غزلیات

اب مجھکو اس نگر میں بُلانا فضول ہے
پھولوں سے رہگزر کو سجانا فضول ہے
شاید پلٹ کے آئیں پتنگے نہ اِس طرف
بُجھتے ہوئے چراغ جلانا فضول ہے
وہ ساتھ اپنے لے گیا رونق جہان کی
اب اُس کے بعد سارا زمانہ فضول ہے
تُم دِل سے نفرتوں کو بھلائو تو بات ہو
یوں رسم و رہ میں ہاتھ ملانا فضول ہے
اب اِن دِلوں کے بیچ کوئی ربط بھی نہیں
پوچھیں گے لوگ، بام پہ آنا فضول ہے
چہرہ جھلس گیاہے جُدائی کی دُھوپ میں
آنگن میں اب کے پیڑ لگانا فضول ہے
اب یہ اثر کرے نہ کرے کُچھ خبر نہیں
ساقی مُجھے شراب پلانا فضول ہے
جاویدؔ مُجھکو چین میّسر نہیں رہا
سائے میں گیسوئوں کے سُلانا فضول ہے

سردار جاوید خان
مینڈھر پونچھ
موبائل نمبر؛ 9697440404

کوئی دیکھے تو ذرا کیسی سزا دیتا ہے
’’میرا دشمن مجھے جینے کی دُعا دیتا ہے ‘‘
کیا ہوا تم نے جو غربت میں چھڑایا دامن
ایسے حالات میں ہر کوئی دغا دیتا ہے
حاکمِ وقت بھی حالات سے عاجز آکر
وقت کے سامنے سر اپنا جھکا دیتا ہے
جس کی آواز کو سن کر میں تڑپ جاتا ہوں
میرے اندر سے مجھے کون صدا دیتا ہے
لطف آتا نہیں ہو کر بھی شکم سیر تمہیں
ہم غریبوں کو تو فاقہ بھی مزا دیتا ہے
ہاتھ پھیلاؤں کسی غیر کے آگے کیوں کر
مجھ کو ہر چیز بنا مانگے خدا دیتا ہے
کوئی منزل پہ نہیں چھوڑتا لے جا کے رفیقؔ
ہر کوئی دور سے بس راہ دکھا دیتا ہے

رفیق عثمانی
آکولہ، مہاراشٹرا
[email protected]

مر گئے میرے سبھی ہمدم عقیل ؔ
زندگانی ہوگئ برہم عقیلؔ
اب تو جیتے جاگتے انسان کا
ہو رہا ہے جابجا ماتم عقیلؔ
نغمگی نغمے سے اُوجھل ہوگئی
بے سُری سی ہوگئی سرگم عقیلؔ
یہ چمن سیراب پھر ہوجائے گا
پھول سے ٹپکےگی جب شبنم عقیلؔ
رو پڑے دشمن بھی مجھ کو دیکھ کر
اس طرح تھی آنکھ میری نم عقیل ؔ
ایک ہی موسم نہیں رہتا سدا
ایک دن بدلے گا یہ موسم عقیلؔ
ظلمتیں سب چھٹ گئیں اعلان ہو
روشنی ہو ہر جگہ پیہم عقیل ؔ

عقیل فاروق
بنہ بازار شوپیان
موبائل نمبر؛7006542670

مل گئے جب راہ میں وہ مسکرا کر چلدیئے
دل میں اِک اُمید روشن سی جگا کر چلدیئے

آئے میرے گھر مگر آئے مرے مرنے کے بعد
اشک دو رسماً بہائے اور بہا کر چلدیئے

وہ تو آئے تھے مری ڈھارس بندھانے کیلئے
اپنے ہی دل کا وَلے دُکھڑا سُنا کر چلدیئے

کس قدر اُلفت ہے اُنکو مجھ سے، میرے شوق سے
میٹھی نظروں سے مرے من کو بتا کر چلدیئے

صورتؔ اپنے غم کے ہمراہ جب چلا منزل کی اور
بھانپ کر رُخ، بوجھ اپنا وہ اُٹھا کر چلدیئے

صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں، موبائل نمبر؛9419364549

 

 

جو ہیں فنکار وہ فنکار سمجھتے ہیں مجھے
جو ہیں ناداں وہ سمجھ دار سمجھتے ہیں مجھے
یہ غلط سوچ ہے لوگوں کی مرے بارے میں
میں تو کچھ بھی نہیں دلدار سمجھتے ہیں مجھے
غیر تو غیر ہیں سمجھیں گے کسی کو کیسے
گھر کے افراد بھی بیکار سمجھتے ہیں مجھے
میں لہو بیچنے بازار میں آیا تھا مگر
پھر بھی کیوں لوگ خریدار سمجھتے ہیں مجھے
غم‌سہے زیست میں جن لوگوں کی خاطر میں نے
کیا کہوں آج وہ غدار سمجھتے ہیں مجھے
پیار کے نام سے وا قف بھی نہیں ہوں احمدؔ
لوگ کیوں عشق کا بیمار سمجھتے ہیں مجھے

احمد ؔارسلان
کشتواڑ، جموں وکشمیر