بےوفائی جابجا
یہ عادت ہے کچھ خاندانی نہیں جاتی

دلِ ناشاد میں کیا شادمانی آگئی !
یاد ہی تھی کچھ ایسی سہانی نہیں جاتی

یکایک بدل گیا ہے کچھ رویّہ اُن کا
ذہن و دل سے ہنوز یہ حیرانی نہیں جاتی

جب سے بچھڑا دل کچھ اِسطرح اُجڑا مشتاقؔ
زندگی صحرا نُما ہے یہ ویرانی نہیں جاتی

خوشنویس میر مشتاق
ایسو، اننت ناگ، کشمیر
[email protected]

فصیل شہر میں اُترا کمال کا موسم
شَجر اُداس ہیں ، وقتِ زوال کا موسم
غبارِ دل کو کہاں تک پھروں یہ سمجھاتا
کہ مجھ سے روٹھ گیا ہے خیال کا موسم
نگار خانۂ ارژنگ ہومیرے ہمدم
نہ ہوش باقی ہے نا قیل و قال کا موسم
کیا کہوں تمہیں تہذیب عشق کی اپنی
لباس کاغذی ہے اور غزال کا موسم
بہارِ عیش وطرب ،حسنِ جاوداں ہے آج
برس رہا ہے میرے دل پہ پال کا موسم
ذرا سی بات کا افسانہ بن گیا ہوں میں
غزل کہوں تمہیں یا کہ غزال کا موسم
کیا کروں تیرا اے حال ، ماضی ،مستقبل
تمہیں تو بھول گیا ہے خیال کا موسم
شمال و مشرق و مغرب،جنوب اور کس سمت
عذابِ جاں ہے یہ گردِ ملال کا موسم
بہ یک کرشمہ دکھا دے نگارِشب یاور ؔ
بہارِ حُسن بیاں ہے خیال کا موسم

یاور ؔحبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ،کشمیر
موبائل نمبر؛60059291‌60

کیا بھروسہ زندگی ہوگی عنایت آج بھی
جو فقط اک بلبلے کی ہے علامت آج بھی
فاصلہ اک سانس کا ہے دو جہاں کے درمیاں
موت سے بڑھ کر نہیں کوئی حقیقت آج بھی
چاند ، سورج، آسماں کی آرزو کس کام کی
آدمی کی آدمی سے ہے عداوت آج بھی
مندروں کے مسجدوں کے نام پر ہم بٹ گئے
دھرم کے آدھار پر ہوگی سیاست آج بھی
یک بہ یک کچھ لوگ ہم کو خا ک میں دفنا گئے
خواب ٹوٹا ، ہوش آیا، ہیں سلامت آج بھی
ہم مقدّر کی لکیروںکو مِٹا سکتے نہیں
ماں اگر چاہے تو بدلے گی کتابت آج بھی
روز مر کے جی رہا ہے آپ کا مشکورؔ بھی
عاشقی کے تین لفظوں کے بدولت آج بھی

مشکو ر ؔ تماپوری
تماپورکرناٹک

ارمانوں کی ِتجوری ہے
دِلــ‘مِرا ہُوا جو چوری ہے
ہر پل تجھکو نیہاروں میں
چاند کو تکتی چکوری ہے
سُنتا ہوں غور سے تیری
باتیں کرتا چٹوری ہے
پیاسا ہوں‘ چاہئے مجھکو
ابلیم کی اِک کٹوری ہے
وشواس منیؔ کا ٹوٹے ناں
کچّے دھاگے کی ڈوری ہے

ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
جمّوں کشمیر
موبائل نمبر؛9596888463

جسم اتنے تھے کوئی سایا نہیں
سو میں نے بھی کسی کو پایا نہیں
میں کسی دشت کی طرف گیا تھا
اور پھر لوٹ کر میں آیا نہیں
عمر بھر خود کو ڈھونڈتا رہا میں
عمر بھر خود کو میں نے پایا نہیں
آیا تھا جب پلائی تھی اس نے
پھر کبھی ہوش میں میں آیا نہیں
کتنے چہرے نظر سے گزرے مگر
کوئی اِن آنکھوں میں سمایا نہیں
خود سے خود کو چھپایا ہے لیکن
آج تک تم سے کچھ چھپایا نہیں
دیکھتے رہ گئے سبھی کسی نے
ڈھوبتے لڑکے کو بچایا نہیں
میں خود اپنا عذاب تھا کسی نے
مجھ کو میرے سوا ستایا نہیں
تاک پر دل کے شمع رکھی گئی
پھر کسی نے اسے جلایا نہیں

میر شہریارؔ
اننت ناگ، کشمیر
[email protected]

اپنے بیگانے رقص کرتے ہیں
عشق میں سارے رقص کرتے ہیں
ایک میں ہی نہیں فقط تنہا
ٹوٹے دل سارے رقص کرتے ہیں
مہرباں بن کے ساتھ میرے اب
موت کے سائے رقص کرتے ہیں
عشق میں اوڑھ کے جہاں کا غم
سارے دیوانے رقص کرتے ہیں
مجھ کو اب پُر سکون کرنے کو
سامنے پنکھے رقص کرتے ہیں
وجد میں اب تھرک کے دیوانے
سر کے بل ہائے رقص کرتے ہیں
جب سے نسبت ہوئی پھولوں سے
جھوم کر کانٹے رقص کرتے ہیں
یاد میں ہیر کے سبھی اظہر ؔ
آج بھی رانجھے رقص کرتے ہیں

محمد اظہر شمشاد
جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی

اَے غافل مت بن کافر بدل دے اپنی ڈال
چھوڑ دے غفلَت اس دنیاکی آخرت اپنی پال

موٹے پلنگ پر سونے والے کیا ہوگا تیرا حال
قبر میں جب تو سوئے گا کیڑے اُتارینگے کھال

مت کر غرور اس دولت کا یہ ہے مکڑی کی جال
اِک ہوا کا جھونکا آئے بگڑے گی اس کی چال

مت رکھ شفقت اس دنیا کا مت کر جمع تو مال
یہ سب کچھ یہیں چھوڑ نا ہے ساتھ لینے ہیں اعمال

بچپن جوانی گُذر گئی ہے کیا کیا تونے کمال
ایک نظر مار اپنےآپ پر سفید ہوگئے ہیں بال

وہاں ایسےہی بری ہوجائیں یہ ہے غلط خیال
نکیر منکر جاتے ہی کرینگے ہم سے سوال

یہی سوچ سوچ کے رو پڑتا ہوں آنکھیں ہوئیں ہیں لال
اسی گہری سوچ میں آخر تعظیمؔ ہوا بے حال

تعظیم کشمیری
[email protected]