عمرہ اور ہم لوگ تلخ وشریں

TOPSHOTS Muslim pilgrims perform the final walk (Tawaf al-Wadaa) around the Kaaba at the Grand Mosque in the Saudi holy city of Mecca on November 30, 2009. The annual Muslim hajj pilgrimage to Mecca wound up without the feared mass outbreak of swine flu, Saudi authorities said, reporting a total of five deaths and 73 proven cases. AFP PHOTO/MAHMUD HAMS (Photo credit should read MAHMUD HAMS/AFP/Getty Images)

شبیر احمد بٹ
عمرہ کی فضیلت اور اس کے احکامات پر کوئی عالم دین اور خطیب ہی بہترین اور مفصل طور پر لب کشائی کر سکتا ہے ۔ البتہ اس سفر کے حوالے سے کئی ایسی باتیں ہیں ،جن کی طرف زائرین کے ساتھ ساتھ ان پرائیوٹ ایجنسیوں کو توجہ دینی چاہیے جو یہاں اس پیشے سے اپنا روزگار کما رہے ہیں ۔

جب بھی کوئی اس مبارک سفر پر جانے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ کسی ایجنسی کسی ٹراول کمپنی سے بات کرتا ہے۔آج کل کی یہ دنیا اشتہاری دنیا ہے، ہر کاروبار اشتہاری بن گیا ہے۔ اس لئے اس اشتہاری کاروبار سے ہوشیار رہنا چاہئے،جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے،سوچ سمجھ کر ایجنسی یا کمپنی کا انتخاب کرکے لین دین کے معاملات طے کرنے چاہیے ۔ محض فیس بک پر اشتہارات یا تصاویر دیکھ کر فیصلے لینے کےبجائےاُن لوگوں سے مشاورت کرنی چاہیے ،جو اس عظیم عمل کو انجام دے چکے ہوں، اُن کی بہترین تجاویز کو ذہن میں رکھ کر صحیح اور بہترین کا انتخاب کرنا چاہیے ۔

اس مبارک سفر کے حوالے سے بہترین لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔اگر آپ پڑھے لکھےنہیں ہیں تو ایک یا دو گھنٹے کی کاروباری تقریر سے آپ یہ مت سمجھئے کہ بس اب آپ کو کسی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ جانے سے قبل کسی عالم یا خطیب سے پوری جانکاری اور تعلیم حاصل کیجئے تاکہ احسن طریقے سے ہر عمل اور عبادت ادا کی جاسکے ۔اس سفر کے دوران بہت سارے مرحلے ایسے آتے ہیں جہاں عام زائر کو اگر صحیح جانکاری نہ ہو تو مشکلات اور مشقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور کہیں کوئی عمل ثواب کے بجائے گناہ بن سکتا ہے،لہٰذاجتنا ممکن ہوسکے ایک دوسرے کی مدد کیجئے ۔

ہر ائیر پورٹ پہ بناء کسی جلد بازی کے اپنے کاغذات اور بورڈنگ پاس وغیرہ اُٹھائیے۔ ضروری ادویات اپنے ساتھ لازمی رکھیں ۔ ایک ہلکی سی جائےنماز بھی ہینڈ بیگ میں رکھیں،یہ بہت کام آئے گی ۔ جانے سے قبل اپنوں سے کہہ کے رکھئے گا کہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد آپ اُن سے فون پر رابطہ کرو گے ،تاکہ آپ کو ائیر پورٹ پہ اُتر کے ہی سم کارڈ کے حصول کی فکر نہ رہے ۔بہتر ہوگا کہ آپ نماز فجر کے بعد ہوٹل آکر ہوٹل کا وائی ،فائی (Wi Fi) استعمال کرکے اپنوں سے بات کریں کیونکہ یہی وقت موزوں ہوتا ہے ۔ بیت اللہ یا مسجد نبوی میں قیام کے دوران موبائل فون کا استعمال انمول اور قیمتی وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے ،جبکہ وہاں آپ کو بیس بائیس دنوں کے لئے دوہزار سے زیادہ رقم سم کارڈ پر خرچہ آئے گا۔ آپ جس ہوٹل میں رُکے ہو، اس ہوٹل کا کارڈ وہاں پہنچ کر ہی اپنے ساتھ لازمی رکھئے گا۔

یہاں کی ٹراول ایجنسیوں کو بھی چاہیے کہ ان لوگوں سے سیکھ حاصل کریں جو اپنے گروپ کو اجتماعی طور پر ساتھ لے کر چلتے ہیں ،حتیٰ کہ وہ طواف کے دوران بھی ان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ہر قدم پر اپنے گروپ کی رہنمائی کرتے ہیں ۔یہاں کی بیشتر ایجنسیوں میں اس کا فقدان نظر آتا ہےاور حد تو یہ ہے کہ یہاں کے اکثر زائرین کی شکایت رہتی ہے کہ ان کا جو گائیڈ ،معلم یا کمپنی والا، اُن کے ساتھ تھا ،وہ دن میں ایک آدھ بار ہی ان کو دیدار دیتا ہے ،اور پھر اپنی کمزوریوں ،لاپرواہیوں اور خامیوں کو چھپانے کے لئے یہ لوگ یہی کہتے پھرتے ہیں کہ کشمیری تعاون نہیں کرتے ہیں ۔ اصل میں یہاں کے بیشتر گائیڈ ،خود گائیڈنس کے محتاج ہوتے ہیں، اس لئے ہر کام ایجنٹوں کے ذریعے ہی کرواتے ہیں ۔ جانے سے پہلے یہ یقینی بنائیں کہ سعودی NASUK application کے ذریعے ریاضہ الجنتہ میں داخل ہونے کے لئے آپ کی رجسٹریشن ہوئی ہے کہ نہیں ۔

اب جہاں تک یہاں کے زائرین کی بات ہے، ان میں بھی بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جن کو اصلاح اورتربیت کی بے حد ضرورت ہوتی ہے ۔معمولی سی باتوں پر بگڑ جاتے ہیں اور بے جا تنقید میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔کھانے پینے کی چیزوں میں کوئی تمیز نہیں کرتے بلکہ بیشتر لوگ سمجھتے ہیں جیسے وہ محض کھانا کھا نے کے لئے ہی آئے ہیں۔اس لئے چاول پر سنگترہ اور کیلا رکھ کر،ناشتہ میں عجیب و غریب کمبنیشن کو اپنا کر

سمجھتے ہیں کہ پیسہ وصول کرنا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ کھانے پینے کی اس حرص میں کبھی کبھار کچھ لوگوں کی عبادات بھی چھوٹ جاتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ وہاں کا ہر لمحہ اور ہر پل انمول ہے، اس لئے زائرین کو چاہیے کہ وہ ان قیمتی لمحوں کی قدرواہمیت کو سمجھیں۔ کمپنیوں و ایجنسیوں پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ زائرین کی سہولت اور آسانی کے بندوبست کو ترجیح دیں ۔ہماری ایک بہت بڑی خامی ہے کہ ہم ہر وقت ٹسوئے بہاتے رہتے ہیں کہ اس میں زیادہ بچت نہیں ہے ۔ہر طرح کا حساب لگا کر ہر طرح کی ماٹویشن کرکے اور قسمیں کھا کھا کے ہم دوسروں کو یہ باور کرانا

چاہتےہیں کہ ہمارے کام میں تھوڑا سا نفع ہے ۔اگر ہم شکر کرتے، ہر وقت الحمد للہ پڑھتے تو خریدار اور گراہک یعنی لین دین بھی با برکت رہتا ۔ ہر کوئی اپنا کام نفع کے لئے ہی کرتا ہے اور اُس سے بڑا خوش بخت کون ہوگا جو اللہ کے گھر اور اللہ کے محبوب کے روضہ کی زیارت کے لئے کسی کی رہنمائی اور رہبری کر سکے ۔اس میں تو خیر ہی خیر ہیں ۔ اگر اس خیر میں بھی جہالت ،غیر اخلاقی،ناشائستگی ،دھوکہ یا محض پیسہ کو ترجیح دی جائے تو پھر اللہ معاف فرمائے ،کون سی دعا قبول ہو گی اور کون سا عمل باعث اجر ہوگا ؟
(رابطہ ۔9622483080)
[email protected]>