علم کے نورسے نوعمر لڑکیاں محروم کیوں؟ روئیداد

ریحانہ کوثر ریشی۔ پونچھ

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔اب وہی قوم یا ملک اس جہاں پر حکمرانی کر سکتا ہے جو علم اور ٹکنالوجی میں آگے ہے۔ اگر کسی ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین پسماندہ ہوگی تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ لہٰذا عورتوں کے لئے تعلیم کا حصول اور واقفیت عام یا معلومات عام سے آراستہ ہونا نہایت ضروری ہے، خاص کرکے نو عمر لڑکیوں کیلئے شروع سے ہی تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے مافی الضمیر آسانی سے دوسرے تک پہنچا سکتی ہے، اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کر سکتی ہے، ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتی ہے، اپنے خاندان اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ رہتی ہے۔ علم دلکش داستان اور بے مثال کہانی ہے ،یہ لامحدود موضوع ہے ،ایک جامع مضمون ہے جو ہر شے کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ درحقیقت تعلیم وہ زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام سے آگاہ ہوکر اپنا مقدر سنوار سکتی ہے۔افسوس کی کچھ لوگوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ لڑکیوں کو اسکول میں نہ پڑھایا جائے، انہیں شروع سے ہی داخلہ نہ دلوایا جائے، لڑکیاں صرف گھر کے کا موں تک محدود رہنا چاہیے۔جس معاشرے کے لوگ اپنے دماغ میں ڈال دیتے ہیں کی لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر سکتی، انہیں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ تو ایسا معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا ہے۔
آج میں آپ کو ایک ایسی نوجوان لڑکی الفت بی سے روبرو کروانا چاہتی ہوں جو ڈسٹرکٹ پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں چھبرا (چکھری بن) میں رہتی ہے۔پندرہ سالہ الفت بی نے صرف آٹھویں تک ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس سے آگے ان کو پڑھنے کیلئے نا ہی کوئی مالی امداد ہے اور نہ ہی گھر کا سپورٹ ملا ہے۔ اب اس کے دماغ میں صرف یہی باتیں گھومتی ہیں کہ اب میں نے آٹھویں تک تعلیم حاصل کر لی ہے میرے لیے یہی کافی ہے۔ کیونکہ نہ ہی میرے ماں باپ کے پاس اتنا پیسہ کہ میں آگے کی پڑھائی کو جاری رکھ سکوں۔ اس لیے میں نے پڑھائی چھوڑ دی ہے۔ میرے گاؤں میں اور بھی بہت ساری لڑکیاں ہیں جو یہی سوچ کر گھر بیٹھی ہیں اور گھر کا سارا کام سر انجام دیتی ہیں۔ میں خود ایک غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہوں۔ گھر کے سارے کام کاج خود کرتی ہوں اور کپڑے وغیرہ سلائی کر کے گھر کا خرچہ بھی چلاتی ہوں۔ کاش، میرے لیے پڑھائی کے لئے کچھ انتظامات ہوتے تو میں اپنے ماں باپ کا نام اور معاشرے کا نام روشن کرتی۔ لیکن کیا کیا جائے؟ کہیں پر معاشرہ اجازت نہیں دیتا ہے؟ کہیں پر گھر والے اجازت نہیں دیتے؟ اور کہیں غربت منہ کے بل گرا دیتی ہے۔ ہمارے اس علاقہ چھپرا میں نوجوان لڑکیاں اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی پڑھائی سے محروم ہیں۔ کئی جگہوں پر اسکول کا نام تک نہیں اور جہاں پر لڑکیاں تعلیم حاصل کر بھی رہی ہیں، ان کو کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔جب وہ سکول جایا کرتی تھی توسکول ہمارے گائوں سے دس کلومیٹر دور تھا، راستے میں کئی طرح کی پریشانیاں آتی تھیں۔ جنگل بہت زیادہ گھنا ہے، جنگلی جانوروں کا خطرہ ہر وقت رہتا ہے اور ہم جب بھی اسکول جاتے تو راستے میں کئی دفعہ ایسا واقعے پیش آئے کہ کہیں اسکولی طلباء کو جنگلی جانوروں نے نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا، اسکول میں دیر سے پہنچنے میں پڑھائی کا نقصان ہو جاتا تھا۔ اس وجہ سے میرے سمیت کئی لڑکیوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ میں انتظامیہ سے یہی کہونگی کہ ہمارے علاقہ کی طرف بھی توجہ مرکوز کیجئے۔ ہم نوجوان لڑکیوں کی پڑھائی نہ صرف غربت بلکہ کوئی بھی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ادھوری رہ گئی ہے۔ سڑکیں نہیں ،پانی نہیں اور نہ ہی یہاں ہائی ا سکول ہے۔ جہاں ہماری معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں وہیں گورنمنٹ کی اسکیموں کی طرف سے بھی ہمیں کوئی امداد نہیں ملتی ہے۔
الفت بی کے والد محمد اکبر عمر پچاس سال،لڑ کیوں کے تعلیم کے سلسلے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے۔اس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ یوں تو تعلیم نسواں کے حوالے سے بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں۔ تحریک چلائی جاتی ہیں، دعوے کیے جاتے ہیں، مگرسوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارے ملک نے وہ ہدف حاصل کر لیا ہے جس کے خواب ہم نے دیکھے تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ میں دن کو محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ میرے چار بچے ہیں دو بیٹیاں ،دو بیٹے ہیں۔ ہمارا یہ علاقہ بہت ہی پچھڑا ہوا ہے۔ کوئی بھی بچہ اچھی طرح سے اپنی تعلیم حاصل نہیں کر سکتاہےاور ہماری نوجوان نسل تعلیم سے محروم ہے۔ خاص کر کے نوجوان لڑکیاں، جن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے، وہ آج اپنے گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ہمارا یہ علاقہ ایسا ہے کہ یہاں انسان کا گزر بسرکرنا بہت مشکل ہے، جہاں نہ سڑک ہے، نہ پانی ہے اور نہ ہی کوئی بہترا سکول۔ اسی لئے ہمارے یہاں کی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے پڑھائی سے محروم رہ گئے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک مقامی ٹیچر طارق حسین کا کہنا ہے کہ واقعی یہاں پر آج کے دور میں بھی بچے اور بچیاں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہیں، یہاں بہت زیادہ غربت ہے۔اس کی وجہ سے لوگ اپنے بچے اور بچوں کوا سکولوں میں داخلہ نہیں کرواپاتے ہیں۔ہاں! اگر داخلہ کرواتے بھی ہیں تو وہ بچے صرف آٹھویں اور دسویں تک ہی پڑھ پاتے ہیں۔ ہماری طرف سے ان کو کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہاں آٹھویں تک بچوں کو کھانا بھی ملتا ہے۔مگر ابھی تک کوئی بھی بچی یا بچہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہاں پر آج تک سڑک نہیں بنی ہے،اگر سڑک ہوتی تو یہ لوگ کچھ نہ کچھ کر پاتے۔ ہم لوگ بہت دور سے ان کو پڑھانے کیلئے آتے ہیں اوربحیثیت گورنمنٹ ملازم اپنا کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔بقول اس کےاگر یہاں پر سڑک ہوتی، تو یہاں پر نہ غربت ہوتی اور نہ ہی ادھورا تعلیمی نظام ہوتا۔بس میں یہی کہنا چاہوں گا کہ یہاں کے بچوں کے مستقبل کی طرف دھیان دیا جائے، انہیں بارہویں تک مفت تعلیم کا نظام بنایاجائے تاکہ یہاں کے بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم نہ رہیں۔
اس حوالے سے جب مزید دو مقامی لڑکیوں سترہ سال کی نسیم اختراوراٹھارہ سال کی زاہدہ بی سے بات کی۔جنہوں نے بالترتیب آٹھویں،اور دسویں تک پڑھائی کرکےتعلیم چھوڑ دی ہے۔نے بھی تعلیم ادھوری چھوڑنے کی وجہ وہی بتادی جو مندرجہ بالا درج ہوئی ہے۔ان دونوں لڑکیوں کے مطابق آج بھی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے متضاد خیالات موجود ہیں اور اس قسم کے کئی منفی تصورات جہالت کی بنا پر پائے جاتے ہیں کہ لڑکیوں کو ایک خاص عمر تک پہنچنے پر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنا گھر بسانا پڑتا ہے۔ ہم یہی چاہتی ہیں کے یہاں کے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر کیا جائے تاکہ آنے والی نسل کو ہماری طرح ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔
اسی طرح ایڈوکیٹ رخسار کوثر جو کہ سوشل ایکٹیویسٹ بھی ہیں، کہتی ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم نہ رکھا جائے بلکہ ان کو اچھی تعلیم دلائی جائے۔افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ضلع پونچھ کے دیہی علاقوں خاص کر تحصیل منڈی کے چکھڑی بن، لورن، سا وجیاں ان گاؤں میں نوجوان لڑکیاں اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی تعلیم سے محروم ہیں۔ اس کی اہم وجوہات میں ا سکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی، تعلیمی اداروں پر عوام کا عدم اعتماد،ا سکولوں تک نقل و حمل کے محدود وسائل، خواتین اساتذہ کی کمی، محدود آمدنی، منفی ثقافتی اقتدار، تعلیمی اداروں کا گھروں سے دور ہونا، والدین کے حفاظتی معاملات پر تحفظات، کم عمری میں وضع حمل، ماہواری سے متعلق حفظان صحت کے انتظام کے مسائل، عالمی معیاری جائزہ اور لڑکیوں کی تعلیم، یہ تمام وجوہات آج کے دور میں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تو وہ معاشرے کا نظام بدل سکتی ہیں۔غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے صرف الفت بی، نسیم اختراور زاہدہ بی نے ہی اپنی تعلیم نہیں چھوڑا ہے بلکہ ان کے جیسی اس ملک کے دیہی علاقوں میں ہزاروں لڑکیاں ہیں۔ ایسے میں یہ حکومت، مقامی انتظامہ اور عوامی نمایندے کا فرض ہے کہ وہ ایسے وسائل اور حالات بنائیں، جہاں لڑکیاں آسانی سے تعلیم حاصل کرکے اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں۔ (چرخہ فیچرس)