صلہ کہانی

سبزار احمد بٹ

لیکن ان لوگوں کو یہاں بلانے کی کیا ضرورت
تھی ؟ ہم آپس میں بھی تو بات چیت کر سکتے تھے۔
نہیں بھیا نہیں! ان لوگوں کو میں نے ہی بلایا ہے۔ ان کو بھی پتہ چلنا چاہئے کہ ہم دونوں بھائیوں میں سے قرضدار کون ہے؟ اور ڈرامہ کون کر رہا ہے؟ راشد اور رومان باورچی خانے میں زور زور سے باتیں کرتے تھے۔ راشد کو رومان سے اس طرح کی باتوں کی بالکل بھی امید نہیں تھی ۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ رومان اتنے تلخ لہجے میں اپنے بڑے بھائی راشد سے بات کرے گا ۔کہنے کو راشد بڑا بھائی تھا رومان کا لیکن راشد نے ہمیشہ ایک باپ کا کردار نبھایا۔
راشد اور رومان عتیق اللہ کے دو بیٹے تھے ۔ عتیق اللہ کی تین بیٹیاں بھی تھیں ۔ہنستا کھیلتا پریوار تھا۔ عتیق اللہ کاروبار کرتا تھا اور اس کا شمار صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا تھا لیکن کہتے ہیں نا وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ اچانک سے عتیق اللہ کو مہلک بیماری نے دبوچ لیا۔ پانی کی طرح پیسہ خرچ کیا۔ ساری جمع پونجی ادویات کی نذر ہو گئی۔ زمین تک بیچ ڈالی۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ مال بھی گیا اور جان بھی گئی۔ راشد نے باپ کے مرنے کے بعد کاروبار سنبھالنا چاہالیکن وہاں سنبھالنے کے لئے بچا ہی کیا تھا ۔ گھر کا بڑا بیٹا ہونے کے ناطے راشد پر اپنی بوڑھی ماں، تین جوان بہنوں اور اپنے چھوٹے بھائی رومان کی ذمہ داری بھی آن پڑی۔ جب کچھ نہ بن سکا تو راشد مزدوری کرنے کے لئے مجبور ہوا۔ محنت مزدوری کر کے تین بہنوں کی شادی کرا دی۔ راشد نے اپنے دونوں بچوں کو مقامی سرکاری اسکول میں پڑھایا۔ لیکن رومان کو شہر کے اچھے سے اچھے اسکول میں پڑھایا لکھایا ۔ باپ کی کمی محسوس ہی نہیں ہونے دی ۔ گریجویشن کے بعد رومان کو مسابقتی امتحان کے لئے پڑھنے باہر بھیج دیا اورچار سال تک مسلسل پڑھاتا رہا۔ اس دوران راشد کو سخت مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑا ۔اپنا پیٹ کاٹ کر اسے مسابقتی امتحان کے لئے تیار کیا ۔ خود پرانے مکان میں رہا لیکن رومان کو پڑھایا ۔ اس دوران کئی لوگوں سے قرض بھی لینا پڑا۔ راشد قرض اٹھاتا گیا اسے امید تھی کہ رومان کا مستقبل سنور جائے گا پھر قرض چکانے میں دیر نہیں لگے گی۔ دو بار رومان مسابقتی امتحان میں لگاتار ناکام ہوا۔ اس کے حوصلے پست ہو گئے۔ وہ واپس گھر لوٹ آیا اور بھائی سے کہنے لگا کہ بھائی مجھ سے نہیں ہوگا۔ اور پیسے بھی کافی لگتے ہیں، اتنے پیسے ہم کہاں سے لائیں گے ۔
رومان پیسوں کا انتظام مجھے کرنا ہے آپ کو نہیں۔ آپ صرف پڑھائی پر دھیان دو۔ راشد یہ سب بڑے جوش سے کہہ تو رہا تھا۔ لیکن اندر ہی اندر اسے یہ پریشانی کھائے جا رہی تھی کہ پیسوں کا انتظام کیسے ہوگا ۔
شام کا وقت تھا راشد کمرے میں اکیلے بیٹھا تھا اسی سوچ میں تھا کہ بیوی کمرے میں داخل ہوئی ۔
آپ کیوں پریشان ہیں کیا بات ہے؟ کچھ نہیں بس یوں ہی
کچھ تو ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔ خدا کے لئے بتاؤ کیا بات ہے۔ مجھ سے تمہاری پریشانی دیکھی نہیں جاتی ۔
دراصل میں رومان کو لے کر فکر مند ہوں کہ اسے واپس بھیجنا ہے پڑھائی کے لیے لیکن پیسوں کا انتظام نہیں ہو پارہا ہے۔ ٹھیکیدار سے پہلے ہی ایک لاکھ لے چکا ہوں، سال بھر وہاں مزدوری کرنے کے بعد بھی وہ قرض ادا نہیں ہوگا ۔
میرے سرتاج
ایک بات پوچھوں، کہیں ناراض تو نہیں ہو جاؤ گئے۔
نہیں نہیں پوچھو کیا پوچھنا ہے
ہماری اتنی اوقات نہیں ہے کہ ہم رومان کو اتنے مہنگے ادارے میں پڑھائیں۔ ہمارا اپنا بھی بیٹا ہے اور اپنے بھی اخراجات ہیں۔ دوائی کے لئے بھی ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں ۔
بیگم یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن میں نے اپنے والد سے وعدہ کیا ہے کہ میں رومان کو اچھے سے اچھے ادارے میں پڑھاؤں گا۔ اور کچھ ہی وقت کی تو بات ہے، ایک بار رومان آفیسر بن گیا پھر کیا ہماری تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔
آپ حکم کیجئے میرے سرتاج آپ کے لئے تو میری جان بھی حاضر ہے۔ راشد کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ اس نے اپنی بیگم کا ہاتھ محبت سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اور کہا ۔ آپ کے جو زیورات ہیں وہ سب مجھے دے دو میں وہ بیچ دوں گا اور رومان کے لئے فیس اکھٹا کروں گا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں ایک بار رومان آفیسر بن گیا میں اس سے زیادہ زیورات تمہیں لاکر دوں گا۔ بیگم نے بنا کچھ کہے اپنے سارے زیورات لائے اور راشد کے حوالے کر دیئے ۔ راشد نے وہ زیورات بیچ دئیے اور اس طرح سے رومان کے پھر سے باہر جانے کا بندوبست ہوگیا۔وقت گزرتا گیا راشد یکے بعد دیگرے قربانیاں دیتا گیا۔ یہاں تک کہ فاقہ کشی کی نوبت آگئی۔ اپنے بیٹے کی نہ صرف پڑھائی متاثر ہوئی بلکہ معیاری کھانا نہ ملنے کی وجہ سے اس کی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہونے لگے۔ غنیمت تھی کہ راشد کی بیوی صابر، ہمدرد، فرمانبردار اور نیک عورت تھی جو یہ سب کچھ برداشت کرتی رہی۔ کبھی اگر وہ اس حوالے سے بات کرتی بھی تھی تو راشد اسے یہ کہہ کر چپ کراتا تھا کہ ایک بار رومان آفیسر بن جائے پھر دیکھنا ہمارا اچھا وقت آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ بیچاری خاموش ہوجاتی تھی۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ہی رہتی تھی لیکن اپنے شوہر کو خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ ۔ آج سے آٹھ مہینہ پہلے رومان مسابقتی امتحان میں کامیاب ہو گیا اور ایک بہت بڑا آفیسر بن گیا ۔ تب جا کر راشد نے راحت کی سانس لی ۔ کہ اب اس کا قرض بھی اتر جائے گا، بیوی کے زیورات واپس لانے میں بھی مدد ملے گئی۔ اور بیٹا بھی کسی اچھے سکول میں پڑھ سکے گا۔ لیکن ملازمت ملنے کے بعد رومان کے تیور بدلے بدلے سے لگے آٹھ مہینے اسی طرح گزر گئے اورآج راشد نے جب رومان سے اس کی تنخواہ کے بارے میں پوچھا تو رومان آگ بگولہ ہوگیا۔ وہ فوراً باہر گیا اور گاؤں کے چند ذمہ دار لوگوں کو بلا کر لایا ۔ راشد ہکا بکا رہ گیا۔ سب لوگ ایک کمرے میں جمع ہوئے۔ رومان نے ان سب سے مخاطب ہو کر کہا، میرا یہ بھائی بار بار کہتا ہے کہ میں مقروض ہوگیا اور مجھ سے میرے تنخواہ کا تقاضا کر رہا ہے، آپ اس سے ذرا پوچھئے کہ اس نے ایسا کیا کیا جو یہ قرضدار ہو گیا ۔ سب لوگ راشد کی طرف دیکھنے لگے۔ راشد سہم سا گیا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ رومان بول رہا ہے۔ اس سے کوئی جواب نہ بن پایا ۔ جیسے کسی نے اس کی زبان کاٹ دی ہو بس ماتھے سے پسینہ ٹپکنے لگا۔ رومان اور تیش میں آیا اور کہنے لگا ۔
یہ ڈرامہ بند کرو آپ کو پتہ ہے مجھے کتنا قرضہ ہے۔ سننا چاہو گے آپ سب ۔ ہاں ہاں بولو کتنا قرضہ ہے پنچائیتوں میں سے کسی نے کہا۔ راشد حیران ہوا کہ آخر رومان کیونکر قرضدار ہوا۔
سن لو آپ سب کہ میں کتنا قرضدار ہوں اور آپ ہی فیصلہ کرو کہ کس کو کس کی مدد کرنی چاہیے۔ میں ایک آفیسر ہوں جوائن کرتے ہی میں نے بنک سے پندرہ لاکھ کی گاڑی لی ہے جس کا قرضہ ابھی مجھ پر باقی ہے اور میرے بھائی نے کیسے سوچ لیا کہ میں اس گاؤں میں رہوں گا میرا تو یہاں دم گھٹنے لگا ہے اس لئے میں نے سٹی میں ایک مکان لیا ہے اور اس کے لئے بھی میں نے بنک سے بیس لاکھ کا لون لیا ہے۔ رہی بات میرے آفیسر بننے کی تو یہ سب میری محنت ہے بس ۔
پوچھئے میرے بھائی سے کہ قرضدار کون ہے وہ جس پر چار لاکھ کا قرضہ ہے یا میں جس پر پینتیس لاکھ کا قرضہ ہے۔ راشد کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ حلق میں اٹک گئے اور نظریں دروازے پر بیٹھے بیٹے پر جم گئیں جو پھٹے پرانے کپڑوں میں تھا اور جس کے ہاتھ میں ایک ٹوٹی ہوئی پینسل تھی۔
���
اویل نورآباد،کولگام
موبائل نمبر؛7006738436