غزلیات

دل تجھ پہ فدا شوق سے دلدار کروں گا
میں پاس ترے عشق کا اظہار کروں گا
خود کو میں ترے واسطے ہوشیار کروں گا 
ہاں پیر کو بدھ ، بدھ کو میں اتوار کروں گا
اک جلوہ دکھا یار! مجھے ،در پہ پڑا ہوں
سینے میں حزیں قلب کو سرشار کروں گا
آ کر تو مجھے آج پِلا شربتِ دیدار
ورنہ لہو سے سرخ یہ دیوار کروں گا
اک بار مجھے آزماء، میں جان یہ اپنی
قربان تری راہ میں سو بار کروں گا
شادابؔ میں باطل سے ڈروں یہ نہیں ممکن
حق بات کا اعلان سرِ دار کروں گا
 
 شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
 
 
بے رنگ زندگی ہے اگر کوئی غم نہیں
گھر میں مکیں نہ ہو تو کھنڈر سے وہ کم نہیں
کیسے وہ لکھ رہے ہیں سب اعمال میرے دیکھ
کاغذ نہیں، سیاہی نہیں ہے، قلم نہیں
مانوس ہو چکا ہوں میں تنہائی سے بہت
وہ آئے یا نہ آئے مجھے اس کا غم نہیں
نکلا سفر کے واسطے لیکن گیا نہیں
اُس راہ پر جہاں تیرے نقشِ قدم نہیں
یہ اور بات تیرگی میں ہیں گھرے ہوئے
ہم کو ملے گی روشنی سورج سے کم نہیں
ایسی جگہ جہاں ہوں ریاکار آدمی
ویسی جگہ پر ہم کبھی رکھتے قدم نہیں
اشعار سارے تیری غزل کے ہیں معتبر
کہتا ہے کون تیری غزل محترم نہیں
راشدؔ خوشی تو ملتی ہے ہر ایک کو مگر
ایسا کوئی نہیں ہے جسے کوئی غم نہیں
 
راشد احمد راشدؔ 
کشن باغ، حیدرآباد
موبائل نمبر؛9951519825
 
 
 جو اُتر جاتی تھی دل میں وہ محبت اب کہاں
پھول برساتے تھے قُدسی وہ  طہارت اب کہاں
مرکزِ نورِ ہدایت قریہ قریہ تھا مرا
کاش بتلائے کوئی تو، ایسی رحمت اب کہاں
میں اُتر جاتا تھا بےخوف و خطر ظلمات میں
 عزم و استقلال وہ میری شجاعت اب کہاں
رقص کرتے تھے ستارے میری محفل میں کبھی
 اب کہاں وہ فکرو دانش، شانُ شوکت اب کہاں
راستی جس کا تھا شیوہ،سادگی جسکو عزیز
اُس عمرؓ کا دورِ یکتا اور عدالت اب کہاں
بن گئے رہزن مرے اس دور کے رہبر تمام 
پچھلے وقتوں کی صداقت اور شرافت اب کہاں
ایک پل میں دشمنوں کی ہر رزالت بھولنا
 میرے آقاؐ تیری اُمت کی یہ خصلت اب کہاں
میرا پیغمبر ؐیہیں ہے میرا قرآں بھی یہیں
کارواں میرا کہاں ہے،اور قیادت اب کہاں
 پوچھتا پھرتا ہے بسمؔل ہر کس و ناکس سے یہ
مِلّتِ بیضا کی عظمت اور حشمت اب کہاں
 
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی راجوری،موبائل نمبر؛9086395995
 
 
زندگی میں عجیب الجھن ہے 
خارزاروں میں جیسے دامن ہے 
سادگی ہی نہیں دیوانہ پن ہے 
وہ تو اپنے پیا کی  جوگن  ہے 
روزو شب کا یہی ہے ہنگامہ 
بھائی بھائی کا آج دشمن ہے 
وقت نے بھر دئیے زخم مگر 
داغ دل کا ابھی بھی روشن ہے 
مرنے والے تو مر ہی جاتے ہیں 
مرکے جینا بہت بڑا فن ہے 
قیمتیں بڑھ گئیں زمانے میں 
سب سے مہنگی تو آکسیجن ہے 
تاک میں رکھتے ہیں یوں موسم کو 
بجلیوں کی  نظر میں گلشن ہے 
پھر رہے ہیں پھٹے لباسوں میں 
کیا امیروں کا شاہیں فیشن ہے 
 
رفعت آسیہ شاہین ؔ
وشاکھاپٹنم آندھرا پردیش 
موبائل نمبر؛9515605015
 
 
یہ محبت نہیں کوئی قیامت سی ہے
پلکوں پہ مری گردِ وحشت سی ہے
پروانے بھی کہیں چھپ گئے سارے
چراغوں کو جلنے سے دہشت سی ہے
دن بھی نہیں نکلتا شہر میں میرے
چاند تاروں کو بھی شکایت سی ہے
اے ذور ذور سے چیخنے والے مسافر
تری باتوں میں بھی صداقت سی ہے
نہیں اُداس ترے ترکِ وفا پہ میں
فریب کھانے کی مجھے عادت سی ہے
کیوں کر وصل کی حسرت رکھوں میں
شب فرقت میں لذتِ قربت سی ہے
آئے تھے کس امید سے در پر تمہارے
تمہں تو دل دُکھانے کی عادت سی ہے
ترے درد کے چراغ مدہم پڑ گئے
آتشِ درد میں کچھ راحت سی ہے
بُجھا دے گھر کے چراغوں کو شہریارؔ
آنکھوں کو روشنی سے عداوت سی ہے
 
توصیف شہریارؔ
سریگفوارہ اننت ناگ
موبائل نمبر؛7780895105
 
 
میرے حصّے غمِ عاشقی رہ گئی
یہ سسکتی ہوئی زندگی رہ گئی
ساری خوشیاں تو وہ بانٹ کر لے گئے
اپنے دامن میں یہ بے بسی رہ گئی
چاند آنگن کا میرے دفن ہوگیا
ہاتھ ملتی ہوئی چاندنی رہ گئی
دیکھتے دیکھتے رنگ گرنے لگا
گھر کی دیوار پر اک نمی رہ گئی
لوگ سارے تماشے میں مشغول تھے
آگ میں چیختی جھونپڑی رہ گئی
آئے تھے کل اندھیرے کسے پھوڑنے 
جانے کس آنکھ میں روشنی رہ گئی
دیکھو کچھ کم نہ تھے غم کے یہ زلزلے 
ہونٹوں پہ کانپتی یہ ہنسی رہ گئی
تشنگی،بے کسی،بے دلی اور غمی
تم کو کس چیز کی اب کمی رہ گئی
راہیؔ جی آپ کو نیند آنے لگی
آج بھی یہ غزل ان کہی رہ گئی
 
عاشق راہیؔ
اکنگام اننت ناگ 
موبائل نمبر؛ 6005630105
 
 
مت پوچھ دل پہ وقت کا کیسا اثر ہوا
سنسان بستیوں سے ہمارا گذر ہوا
 
بھولے سے تیری یاد جو آئی تو یکایک
نم آنکھ ہوئی اشکوں سے چہرہ بھی تر ہوا
 
جو بھر دیا تھا وقت کے مرہم نے کیسے اب
پھر سے ہرا وہ زخم تمہیں دیکھ کر ہوا
 
خاموش خامشی پسِ منظر میں ہے رقصاں
دن میرا ایسی دنیا میں کیسے بسر ہوا
 
ویسا ہے سبھی کچھ مگر ویسا نہیں رہا
صورتؔ وہ وقت سارا ہی محلِِ نظر ہوا
 
صورت ؔسنگھ 
رام بن، جموں
موبائل نمبرا؛9622304549
 
 
جب مجھے جس جگہ مرگ کھوجتا رہا
میں اُسی راہ پر روز چلتا رہا
 
آگ سے ہے دوستی، مجھ کو یہ معلوم تھا
جان کر بھی سدا میں تو جلتا رہا
 
گھر کے اندر اندھیرا سا چھایا ہے کیوں
سوچتے سوچتے وقت جاتا رہا
 
وقتِ آخر ہے، توبہ تو کرنی ہے اب
میکدے میں عمربھر جام پیتا رہا
 
نشتروں کے سائے میں عمر گزری سعیدؔ
گھائو گنتا نہیں بس چھپاتا رہا
 
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
حال کاکس ٹائون بنگلور
موبائل نمبر؛9906355293